سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کےمصر کے پہلے سرکاری دورہ کا مشرق وسطی کے اخباروں میں بڑا چرچا رہا۔بالخصوص 2، 3 اور 4 مارچ 2018 کے اخباروں نےمتعدد اداریے اور مضامین اس دورہ کے تجزیہ پر وقف کیے۔
شامی بحران جوں کا توں برقرار ہے۔ اگرچہ پچھلے ہفتہ اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل نے 30 دنوں کی جنگ بندی کے لیے قرارداد نمبر 1401پاس کیا تھا ، لیکن عملی طورپراسدی افواج اورشامی گیم میں شامل دیگر پلیئر پر اس کا کوئی خاص اثر نہیں ہوا، اور مختلف طریقوں اور ناموں سے لڑائی اور بمباری ابھی جاری ہے۔ اس مسئلہ کو لے کر مغربی ممالک خصوصا ًفرانس جرمنی اور امریکی صدر پچھے دنوں کافی متحرک نظر آئے اور ان کے درمیان شامی مسئلہ اور روس کےجدید ہتھیاروں کے تعلق سے کافی سرگرمیاں اخبارت میں شائع ہوئیں۔ ان لیڈروں کی ٹیلی فون پر گفتگو بھی ہوئی ہے اور آنے والے دنوں میں شامی حکومت کو سبق سکھانے کی تیاری کے بارے میں اخبارات میں چہ می گوئیاں چل رہی ہیں۔
لندن سے شائع ہونے والے بین الاقوامی اخبار “الشرق الاوسط” کے مطابق شامی حکومت کی سرکوبی کے لیے امریکہ اوریورپ کی جانب سے نیو یارک اور جینوا میں اقوام متحدہ کے لیول پر حرکت شروع ہوگئی ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ، فرانسیسی صدر ایمانول ماکرون اور جرمن چانسلر انجیلا میرکل کے درمیان اس بات پر مفاہمت ہوچکی ہے کہ روس پر قرارداد نمبر 2401 کے عملی نفاذ کےلیے دباؤ بنایا جائے اور شامی حکومت کی کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر سرکوبی کی جائے ۔ قابل ذکر ہے کہ اسی دوران امریکی بحری بیڑا اسرائیل کے ساتھ فوجی مشق کے لیے بحر متوسط میں پہنچ چکا ہے۔
روزنامہ “الشرق الاوسط” کو نیویارک میں مغربی ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ امریکہ نے شامی حکومت کے کیمیائی اسلحہ کے استعمال میں ملوث ہونے کے بعد اسدی حکام اور داعش کے محاسبہ کا پختہ ارادہ کرلیا ہے اور مغربی ذرائع نے مزید بتایا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ دوقراردادوں کے ذریعہ اس مقصد تک رسائی کےلیے مستقل کام کررہی ہے۔
خالد الدخیل نے روزنامہ “الحیاۃ“میں ” شام کے تعلق سے عربوں کا موقف” کے عنوان کے تحت لکھا ہے” سرزمین شام پر جو جنگی جرائم انجام دیے جارہے ہیں اور “حماہ کے حادثہ ” کے طرز پر جس طرح سے شامیوں کو منظم طریقہ سے ملک چھوڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے، ان واقعات پر عرب ممالک اور سربراہان کی خاموشی چہ معنی دارد؟ اس وقت کبھی جسر الشغور مقتل بن جاتا ہے اورکبھی حمص اور ادلب ۔ کبھی درعا اور حلب پر موت اور قہر رقص کرتاہے اور کبھی غوطہ سے خاک وخون کے شرارے بلند ہوتے ہیں ۔ اگرشام میں رونما ہونے والے واقعات کےتئیں انٹرنیشنل کمیونٹی کا موقف دیکھتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے لیکن عربوں کی پوزیشن اس سے زیادہ پریشانی میں مبتلا کرنے والی ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عرب شام میں ابھرتے فرقہ واریت کی عفریت اور خارجی مداخلت کے سامنے بے بس ہیں، بلکہ کئی مرتبہ لگتا ہے کہ انہیں اس کی کوئی فکر نہیں ہے”۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کےمصر کے پہلے سرکاری دورہ کا مشرق وسطی کے اخباروں میں بڑا چرچا رہا۔بالخصوص 2، 3 اور 4 مارچ 2018 کے اخباروں نےمتعدد اداریے اور مضامین اس دورہ کے تجزیہ پر وقف کیے۔ اسی ضمن میں ایک اداریہ مصر کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے اخبار “الاہرام” میں شائع ہوا ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ شاید اس بات پر کسی کو اختلاف ہو کہ مصر اور سعودی کے تعلقات جس نوعیت کے ہیں اس نوعیت کے تعلقات کسی دوسرے دوملکوں کےدرمیان نہیں ہیں۔ اوریہی وجہ کہ ہر وقت اور ہر آن ان تعلقات پر تاکید کی ضرورت رہتی ہے اور موجودہ حالات کے تناظرمیں اس کی ضرورت کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت عربوں کے سامنے بے شمار مسائل ہیں اور علاقہ کے دھماکہ خیز حالات کے سیاق میں آنے والے ایام بہت ہی پیچیدہ ہوں گے۔ ان چیلنجز کی روشنی میں دونوں ممالک کے درمیان مفاہمت اور ہم آہنگی بالکل فرض عین ہوجاتی ہے۔ قابل ذکرہے کہ یہ دونوں ممالک حالیہ عرب ممالک کی صف میں سب سے اہم اور بڑے ممالک ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ عرب قوم کی سیکوریٹی خطرہ کے دہانہ پر ہے اور اگر ہر ملک علاحدہ علاحدہ کام کرے تو اس کی حفاظت ناممکن ہوجائے گی اس لیے تمام عرب ممالک کو ایک نقطہ پر لانا ضروری ہے۔ تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ سعودی عرب اور مصر کے مفادات ملتے جلتے ہیں اور کسی بھی میدان میں الگ نہیں ہیں، جس میں سعودی کا فائدہ ہے اسی میں مصر کا فائدہ ہے اور جو مصر کے لیے مفید ہے وہی سعودی عرب کے لیےبھی نفع بخش ہے۔ اسی پس منظر میں سعودی ولی عہد کا تاریخی دورہ مصر اتوار بتاریخ 4 مارچ 2018 سے شروع ہورہا ہے۔ سعودی ولی عہد اور مصری صدر کے درمیان جن موضوعات پر مذاکرات ہوں گے وہ دونوں ممالک کے دلچسپی کے امور کے علاوہ عرب ممالک کے مسائل اور عرب خطہ میں عالمی تبدیلیوں پر مرکوز ہوں گے۔ مصری قوم شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی ایک خاص وقعت کی نظرسے دیکھتی ہے اور ولی عہد سعودی عرب میں ماڈرنزائشن کے لیے جو کاوشیں کررہے ہیں ،مصری قوم اسے پسندیدگی کی نظر سے دیکھتی ہے، لہذا ولی عہد محمد بن سلمان کا ان کے دوسرے وطن مصر میں خوش آمدید۔
دیگر اخباروں کے ساتھ ساتھ روزنامہ “الشرق الاوسط” نے اردن کے شاہ عبداللہ دوم کے دورہ ہند کو نمایاں طور پر شائع کیا ۔ اخبار کے مطابق اردن کے شاہ عبداللہ دوم کے دورہ نئی دہلی کے دوران ہندوستان اور اردن نے 12 مفاہمتی امور پر دستخط کیے۔جن کا تعلق دفاعی صنعت، عسکری اسٹڈی، سائبر سیکوریٹی، عسکری طبی سروسز وغیرہ امور سے ہے۔ اردن کے شاہ کا یہ دوسر ا سرکاری دورہ ہند ہے ، اس سے پہلے انہوں نے 2006 میں ہندوستان کا دورہ کیا تھا۔ ہندوستانی اہلکاروں نےاردن کے ساتھ مستحکم تعلقات بنانے میں کافی دلچسپی دکھائی ۔ کیونکہ عرب علاقہ میں اردن کے پاس سب سے زیادہ مؤثر استخباراتی نظام ہے۔ اور ہندوستان پورے جنوبی ایشیا میں امن واستحکام کا گہوارہ سمجھاجاتا ہے ، باخبر ذرائع کے مطابق دونوں ممالک ،مشترک دفاعی تعاون کے فریم ورک کو حتمی شکل دینے کےسلسلے میں کافی پرامید ہیں۔
وزارت خارجہ میں اقتصادی تعلقات کے آفیسر ٹی، ایس، مورتی کے مطابق شاہ عبداللہ نے مغربی ایشیا میں ہندوستانی موقف اور کردار کی تعریف کی ۔ اور دفاعی تعاون کی تفصیل بتاتے ہوئے مذکورہ آفیسر نے کہا کہ یہ ایک فریم ورک لیول کا معاہدہ ہے جس کی رو سے دونوں ممالک چند معروف میدانوں میں تعاون کریں گے مثال کے طور پر ٹریننگ،دفاعی صنعت، دہشت گردی کی بیخ کنی، ملٹری اسٹڈیز، سائبر سیکوریٹی، عسکری طبی سروسز اور امن وسلامتی سے متعلق دیگر امور۔
Categories: خبریں, عالمی خبریں