فنانس سیکرٹری ہس مکھ ادھیا کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ قیمتی تحفہ توشہ خانہ بھجوا دیا تھا، لیکن وہ یہ نہیں بتا پائے کہ انہوں نے اس بارے میں جانچکے حکم کیوں نہیں دئے۔
نئی دہلی : ایک حیرت انگیز انکشاف میں مرکزی فنانس سکریٹری ہس مکھ ادھیا نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ 2016 میں دیوالی کے وقت ان کوانام آدمی کے ذریعے 20-20 گرام کے دو سونے کے بسکٹ بھیجے گئے تھے۔ اس بات کے قریب دو سال گزر جانے کے بعد بھی اس شخص کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں ہے۔
نہ ہی فنانس سکریٹری نہ ہی ان کے محکمے کے وزیر ارون جیٹلی نے اس شخص کی پہچان اور مقصد کو جاننے کے لئے کسی تفتیش کا حکم دیا، جس نے غالباً ملک کے طاقتور افسروں میں سے ایک کو رشوت دےکر متاثر کرنے کی کوشش کی۔
اس تحفے کی قیمت قریب دو لاکھ روپے بتائی گئی ہے۔ ادھیا اس وقت ریونیو سکریٹری کے اہم عہدے پر فائز تھے۔ اس عہدے کی اہمیت اس بات سے سمجھی جا سکتی ہے کہ وہ ان چند لوگوں میں سے ایک تھے، جن کو 8 نومبر 2016 کو وزیر اعظم کے ذریعے لئے گئے نوٹ بندی کے فیصلے کے بارے میں جانکاری تھی۔
ادھیا نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ یہ سونا نیو موتی باغ میں ان کے گھر بھیجا گیا تھا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ جب یہ تحفہ پہنچا، تب وہ گھر پر نہیں تھے اور نہ ہی ان کو اس کو بھیجنے والے دریادل شخص کے بارے میں کچھ پتا ہے۔ لیکن ملک کے طاقتور ریونیو سکریٹری کو ‘ رشوت دینے اور متاثر ‘ کرنے کی اس کوشش کے بارے میں سی بی آئی جانچ کا حکم دینے کے بجائے ادھیا نے کہا کہ انہوں نے یہ سونے کے بسکٹ حکومت کے توشہ خانہ بھیجوا دئے۔
توشہ خانہ وزارت خارجہ کے ذریعے دیا جانے والا ایسا نظام ہے، جس کے تحت افسروں اور وزراء کو ملے ایک طےشدہ قیمت سے زیادہ کے تحائف کو جمع کرنا ہوتا ہے۔
غور کرنے والی بات ہے کہ ذرائع کے مطابق یہ تحفہ ملنے کی تصدیق کرنے کے محض 24 گھنٹے پہلے ادھیا نے کروڑپتی ہیرا کاروباری نیرو مودی سے کوئی بیش قیمتی تحفہ ملنے اور اس کوتوشہ خانہ بھیجنے کی بات سے انکار کیا تھا۔ نیرو مودی ہیرا کاروباری ہیں، جن پر ملک کے دوسرے سب سے بڑے سرکاری بینک پنجاب نیشنل بینک سے 12000 کروڑ روپے سے زیادہ کی دھوکہ دھڑی کرنے کا الزام ہے اور جو کسی نامعلوم جگہ چھپے ہوئے ہیں۔
دی وائر کو اسی دن بھیجے گئے ایک تحریر ی جواب میں ادھیا نے ‘ نہیں ‘ لکھا اور کہا، ‘ مجھے تعجب ہے کہ کسی ڈِفالٹر گروہ کے ذریعے پھیلائی جا رہی ایسی جھوٹی کہانیوں پر آپ کیسے رپورٹ کر سکتے ہیں؟ ‘
اپنے ذرائع سے اس تحفے کے ادھیا کے گھر پہنچنے کی بات کی دوبارہ تصدیق کرنے کے بعد دی وائر نے 7 مارچ کو ادھیا کو دو سوال بھیجے۔ پہلا، کیا ان کے دفتر کے ذریعے توشہ خانہ میں دیوالی کے بعد 5 گولڈ بار جمع کروائے گئے تھے اور دوسرا، کیوں ان کے دفتر کے ذریعے یہ نہیں بتایا کہ یہ تحفہ کس نے بھیجا ہے۔ 2016 میں دیوالی 30 اکتوبر کو تھی۔
ان سوالوں کے جواب ای میل میں بھیجتے ہوئے ادھیا نے کہا کہ وہ دیوالی کے وقت کبھی کوئی مہنگے تحفے قبول نہیں کرتے ہیں۔
انہوں نے لکھا، ‘ 4 نومبر کو میں نے کابینہ سکریٹری کو اس بارے میں مطلع کرتے ہوئے ایک خط بھیجا تھا۔ ‘
ان کے مطابق اس خط میں انہوں نے لکھا تھا، ‘ حال ہی میں دیوالی کے دوران، مجھے کچھ اس طرح کے تحفے ملے جو قیمتی تھے اور جن کو اصول کے مطابق میں منظور نہیں کر سکتا۔ کیونکہ یہ میری غیرموجودگی میں میرے گھر پہنچے تھے، میں ان کو نامنظور نہیں کر سکا۔ اب یہ پتا کرنا کہ مجھے یہ کس نے بھیجا، مشکل ہے۔
اس لئے میں ان کو حکومت کے توشہ خانہ میں سرینڈر کر رہا ہوں جہاں اس سے نیلامی یا جیسا اصول ہو، اس طرح نپٹا جا سکے۔ سرینڈر کئے جا رہے تحفے ہیں :
