ٹیلرسن کے ہٹائے جانے پر بہت سے روزناموں اور اخبارات نے اپنے تاثرات لکھے ہیں، کچھ اخبارات نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے اس قدم کو سراہا ہے کیوں کہ ٹرمپ اورٹیلرسن کی رائے ایران نیوکلیر پروگرام اور قطر کی پابندی پر مختلف تھی ۔
سرد جنگ اور تیسری عالمی جنگ کے امکانات پر ان دنوں مشرق وسطیٰ کے اخباروں میں کافی بحث ہو رہی ہے۔ اسی قبیل کی ایک تحریر مصر کے سب سے بڑے اخبار الاھرام میں شائع ہوئی ہے۔ یہ تحریر “مصطفی السعید” کی ہے۔ان کے مطابق ” دنیا بہت تیزی سے ایک عالمی سطح کے ٹکراؤ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ پچھلے دنوں چاربڑی طاقتوں ،امریکہ، برطانیہ،فرانس اور جرمنی کے درمیان ایک غیرمعمولی میٹنگ ہوئی جس میں ان طاقتوں نے روس کےکیمیائی ہتھیار (chemical weapon)کے ذریعے برطانیہ میں سابق روسی جاسوس کے قتل کی مذمت کی ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ اور اس کے حلیف ممالک اور روس، چین شمالی کوریا اور ایران کے درمیان جس طرح کی زبانی جنگ چل رہی ہےــ”۔ وہ کسی بھی وقت ایک بڑے ٹکراؤ میں بدل سکتی ہے۔
گزشتہ چند مہینوں سےمصر کی سرپرستی میں “حماس ” اور “فتح” کے درمیان مصالحت کی کوششیں چل رہی ہیں ۔ لیکن ان کوششوں کو اس وقت دھچکا لگا جب فلسطینی وزیر اعظم رامی الحمد اللہ کےقتل کی ناکام کوشش ہوئی۔روزنامہ الشرق الاوسط کے مطابق فلسطینی اتھارٹی نے حماس کو اس حرکت کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ جب کہ حماس نے سرے سے اس سے انکار کیا ۔ اور مشتبہ افراد کی تحقیقات کا حکم دیا۔اس کے بعد اخبار نے فلسطینی صدر محمود عباس کا بیان نقل کیا ہے جس میں انہوں نے فلسطینی وزیر اعظم رامی الحمد اللہ اور انٹلی جنس کے سربراہ ماجد فرج کی قتل کی کوشش کو منصوبہ بند بتایا اور یہ کہا اس کا مقصد غزہ پٹی میں فلسطینی حکومت کو کام کرنے سے روکنے اور مصالحت کی کوششوں کو ناکام کرنا تھا۔
سعودی ولی عہد کے اس بیان نے ایران کو ایک بار پھر چراغ پا کردیا کہ ایران سعودی عربیہ کا ہم پلہ نہیں ہے۔ ایرانی لشکر(Army) کاشمار عالم اسلام کے بڑے پانچ لشکروں میں نہیں ہوتا ہے اور معاشی محاذ پر بھی ایران سعودی عربیہ سے بہت پیچھے ہے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان امریکہ کے دورے پر جانے والے ہیں۔ اس دورے سے پہلے انہوں نے امریکن چینل “سی بی سی” سے بات کرتے ہوئے یہ باتیں کہیں۔سعودی عربیہ سے شائع ہونے والے روزنامہ ” عکاظ” نے اس انٹرویو کے چند اقتباسات شائع کیے ہیں ۔”ولی عہد نے مزید کہا کہ سعودی عربیہ نیو کلیربم نہیں رکھنا چاہتا ہے لیکن اگر ایران نے ایسا کیا تو بلاشبہ ہم بھی کریں گے۔اسی انٹرویو میں انہوں نے ایران کے سپریم لیڈر خامنئی کو ہٹلر سے تشبیہ دی ہے “۔
ایتھوپین رینیسا پل (Ethiopian Renaissance Dam) کے مسئلہ پر مصر اور سوڈان کے تعلقات اتنے کشیدہ ہوگئے تھے کہ سوڈان نے مصر سے اپنا سفیر واپس بلالیا تھا۔ لیکن دوہفتے قبل انہوں نے دوبارہ واپس آکر سفارتی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔مصری روزنامہ الوفد میں شائع ہوئی خبر کے مطابق سوڈانی صدر مصر کے دورے پر آرہے ہیں ۔ اس دورہ میں سوڈان اور مصر کے سربراہوں کے درمیان دونوں ملکوں کے درمیان اختلاف کی وجہ بن رہے مسائل پر گفتگو ہوگی ۔ اس ملاقات سے یہ امید لگائی جارہی ہے کہ یہ دریائے نیل پر بسنےدونوں ملکوں کے درمیان برادرانہ تعلقات کے نئے دور کا آغاز کرے گا۔ اخبار کے مطابق دونوں لیڈروں کے درمیان دہشت گردی، ماحولیاتی آلودگی اور دوطرفہ تعلقات کے فروغ پر گفتگو ہوگی۔
