فکر و نظر

پرسار بھارتی پر قبضے کی چاہت ہی موجودہ جھگڑے کی جڑ ہے

پرسار بھارتی میں وزارت اطلاعات و  نشریات کی بڑھتی مداخلت اس بات کا ثبوت ہے کہ وزارت چیزوں کو بہتر بنانے کی بجائے ہر چیز پر کنٹرول قائم کرنا چاہتی ہے۔

सूचना और प्रसारण मंत्री स्मृति ईरानी. (फोटो: पीटीआई)

فوٹو: پی ٹی آئی

وزیر اطلاعات و نشریات کے طور پرنئے سیریل میں اسمرتی ایرانی کا کردار یقینی طور ان کے تمام پچھلے ساس بہو سیریلوں سے کہیں زیادہ دلچسپ ہے۔  یہ جاننا کافی خوشگوار ہے کہ اداکاری کی ان کی قابلیت بچی ہوئی ہے۔وہ بھلے ایک کے بعد ایک اپنے ہی اکھاڑے میں کئی گول داغتی رہیں لیکن جب تک ترشول مخالف کے سینے کے آرپار جا سکتا ہے تب تک ان کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔اس نئے معاملے میں ان کے دشمن ہیں اے سوریہ پرکاش۔پرسار بھارتی کے صدر سوریہ پرکاش کا تعلق وویکانند فاؤنڈیشن سے ہے اور وہ بی جے پی و سنگھ کی اعلیٰ نسل کے وفاداروں میں سے ہیں۔جب انہوں نے پلٹ‌کر برابر کا وار کیا تب انہوں نے یقینی طور پر جرأت کا ثبوت دیا۔  وہ ایسا کر سکتے ہیں اس کی امید کم لوگوں کو ہی تھی  لیکن سچائی یہ بھی ہے کہ ان کا وجود ہی اس لڑائی پر ٹکا ہوا ہے۔انہوں نے یہ ماننے سے انکار کر دیا کہ صدر کے طور پر ان کا کوئی کردار یا طاقت نہیں ہے اور ان کا کام صرف بورڈ کے اجلاس کی صدارت کرنا ہی ہے۔

وزیر اعظم بننے کے بعد نریندر مودی کو پرسار بھارتی کا جو صدر وراثت میں ملا،اس کے بارے میں انھیں یہ لگتا تھا کہ وہ بہت زیادہ مخالفت کرتاہے اور عوامی براڈکاسٹر  کی خود مختاری (جس کا وعدہ تو خوب کیا گیا مگر جو کبھی حقیقت میں دیا نہیں گیا) کو ضرورت سے زیادہ سنجیدگی سے لے رہا ہے۔یہ دیکھتے ہوئے انہوں نے اس کے اوپر ایک ‘اگزیکٹو چیئرمین ‘بیٹھانے کا فیصلہ کیا حالانکہ ایسا کرنا قانون کےخلاف تھا۔  پرکاش کو تنخواہ کے ساتھ فرسٹ کلاس میں سفر کی سہولت ملی ہوئی ہے۔اکتوبر 2014 میں پرسار بھارتی میں ان کو بٹھائے جانے کے بعد دوردرشن (ڈی ڈی)، آل انڈیا ریڈیو اور یہاں تک کہ منڈی ہاؤس میں واقع پرسار بھارتی ہیڈکوارٹر کے کارپوریٹ آفس کے لوگ بھی نئی حکومت کا آشیرواد پانے کے لئے ان کے دروازے کے سامنے قطار میں کھڑے ہو گئے۔ان شروعاتی کچھ دنوں میں، خاص کر ‘ باغی ‘ سی ای او کو کام کرنے کی میعادختم ہونے سے پہلے ہی باہر کا راستہ دکھانے کے بعد اطلاعات و نشریات وزارت اور پرسارر بھارتی نے قدم تال ملا کر کام کیا ہوگا۔