ایک نیا آئی فون 7
2 ایم ایم ٹی سی مارک سونے کے بسکٹ (دونوں 20 گرام کے) ‘
ادھیا نے دی وائر کو بتایا کہ ‘ کابینہ سکریٹری کی و ہدایت کے مطابق ‘ ان تحائف کو وزارت خارجہ کے توشہ خانہ میں بھیجوا دیا گیا تھا۔
جہاں ادھیا نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ یہ سونا ان کو ہیرا کاروباری نیرو مودی نے نہیں بھیجا، وہیں جانچ نہ ہونے کی وجہ سے اس بھیجنے والے کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں ہے۔
توشہ خانہ میں سونا جمع کرنے کا کوئی رکارڈ نہیں
غور طلب ہے کہ وزارت خارجہ میں جمع کروائے گئے تحائف کی ایک پوری آن لائن رجسٹری لسٹ بنا کر رکھی جاتی ہے، لیکن اکتوبر 2016 سے دسمبر 2016 یا اس کی اگلی سہ ماہی میں بھی ہس مکھ ادھیا کے ذریعے جمع کروائے گئے کسی تحفے کی کوئی انٹری نہیں ہے۔
واضح ہو کہ راشٹرپتی بھون میں صدر کو ملے ہوئے تحائف کے لئے ایک الگ توشہ خانہ ہے۔ کہیں ریونیو سکریٹری کے دفتر کے ذریعے بھول سے تحفہ وزارت خارجہ کے بجائے اس توشہ خانہ کو نہ بھیجوا دیا گیا ہو، یہ سوچ کر دی وائر کے ذریعے راشٹر پتی بھون سے بھی رابطہ کیا گیا۔اس معاملے میں صدر کے میڈیا صلاح کار اشوک ملک نے بتایا کہ راشتر پتی بھون کے توشہ خانہ میں صرف صدر کو ملے تحفے ہیں اور ان تحائف کو راشٹر پتی بھون کے احاطے میں بنے میوزیم میں رکھا گیا ہے۔
جانچ کا حکم نہ دینے پر سوال
جب اس نامہ نگار نے ادھیا سے فون پر ہوئی بات چیت میں جانچ کے حکم نہ دینے کے بارے میں پوچھا، تب انہوں نے جواب دیا، ‘ اہم یہ ہے کہ میں نے یہ تحفہ منظور نہیں کیا۔ دیوالی کے وقت یہ باتیں عام ہیں اور اخلاق و آداب کے تحت ہم مٹھائی جیسی چیزوں کے لئے منع نہیں کر سکتے۔ لیکن پھر کتنے افسر ہوںگے جنہوں نے میری طرح تحفے کو توشہ خانے میں بھیجوایا ہوگا؟ ‘
مرکزی وزارت خزانہ کے سابق ایکسپینڈچر سکریٹری رہے ای اے ایس شرما نے دی وائر سے بات کرتے ہوئے کہا، ‘ یہ تحفہ کیوں بھیجا گیا، کم سے کم ادھیا اس بارے جانچکے حکم دے سکتے تھے اور بھیجنے والے کو حکومت کی ناراضگی جتا سکتے تھے۔ ‘ انہوں نے آگے کہا کہ سونے کے بسکٹ کوئی عام تحفہ نہیں ہیں اور صاف ہے کہ یہ ایک اہم عہدے پر فائز افسر کو رشوت دینے کے مقصدسے بھیجے گئے تھے۔
انہوں نے کہا، ‘ ایک نجی کمپنی کے پرموٹر کا ایک سرکاری افسر کو سونے کے بسکٹ تحفے میں دینا، وہ بھی وہ افسر جو ٹیکس سے جڑے معاملے دیکھتا ہے، ایک سنگین معاملہ ہے۔ جہاں ایسے تحائف کو حکومت کو سرینڈر کرنا ضروری ہے، ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ ایسے لوگوں اور کمپنیوں کو ایک سخت پیغام دیا جائے کہ حکومت آگے ایسی کوئی حرکت برداشت نہیں کرےگی۔ جانچ کا حکم نہ دینے سے نہ صرف کمپنی پرموٹر کو معاف کر دیا گیا بلکہ یہ اشارہ بھی گیا کہ کوئی شہری ایسا کوئی گھٹیا کام کرکے آرام سے نکل سکتا ہے۔ ‘
شرما نے اپنی مدت کے دوران سینئر نوکرشاہ پی وی آر کے پرساد کے ساتھ ہوا ایک تجربہ بھی شیئر کیا۔ پرساد کو بھی دیوالی کے دوران ایک پیکیٹ ملا تھا جب وہ گھر پر موجود نہیں تھے۔
شرما نے بتایا، ‘ یہ کسی ٹھیکے دار نے بھیجا تھا۔ ان کے بچّوں نے یہ سمجھکر کہ اندر مٹھائی ہوگی اس کو کھولا اور اس کے اندردو تین لاکھ روپے نقد تھے۔ پرساد وہ پیکیٹ لےکر سیدھے اینٹی راما راؤ کے پاس بھاگے، جو اس وقت آندھرا پردیش کے وزیراعلیٰ تھے۔ اس کے بعد جانچ کے حکم جاری ہوئے اور اس ٹھیکے دار کے خلاف کارروائی کی گئی۔ ‘
شرما کا کہنا ہے کہ اگر ادھیا کو یہ تحفہ بھیجنے والے کے بارے میں تفتیش نہیں ہوئی تو اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ کوئی ایسا ہے جو حکومت کے اوپری محکمے میں پہنچ رکھتا ہے۔
Categories: خبریں