اسی ماہ کے 26,27,28 تاریخوں میں مصر میں صدارتی الیکشن ہونے جارہا ہے۔ غیر مقیم مصریوں نے 16،17 اور 18 مارچ 2018 کی تاریخوں میں اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا ۔غیرمقیم مصریوں کے لیے 124 ملکوں میں مصر کےسفارت خانوں اور کونسلیٹ میں ووٹ ڈالنے کا انتظام کیا گیا تھا۔
الجزیزہ نیٹ کے مطابق اتوار کی شام یعنی 18 مارچ 2018 کو غیر مقیم مصریوں کےلیے مقررکردہ ووٹنگ کا وقت ختم ہوگیا جس میں موجودہ صدر عبدالفتاح سیسی کا “الغد” پارٹی کے امیدوار موسی مصطفی موسی سے مقابلہ ہے۔ نیوز پورٹل کے مطابق ” اس الیکشن میں صدر سیسی کا حقیقی معنوں میں کوئی حریف نہیں ہے، کیونکہ حراست میں لیے جانے اور دیگر وجوہات کی وجہ سے حقیقی امیدوار مقابلہ سے الگ ہوگئے تھے۔ اورابھی جو موسی مصطفی موسی ، سیسی کے بالمقابل ایک امیدوار کی حیثیت سے کھڑے ہیں پہلے انہوں نے بھی سیسی کے دوبارہ صدر منتخب ہونے کی تائید کی تھی۔ واضح رہے یورپی یونین، جرمنی، اور اقوام متحدہ نے انتخابی ماحول پر کڑی تنقید کی ہے ۔امریکی کانگریس کے ممبران نے بھی انتخابات کے ماحول کو ڈراؤنا بتایا ہے”۔
گزشتہ ہفتہ کے شروعاتی دنوں میں رائٹرس نیوز ایجنسی نے حوثیوں او ر سعودی حکام کے درمیان بات چیت کا انکشاف کیا تھا۔ الجزیرہ کے مطابق حوثی پارٹی کے پولیٹکل ونگ کے ممبر عبدالملک العجری نے سعودی حکام اور حوثیوں کے درمیان عمان میں ہونے والی گفگتو کی تائید کی ہے۔ حوثی لیڈر کے مطابق گفتگو براہ راست حریف سے ہونے چاہیے ، نہ کہ ان کے ایجنٹوں سے، کیونکہ صلح اور جنگ کا فیصلہ ریاض اور ابوظہبی کے پاس ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس میں کوئی چھپانے والی یا ڈرنے والی بات نہیں ہے۔
میٹنگ نئی دہلی میں منعقدہ کانگریس پارٹی کے پلینری (Plenary)کی خبر متحدہ عرب امارات سے شائع ہونے والے کثیر الاشاعت انگریزی روزنامہ گلف نیوز میں دیکھی گئی ۔ اخبار نے 18 مارچ 2018 کے اداریہ میں ہندوستان کی کانگریس پارٹی کے سامنے جو چیلنجز ہیں، ان کا تجزیہ کیا ہے۔ اخبار لکھتا ہے “انڈین نیشنل کانگریس پارٹی کی کانفرنس دہلی میں ایسے وقت میں ہورہی ہے جب کہ دائیں بازو کی پارٹی نے کانگریس کو پوری طرح تباہ کردیا ہے۔ اس وقت بھارتیہ جنتا پارٹی کا پرچم ملک کی 21 ریاستوں میں لہرارہا ہے جب کہ کانگریس صرف چارریاستوں میں سمٹ کر رہ گئی ہے ۔ 2014 میں جب نریند ر مودی نے وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف لیا تھا اس وقت کانگریس کے پاس 13 ریاستیں تھیں۔ ہندوستان کے شمال،مشرق اور مغربی حصوں میں تقریبا کانگریس کا صفایا ہوگیا ہے۔”
ٹیلرسن کے ہٹائے جانے پر بہت سے روزناموں اور اخبارات نے اپنے تاثرات لکھے ہیں، کچھ اخبارات نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے اس قدم کو سراہا ہے کیوں کہ ٹرمپ اورٹیلرسن کی رائے ایران نیوکلیر پروگرام اور قطر کی پابندی پر مختلف تھی ۔روزنامہ “الشرق الاوسط” کے مطابق امریکی خارجہ پالیسی اور بالخصوص ایرانی نیوکلیر پروگرام پر اختلاف کی وجہ سے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نےریکس ٹیلرسن کووزیر خارجہ کے عہدہ سے معزول کردیا۔
Categories: خبریں