مگر اب پرسار بھارتی کی تاریخ کا سب سے بھدا جھگڑا سامنے آنے سے ہمیں یہ پتا چل رہا ہے کہ یہ اقتدار میں بیٹھے لوگوں کی خوش فہمی تھی کہ اپنے اکھاڑے کے صدر ہونے محض سے سکون اوراچھا اعتماد قائم کر لیا جائے‌گا۔سوریہ پرکاش اور اسمرتی ایرانی کے ایک دوسرے کے خلاف تلوار کھینچ لینے سے یہ پرانی کہاوت ثابت ہو رہی ہے کہ کوئی مستقل دوست یا مستقل دشمن نہیں ہوتا ہےصرف مستقل فائدے ہوتے ہیں۔اور چونکہ دونوں خیمے سیاسی رسوخ کے معاملے میں کسی سے کم نہیں ہے اس لئے پرسار بھارتی کے اعلیٰ انتظامیہ نے بھی صحیح اور غلط کے خیال کو ملتوی کر دیا ہے اور وہ ایرانی اور پرکاش دونوں کے نام سے قسمیں کھا رہے ہیں۔

Statutory bodyکے طور پر تشکیل شدہ پرسار بھارتی میں وزارت اطلاعات و نشریات کی بڑھتی مداخلت اس بات کا ثبوت ہے کہ وزارت چیزوں کو بہتر بنانے کی جگہ ہر چیز پر کنٹرول قائم کرنا چاہتی ہے۔یہ اس بات کی بھی اچھی مثال ہے کہ آزادی کے بعدکے ہندوستان میں رہنما اور افسرشاہ کس طرح سے پرمٹ کوٹہ راج  میں ان کو ملی طاقت کی بھرپائی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب تک ضرورت سے بڑے سائز کی وزارتوں کا وجود رہے‌گا اور جب تک ان پر افسرشاہوں کی حکومت رہے‌گی وہ اپنے تسلط کا مظاہرہ کرنے کی کوشش ضرور کریں‌گے۔  ان پر مودی کے ‘Minimum Goverment’ کے جملے کا کوئی اثر نہیں پڑنے والا۔

عوامی شعبے کی کارجوئی بینکوں اور ‘ خود مختار ادارے ‘ کو اب وزراء اور بابو کے سنکی رویے کو سہنا پڑتا ہے۔  یہ بار بار اور کبھی بھی بدل جانے والی سرکاری ہدایتوں بے قابو مداخلت اور عوامی اداروں کے افسروں سے بات بےبات پوچھ تاچھ کے طور پر سامنے آتا ہے۔وزارتوں کو لےکر کوئی جانبداری نہ رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی مداخلت کو اکثر ان کے ذریعے بورڈ میں تقرری کئے گئے لوگوں کے ذریعے شکرگزاری کو بڑھاوا دیا جاتا ہے۔  اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ آخر پرسار بھارتی بورڈ میں ایسے لوگ کیوں نہ بھرے جائیں جن کی وفاداری وزیر اعظم دفتر یا آر ایس ایس کے تئیں ہو۔آخرکار ہر چھوٹی یا بڑی تقرری وزیر اعظم دفتر کے سخت کنٹرول میں ہوتی ہے جو فیصلہ لینے میں سالوں کا وقت لیتا ہے۔ بھلے اس دوران متعلقہ تنظیم کا کام کاج ٹھپ ہونے کی ہی حالت میں کیوں نہ آ جائے۔ اب کسی کو یہ امید نہیں کرنی چاہیے کہ بیجی ورگیز جیسا کوئی نڈر صحافی یا مظفر علی جیسا کوئی فلم ساز  پرسار بھارتی بورڈ کی دلکشی بڑھائے‌گا۔

یہ بات سب کو اچھی طرح سے معلوم ہے کہ ان معاملوں میں کسی وزیر کی کچھ نہیں چلتی ہے سوائے ان لوگوں کے ساتھ کام کرنے کے جن کو تقرری کرنے میں ان کا کوئی رول نہیں ہے۔دراصل جھگڑے کی جڑ یہی ہے۔  وہی بورڈ جو آج وزارت سے اتنا ناراض ہے اسی نے حال ہی میں پرسار بھارتی کے سی ای او کے مثبت تجاویز کا گلا گھونٹنے کے لئے وزارت کے ساتھ سانٹھ گانٹھ کر لی تھی۔اور ایسا کرنے کی وجہ بس اتنی تھی کہ ‘ یہ منتری جی کی خواہش تھی۔  ‘ اس بات کے ثبوت کے طور پر کافی تحریری دستاویز موجود ہیں۔

