ہندوستان کی سیاست جھوٹ سے گھر گئی ہے۔ جھوٹ کے حملے سے بچنا مشکل ہے، اس لئے سوال کرتے رہیے کہ 14 دنوں میں گنّا ادائیگی اور ایتھانول سے ڈیزل بنانے کے خواب کا سچ کیا ہے ورنہ صرف جھانسے میں ہی پھانسے جائیںگے۔
انڈین ایکسپریس کے ہریش دامودرن کی رپورٹ پڑھیے۔ 18۔2017کی گنّا پیرائی کا سیشن چل رہا ہے۔ کسانوں کو 14دنوں میں ادائیگی کا وعدہ کیا گیا تھا مگر بقایا رقم 6500 کروڑ پہنچ گئی ہے۔ اس کے ابھی اور بڑھنے کے امکان ہے۔ یہ سرکاری اعداد و شمار ہے۔16مارچ تک یوپی میں 25349 کروڑ کی گنّا خرید ہوئی ہے۔ اس میں سے 22349 کروڑ 14دنوں کے اندر ہی دیے جانے تھے لیکن 16380 کروڑ کی ہی ادائیگی ہو سکی ہے۔
2016-17 میں گنّا بقایا 4175 کروڑ تھا۔ اس سال اس سے بھی زیادہ ہو گیا ہے۔ سرکاری ہو یا پرائیویٹ دونوں پر 30 فیصد کی رقم بقایا ہو گئی ہے۔ چینی مل والوں کا کہنا ہے کہ چینی کی قیمت گر گئی ہے ۔30,31روپے کلو مل رہی ہےجبکہ پیداوار کی قیمت 36.50-36روپے کلو ہے۔اس طرح سے ان کو ہر ایک کلو چینی پر 6 روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔چینی کی پیداوار بھی زیادہ ہونے کی امید ہے لہٰذا چینی کی قیمت اور گر سکتی ہے ۔اس سے کارخانہ کی صلاحیت پر اثر پڑےگا۔ کہتے ہیں کہ قیمت گرنے سے ان کے اسٹاک کا ویلیو کم ہوتا ہے اور اس حساب سے ادائیگی کے لئے بینک سے جو لون لیتے ہیں وہ کم ہو جاتا ہے۔ یہ ان کاکہنا ہے۔
ہریش دامودرن کے مضمون سے صاف نہیں ہے کہ پیسہ کسانوں کے کھاتے میں گیا ہے یا صرف کتاب میں دکھایا جا رہا ہے۔ یہ بات کسان ہی بتا سکتے ہیں کہ 14 دنوں میں ادائیگی ہو رہی ہے یا نہیں۔ کچھ گنّا کسان کہتے ہیں کہ پرچی مل جاتی ہے مگر پیسے کے لئے بھاگتے رہتے ہیں۔ پر کیا سب کے یہی تجربے ہیں؟ جب تک کسانوں کی پرچی دیکھ نہیں لیتا، کئی لوگوں سے بات نہیں کر لیتا، اس پر تبصرہ ٹھیک نہیں ہے۔ہم نے ایک گنّا کسان سے بات کی،انہوں نے دوسرا سوال اٹھایا۔ آپ گنّا بیلٹ میں وزیر اعظم کی تقریروں کو یاد کیجئے۔
پنجاب، مغربی اتر پردیش اور مشرقی اتر پردیش میں جو تقریر کی اس میں اس پر زور تھا کہ گنّے کے شیرے سے جو ایتھانول بنتا ہے ہم وہ خرید کر ڈیزل بنائیںگے۔ ڈیزل بیچ کر جو کمائی ہوگی اس کا کچھ حصہ کسانوں کو دیںگے۔ نتن گڈکری بھی یہ خواب خوب بیچتے تھے۔ کرنل پرمود جو گنّا کسان ہیں، انہوں نے آر ٹی آئی سے سوال پوچھا ہے ۔پوچھا کہ گنّا کے شیرے سے بنے ایتھانول کی خرید ہو رہی ہے یا کسی دوسری چیز سے بھی۔پرمود جی نے سمجھایا کہ پبلک میں تشہیر ہوئی کہ گنّے کے شیرے سے بنے ایتھانول کی خرید ہوگی مگر جواب دیا گیا ہے کہ سیلیولوز سے بنے ایتھانول کو بھی خریدا گیا ہے۔
سیلیولوز آپ یوں سمجھے کہ گھاس پتوار، دھان کی بالی، گنّے کے پتے سے بنتا ہے۔ پرمود جی کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں گھاس پتوار کو سیلیولوز میں بدلنے والی سیکنڈ جینیریشن کی فیکٹری اس تعداد میں تو نہیں ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر سیلیولوز بنا سکیں۔لہذا سوال بنتا ہے کہ سیلیولوز کے بنے ایتھانول کہاں سے خریدے گئے، شیرے کے ایتھانول کا فیصد کتنا تھا اور سیلیولوز کا کتنا۔ کہیں باہر سے امپورٹ تو نہیں ہوا، جس کا فائدہ چند لوگوں کو ہوا اور فائدہ ہونے کا خواب کسانوں کو بیچا گیا۔
وہ یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ 39000 کروڑ کا ٹینڈر نکلا تو وہ کون سی کمپنیاں تھیں، جنھیں یہ پیسہ ملا، انہوں نے کہاں سے گنّے کے شیرے سے بنے ایتھانول خرید کر سپلائی کیا اور پھر اس میں سے کسانوں کا حصہ کب ملےگا، کس کو ملا ہے؟ ان کو ڈر ہے کہ ان سوالوں کے جواب کسی بڑے گیم یا گھوٹالے کی طرف نہ جاتے ہوں۔
پرمود جی نے بتایا کہ حکومت ہند نے 2015-2016اور 2017 میں ہرسال قریب 14000 کروڑ ایتھانول کی خرید کا ٹینڈر نکالا ہے۔ پیٹرولیم اور تیل وزارت نے ٹینڈر نکالے تو اس طرح قریب 39000 کروڑ کا ٹینڈر نکلا۔3سال گزرنے کے بعد بھی ابھی تک یہ صاف نہیں ہو پا رہا ہے کہ کسانوں تک وہ پیسہ کب پہنچےگا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ کوئی اور لےکر اڑ گیا۔ان کے پاس اس کی کوئی پختہ جانکاری نہیں ہے۔ ہندوستان کی سیاست جھوٹ سے گھر گئی ہے۔ جھوٹ کے حملے سے بچنا مشکل ہے۔اس لئے سوال کرتے رہیے۔ورنہ صرف جھانسے میں ہی پھانسے جائیںگے۔ سلوگن میں جنت نہیں ہوتی ہے۔ اشتہار اور تقریر سے راشن نہیں ملتا ہے۔
(بہ شکریہ قصبہ)