 لیکن سوال ہے کہ اگر پرسار بھارتی کو پارلیا مانی قانون کے تحت  تشکیل دیا گیا تھا تو پھر اسمرتی ایرانی اس پر اپنی من مرضی تھوپنے کی کوشش کیسے کر سکتی ہیں؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ پرسار بھارتی ایکٹ میں ہی بورڈ میں سیاسی تقرری کا انتظام کیا گیا ہے۔  اس سے بھی زیادہ خطرناک اس میں دو آرٹیکل 32 اور 33 کا ہونا ہےجو طے کرتے ہیں کہ سارے اہم فیصلوں کے لئے وزارت کی اجازت لی جائے‌گی۔ایک سابق نوکرشاہ نے کبھی کافی فخر کے ساتھ کہا تھا کہ اس طرح کے تمام قوانین میں ایسے چھپے ہوئے بٹنوں کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ یہ متعین کیا جا سکے کہ ‘ خودمختاری قابو سے باہر نہ نکل جائے۔  ‘

اس ایکٹ کے تحت پارلیامنٹ کی طرف سے پرسار بھارتی کے کام کاج کی دیکھ ریکھ کرنے کے لئے ایک 22 رکنی پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کی بات کی گئی ہے۔ان کا انتخاب پارلیامنٹ کے دونوں ایوانوں سے متناسب نمائندگی کے نظام سے ہونا ہے۔  لیکن کسی بھی حکومت نے آج تک اس کمیٹی کی تشکیل نہیں کی ہے کیونکہ یہ اپنی طاقت کو قربان نہیں کرنا چاہتی اور بی بی سی کی طرح پرسار بھارتی کو اپنے مسائل اور منصوبوں کو وزارت کو درکنار کرکے سیدھے پارلیامنٹ کو بتانے کی حالت نہیں بننے دینا چاہتی۔یہ چلے آ رہے نظام کے خلاف ہوگا جس میں ہر وزیر کو بابو ؤں سے یہ سیکھ دی جاتی ہے کہ صرف وہ ہی پارلیامنٹ کے تئیں جواب دہ ہیں اور اس لئے وہ افسروں کو کسی بھی وقت کسی بھی وجہ سے طلب کر سکتے ہیں۔

سیکشن آفیسر تک ان حقوق کا استعمال جب تب کرتے رہتے ہیں۔  اس کے پیچھے خیال یہ ہے کہ پرسار بھارتی، دوردرشن (ڈی ڈی)اور آل انڈیا ریڈیو کے افسروں کو سوالوں سے ہلکان کر دیا جائے اور ان کے ہر کام پر تب تک انگلی اٹھائی جائے جب تک وہ وزارت کے سامنے سپردگی نہ کر دیں۔یہ بات تقریباً پختہ طورپر کہی جا سکتی ہے کہ پارلیامنٹ ممبروں کو پارلیمانی کمیٹی کے اس پروجیکٹ کے بارے میں جانکاری نہیں ہے جس سے نوکرشاہی کی مداخلت میں کافی کمی لائی جا سکتی ہے اور وزارت  اطلاعات و نشریات سے بار بار ہونے والی لڑائی کو ٹالا جا سکتا ہے۔نہ کوئی اس بات سے آگاہ ہے کہ اس قانون میں آرٹیکل 14 اور آرٹیکل 15 جیسے بھی حصے ہیں جن میں سیاسی غیرجانبداری متعین کرنے کے لئے براڈکاسٹنگ کاؤنسل کی تشکیل کی بات کی گئی ہے۔

ایک کے بعد ایک آنے والے انفارمیشن براڈکاسٹ سکریٹریوں اور وزرا نے کافی محنت کرکے اس بات کو نظرانداز کرنے کی کوشش کی ہے یا وہ اس کا ذکر ہی نہیں کرتے ہیں کہ قانون کے آرٹیکل 13، 14 اور 15 میں پارلیمانی کمیٹیوں کے سامنے پرسار بھارتی کی دیکھ ریکھ کے ضروری جمہوریت کا انتظام کرتے ہیں۔اگر ایسا نہیں ہے تو ساری طاقتوں کے شاستری بھون میں قید ہونے کی اور کیا وجہ ہو سکتی ہے؟

بجٹ اور خرچے کا انتظام ایسے دو شعبے ہیں جہاں سرکاری پیسے پر چلنے والے ویسے تمام اداروں کو جو ‘ اپنی وابستہ وزارتوں کے ذریعے پارلیامنٹ سے امداد پاتے ہیں ‘ اپنی وزارتوں کے سامنے گڑگڑانا پڑتا ہے۔میں نے مرکزی ثقافتی وزارت میں سکریٹری کے طور پر لمبے عرصے تک کام کیا اور اس دوران میرا آدھا سے زیادہ وقت اپنے ہی بابو ؤں سے لڑتے ہوئے گزرا جو وزارت کے اندر آنے والے خود مختار اداروں کو باقاعدہ طور پر پریشان کر رہے تھے۔ایسا نہیں ہے کہ پرسار بھارتی یا دوسرے خود مختار اداروں میں صوفی سنت لوگ بھرے ہوئے ہیں لیکن اسسٹنٹوں، سیکشن آفیسر اور انڈر سکریٹری کے ذریعے غیرذمہ دارانہ طریقے سے اپنی طاقت کا استعمال کرنا ہندوستان میں کسی بھی مثبت ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ان کو اس بات کا ذرا بھی علم نہیں ہے کہ دلی کے باہر اصل ہندوستان کیسا ہے۔وہ بس اس سبب سے پھل پھول رہے ہیں کیونکہ آئی اے ایس اور مرکزی خدمات کے افسر وزیر اعظم دفتر، نیتی آیوگ اور اپنے وزراء کی خواہشوں اور احکام کو پورا کرنے میں ہی اتنے مصروف رہتے ہیں کہ ان کو ان پر کنٹرول رکھنے کا وقت ہی نہیں ملتا ہے۔

prasar-bharati-hq

فائل فوٹو: منڈی ہاؤس واقع پرسار بھارتی کا ہیڈ کوارٹر

اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ قصورواروں اور متاثرین کے درمیان انصاف کرنے کی اپنی طاقت کا لطف اٹھاتے ہیں۔دلچسپ یہ ہے کہ ان کی کم نظری میں یہ دونوں یکساں ہیں۔  یہ بات ساری وزارتوں اور تمام خود مختار اداروں پر نافذ ہوتی ہے (سوائےڈپارٹمنٹ آف اٹومک انرجی اور ڈپارٹمنٹ آف اسپیس کے) اور اصل میں حاکمیت جتانے کا طریقہ موجودہ نظام میں اور بھی زیادہ برداشت سے باہر ہو گیا ہے۔موجودہ جھگڑے کی بات کی جائےتو واضح طور پر پرسار بھارتی ایک بار پھر مشکل میں ہے۔  اس بار اس کا سامنا ایک ایسی گھمنڈی وزیر سے ہے جو بابوؤں کو بھی ظلم کے نئےنئے طریقے سکھا سکتی ہے۔وزیر صاحبہ صدر اور بورڈ کو گھٹنوں پر لانے کے مقصد سے ایک تھوڑی جھکی  قسم کی اور نقصان دہ پالیسی پر چل رہی ہیں۔  اس میں تھوڑا وقت لگ رہا ہے حالانکہ پرسار بھارتی کے سینئر افسر بھی وزارت کے احکام کا غلام ہونے کی تکلیف دہ حالت کو قبول‌کر چکے ہیں۔

یہ سمجھنے کے لئے کہ دوردرشن پر آنے والے پروگرام بےحد اوسط ہیں، ٹیلی ویژن سیریل کا سابق اسٹار ہونا ضروری نہیں ہے۔اس حالت کی ایک اہم وجہ 03۔2000 کے درمیان لئے گئے فیصلے ہیں جب اطلاعات ونشریات وزیر اپنے وفا دار اضافی سکریٹریز کو پرسار بھارتی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر(سی ای او)کے طور پر تقرری کرکے بلاواسطہ طور پر اس کا قابو کرتے تھے۔دوردرشن کے کچھ کرپٹ افسروں نے اس وقت سیریل کی آؤٹ سورسنگ کی روایت کو ختم کرنے کی صلاح دی تھی۔  جبکہ اس سرکاری چینل کو تاریخی اونچائیوں پر پہنچانے میں رامائن، مہابھارت، بنیاد اور ہم لوگ جیسے آؤٹ سورس کئے گئے سیریل کی شراکت تھی۔دوردرشن نے اس وقت کے کئی بڑے ذاتی ڈائرکٹرس کے خلاف مقدمہ دائر کر دیاجبکہ وہ اصل میں اس کے لئے سونے کے انڈے دینے والی مرغیاں تھے۔منڈی ہاؤس والے دفتر کےایک فریبی افسر (مرحوم)نے دوردرشن کی قیمت پر ذاتی ٹی وی چینلوں کو فائدہ پہنچانے کا انتظام کر دیا۔

دوردرشن نے اس کے بعد سیریل کی کمیشننگ شروع کر دی جبکہ اس کے اندر کے کسی بھی  شخص کو یہ پتا نہیں تھا کہ آخر ایک سپرہٹ ٹی وی سیریل بنتا کیسے ہے؟ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ڈی ڈی نے کسی یش چوپڑا (مان لیجئے) کے سیریل سے بھرپور پیسے کمانے کی جگہ نئے ڈائرکٹرس کو بڑی رقم دےکر کام کرانا شروع کیا جن میں سے کئی بالکل سطحی تھے۔یہ کہانیاں عام تھیں کہ کس طرح سے ان بی گریڈ ڈائرکٹرس کو متاثر کن لوگوں یا شاستری بھون سے (جہاں وزارت اطلاعات و نشریات واقع ہے)سفارشی چٹ دےکر دوردرشن بھیجا جاتا تھا۔  جب سی بی آئی نے ایک اطلاعات و نشریات وزیر کے ذاتی سکریٹری کے دفتر میں چھاپا مارا تب ان میں سے کچھ کہانیاں صحیح پائی گئی تھیں۔وزارت کے آشیرواد سے دوردرشن پر حکومت کرنے والے پچھلی دہائی کے سوامی بھکت سی ای او اور کئی ڈائریکٹر جنرل(ڈی جی) نے وزارت کی بین پر ناچنا شروع کر دیا۔امید کے مطابق ہی ڈائرکٹرس کی اس نئی پود کو اتنا پیسہ دیا گیا جتنا دوردرشن ان کے سیریل سے کما نہیں سکتا تھا۔لیکن جب تک دوسری خوشی ملتی رہی کسی کو نہ تو اس بات کی کوئی فکر تھی نہ کسی کا دھیان ہی اس جانب گیا۔  پرسار بھارتی اور دوردرشن کے خاتمے کی شروعات یہیں سے ہوتی ہے۔

سوریہ پرکاش کے بورڈ کو اس بات کا سہرا دیا جانا چاہیے کہ انہوں نے آخرکار سطحی سیریل سے ہونے والے نقصان اور اس کے ساتھ جڑی بد عنوانی کو ختم کرنے کی سی ای او کی تجویز کو مان لیا۔2016میں آخرکار کئی مہینوں کی بحث اور ماتھاپچی کے بعد سب سے زیادہ بولی لگانے والے لائق بولی دہندہ کو ڈی ڈی سیریل کا سلاٹ بیچنے کی اجازت دے دی گئی۔  ڈی ڈی میں بیٹھے کچھ لوگوں نے کئی بار اس کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کیں۔بورڈ کے ایک ممبر نے سیریلوں کی تشکیل کے پرانے نظام کو بچائے رکھنے کی کوشش کی شاید نئے نظام کے پیروکاروں کو بھی خون کا ذائقہ لگنا شروع ہو گیا تھا۔لیکن  بورڈ کے ذریعے منظورشدہ اور پہلے وزارت کے ذریعے منظور شدہ شفاف نیلامی کے عمل کو بھی ایرانی اور ان کے نوکرشاہوں نے اٹکا دیا ہے۔ان کے دائرہ اختیار  سے باہر جا کر کام کرنے کی کوئی وجہ یا مناسبت بھی نہیں بتائی گئی ہے۔

دوردرشن کی آمدنی  کا دوسرا اہم ذرائع اس کے مفت ڈش سیٹیلائٹ سلاٹوں کی نیلامی سے ہونے والی کمائی ہے۔  اس کو بھی وزیر صاحبہ کے ذریعے روک دیا گیا ہے۔  ایسا کس وجہ سے کیا گیا ہےیہ ابھی تک پتا نہیں چلا ہے۔وزارت کو قانون کے آرٹیکل 16 کے تحت گزشتہ 21 سالوں میں پرسار بھارتی کو اثاثہ کی منتقلی کرنے کے لئے اصول بنانے کا وقت نہیں ملا ہے۔کسی کو نہیں پتا کہ اس بیچ خالی پڑی یا کام میں نہ آنے والی زمینوں پر دوسروں کے ذریعے قبضہ کر لینے سے کتنے کروڑ کا نقصان ہوا ہے۔

ملازمین‎ کے مورچے پر پرسار بھارتی کو اس کے جنم‌کے وقت ہی جان بوجھ کر کمزور کر دیا گیا تھا۔  1997 میں دہائیوں سے وزارت کے ذریعے آل انڈیا ریڈیو اور دوردرشن کے لئے تقرری کئے گئے 48000 سرکاری ملازمین‎ کو وراثت کے طور پر ا س کے گلے میں باندھ دیا گیا۔ایسا کرتے وقت نہ تو ملازمین‎ کی رضامندی پوچھی گئی نہ ہی عوامی ناشر سے صلاح و مشورہ کیا گیا۔  قانون کے تحت ان کی تنخواہ وزارت کو دینی ہے بھلےہی کوئی گھر سے ہی کیوں نہ کام کرے۔پرسار بھارتی کو یک طرفہ طریقے سے ان سب کو شامل کرنے کے لئے کہہ دیا گیا۔  اس کو یہ اختیار نہیں دیا گیا کہ وہ غیررضامند لوگوں کو یا ویسے لوگوں کو جو جدید نشریاتی کاروبار کا گلا کاٹ مقابلہ میں فٹ نہیں بیٹھتے لینے سے انکار کر دے۔

جیسا کہ پرسارر بھارتی کی سابق صدر اور صحافی مرنال پانڈے نے کہا تھا اس کے اندر کے لائق لوگوں نے ذاتی ٹیلی ویژن اور ریڈیو میں زیادہ مالدار مواقع کو لپک لیا۔اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اگر پرسار بھارتی کو حقوق کے تئیں اتنے زیادہ بیدار اور اصولوں کے عاشق بابوؤں کی ایسی فوج وراثت میں نہیں ملتی تو اس کا مظاہرہ زیادہ بہتر ہو سکتا تھا۔گزشتہ 25 سالوں سے وزارت کے ذریعے اصولوں کا حوالہ دےکر کسی کو بھی عہدہ میں ترقی نہیں دی گئی۔  آخرکار کچھ سال پہلے پرسار بھارتی نے بغاوت کرتے ہوئے کافی ملازمین‎ کو ایڈہاک ترقی عہدہ دینے کا فیصلہ کیا۔  یہ فیصلہ خاص طور پر ملازمین‎ کے حوصلے کو بڑھانے کے لئے کیا گیا۔ پرسار بھارتی کے ملازمین‎ کی تنخواہ کو روکنے کا اسمرتی ایرانی کا تغلقی فیصلہ نہ صرف غیر واجب ہے بلکہ ان کی وزارت کی قانونی جوابدہی کا بھی انکارکرنے والا ہے۔ کئی سکریٹریز اور وزراء کو عوامی طور پر یہ کہتے سنا گیا کہ پرسار بھارتی کی تنخواہ بل ان کے بجٹ کا 80 فیصدی حصہ کھا جاتا ہے۔  ایسا کہنا اس لئے کافی خراب تھاکیونکہ وہ حقائق کی بنیاد پر بات نہیں کر رہے تھے۔لیکن کوئی بھی وزیر پارلیامنٹ کی توہین نہیں کر سکتا ہےجس نے پرسار بھارتی کے اس خرچ‌ کی حمایت میں ووٹ دیا ہے۔  ان کے پاس ایسا کرنے کا کوئی اختیار ہے ہی نہیں۔تب بھی نہیں جب پرسار بھارتی کو بند کر دیا جائے۔  یہ حقیقی زندگی ہےکوئی سیریل نہیں جہاں نخروں کو میلوڈرامائی شور کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔

کسی براڈکاسٹر کو کس طرح نہ چلایا جائےپرسار بھارتی خود اس بات کی ایک اچھی مثال ہے۔یہ بےصلاحیت، سازشوں اور  مہمل بد عنوانیوں کا اڈا بن چکا ہے۔ لیکن موجودہ منظرنامے میں وزیر کے ذریعے اس پر زیادہ خرچیلے صحافیوں کو تھوپنے کی مخالفت کرنا صحیح ہے بھلےہی ان کا رنگ بھگوا ہو۔  جیسے کو تیسا کے انداز میں وزارت کے ذریعے تشہیر کے تمام معاہدہ شدہ ملازمین‎ کو برخاست کرنے کا حکم مضحکہ خیز ہےکیونکہ ان لوگوں کی ہی بدولت یہ تنظیم اس کو ختم کرنے کی تمام کوششوں کے باوجود بھی زندہ ہے۔

حکومت چاہے جس کی بھی رہی ہو اس کو دو دہائیوں سے زیادہ تک ملک بھر میں کئی مرکز کھولنے پر مجبور کیا گیا۔  لیکن ان کے لئے کوئی ملازم نہیں دئے گئے۔ دوردرشن اور آل انڈیا ریڈیو ان مراکز کو معاہدہ شدہ ملازمین‎ کی طاقت پر ہی چلاتے ہیں۔وزیر صاحبہ کے ذریعے اپنی طاقت کے ظاہری غلط استعمال کا ایک اور معاملہ سامنے آیا ہے۔  دوردرشن کے پروگرام بھلے اعلیٰ معیار کے نہ ہوںلیکن یوم آزادی اور یوم جمہوریہ جیسے خاص مواقع پر اس کی نشریات دنیا کے بہترین کو ٹکر دینے والی ہوتی ہے۔

ایرانی نے من مانے طریقے سے دوردرشن کو 2017 کے عالمی ہندوستانی فلم تقریب کے افتتاح اور اختتامی تقریب کو کَوَر کرنے سے روک دیا۔  اب دوردرشن کو وزارتِ اطلاعات و نشریات کے تحت آنے والے این ڈی ایف سی کو 2.9 کروڑ روپئے چکانے کے لئے کہا جا رہا ہے تاکہ وہ اس کام کے لئے ایک کمپنی کو (جس کے ڈائریکٹرس کو ایرانی کے قریب بتایا جاتا ہے) پیسے دے سکے۔پارلیامنٹ کا سیشن ایک بار پھر شروع ہونے والا ہےلیکن وزیر صاحبہ کو کسی بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔  کیونکہ جتنا زیادہ ہنگامہ ہوگا حکومت کے لئے یہ دعویٰ کرنا اتنا آسان ہوگا کہ پارلیامنٹ کو کام نہیں کرنے دیا جا رہا ہے اور اس کے بعد بنا کسی بحث کے تمام بلوں کو آگے بڑھایا دیا جائے‌گا۔جہاں تک وزارتِ اطلاعات و نشریات کا سوال ہے موجودہ تنازعہ کوئی سطحی تنازعہ نہ ہو کر عوامی ناشر کو قابو میں کرنے کے لئے سوچ سمجھ کر کھڑا کیا گیا ہے۔پرسار بھارتی کے بغیر وزارت کے پاس اخباروں کی نامزدگی کرانے جیسا بےمزہ کام ہی بچے‌گا۔  یا سہانے خواب دکھانے والی حکومت کی محدود کامیابیوں کو بڑھاچڑھا کر دکھانا ہی اس کا کام رہ جائے‌گا۔جہاں تک اسمرتی ایرانی کا سوال ہے ہمیں اس ٹریجک کامک سیریل کے اگلے ایپی سوڈ کا انتظار کرنا چاہیے۔

(مضمون نگار پرسار بھارتی کے سابق سی ای او ہیں۔)