فکر و نظر

رویش کا بلاگ :  ہم بول رہے ہیں نہ،  بولیے نہ آپ بھی…

میری نوکری نہیں ہوگی تو نہیں ہوگی۔  آپ بس براڈبینڈ کا خرچہ بھیج دینا۔  فیس بک پر پوسٹ لکھ‌کر ہی حضور لوگوں کی حالت خراب کر دوں‌گا۔

Photo:Reuters

Photo:Reuters

مجھے نہیں پتا تھا کہ سرکاری بینکوں میں ہمارے پیارے سابق فوجی بھی متاثر ہیں۔ بینکوں نے ان کو بھی ستا دیا ہے۔ اگر ایک سابق فوجی آپ کو کہے کہ بینکوں میں ہمیں پاکستانی شہری سا معاملہ کیا جاتا ہے تو کیا میں ان کے خط کو گودی میڈیا کے اینکروں کے پاس بھیج دوں۔ جس طرح سے مخالفت کی آواز کو پاکستانی آواز کی شکل میں پیش  کیا گیا ہے، میں نے کبھی تصور نہیں کیا تھی کہ ایک فوجی اپنے ساتھ ہو رہے استحصال کو پاکستانی شہری سے جوڑ دے‌گا۔ جبکہ استحصال تو ہندوستانی شہری اور ہندوستانی فوجی کا ہو رہا ہے، بدنام پاکستان ہو رہا ہے۔

خیرسوچیے زبان کے اس کھیل پر۔ بہر حال میرے پاس سابق فوجیوں کے بہت سارے خطوط آ رہے ہیں جو بینکوں میں کلرک اور گارڈ کے عہدے پر کام کرتے ہیں۔ ان کا نچوڑ پیش کر رہا ہوں۔ ہزاروں پیغام  پڑھا ہے۔ ملک کی خدمات اور فوجی پریم کو لےکر کتنا فراڈ ہے ہمارے ملک میں۔ ایک بھی غیر فوجی بینکر نے ان کی ٹیس کا ذکر نہیں کیا۔ سارا خونی کھیل ٹی وی پر ہی کھیلا جا رہا ہے فوج کے نام پر تاکہ حب الوطنی کی آڑ میں مسلمانوں کے تئیں نفرت پھیلا سکیں۔ فوجی بھی اس میں اپنا استعمال ہونے دیتے ہیں جبکہ وہ مورچے پر ساتھ ساتھ گولی کھاتے ہیں۔ اب آگے ان کا درد دیکھیے۔

فوج سے جو لوگ ریٹائر ہوتے ہیں ان کو بینک کلرک کے عہدے پر 14 فیصدی اور گارڈ کے لئے 24 فیصدی کا ریزرویشن ملتا ہے۔ ایک فوجی نے لکھا ہے کہ جب بینکوں کو اندر سے دیکھا تب لگا کہ ہمارے اور ملک کے ساتھ دھوکہ ہو رہا ہے۔ انتظامیہ  ہم فوجیوں کے ساتھ معمولی ملازمین‎ جیسا بھی سلوک نہیں کرتے ہیں۔ ایسے سلوک کرتے ہیں جیسے ہم کوئی پاکستانی شہری ہیں۔ جب تب فوجی بینکر کی پیمنٹ آدھی کر دیتے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں سابق فوجی بینکر ایسے کئی ظلم کے خلاف کورٹ میں لڑ رہے ہیں۔ فضائیہ میں کام کر چکے پنجاب نیشنل بینک میں کلرک ایک سابق فوجی نے مجھے ای میل بھیجا ہے۔

بینکوں کے اندر ایکس سروس مین کا اپنا ہی الگ مسئلہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک دہائی سے زیادہ وقت سے ناانصافی ہو رہی ہے۔ بینکوں نے اپنی مرضی  سے تنخواہ  فکس کرنا شروع کر دیا ہے۔ 2007 سے 2014 کے درمیان کی تنخواہ کو دوبارہ سے فکس کر فوجی بینکروں سے لاکھوں کی وصولی نکال دی گئی ہے۔ اس کے خلاف فوجی بینکر عدالت چلے گئے ہیں۔ جن کو عدالت سے اسٹے نہیں ملا ہے ان کی محنت کی کمائی پیسے واپس کرنے میں چلی گئی ہے۔ ان فوجیوں کو بینک اور حکومت سے کوئی امید نہیں ہے۔ یہ بھی بتایا کہ ایک سرکلر نکلا ہے جس کی آڑ میں ہزاروں سابق فوجیوں کی پینشن سے مہنگائی بھتہ کاٹ لیا گیا ہے۔ لاکھوں میں وصولی نکال دی گئی ہے۔ ہمیں مقدمہ کر اسٹے لینا پڑا ہے۔

سابق فوجیوں کا کہنا ہے کہ 10 واں تنخواہ سمجھوتہ نومبر 2012 میں ہوا تھا۔ یہ سمجھوتہ اگست 2015 میں تمام بینکوں میں نافذ ہوا۔ تمام بینک ملازمین‎ کو نومبر 2012 سے بڑھی ہوئی تنخواہ کا بقایا یعنی باقی رقم مل گئی ہے۔ لیکن SBI کی دہلی، جئے پور سرکل کے تمام سابق فوجی ملازمین‎، ممبئی اور کولکاتہ سرکل کے بھی کافی ملازمین‎ کو ڈیڑھ سے دو لاکھ تک کی رقم کی ادائیگی نہیں کی گئیہے۔  وزیر اعظم سے لےکے وزیر خزانہ تک سب کو خط لکھا۔

بینکوں میں دور دراز کے علاقوں میں بزنس کاریسپونڈنٹ  ہوتے ہیں۔  یہ ایک طرح سے چلتے پھرتے بینک ہیں۔  بینک نے ان کو اپنی طرف سے ایک اوزار دیا تھا۔  ٹھیک اسی طرح کے جیسے آپ نے پارکنگ والے کے ہاتھ میں ایک مشین دیکھی ہوگی۔  اب ان کا کہنا ہے کہ بینک نے اچانک اس اوزار کو بند کر دیا ہے۔  ان لوگوں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ ٹیب لیں۔  خود خریدیں۔  اس ٹیب کی قیمت 37000 روپے بتائی جا رہی ہے۔  یہ لوگ کمیشن پر جیتے ہیں۔  اب کس کے مفاد میں ان پر 37000 کی ٹیبلیٹ خریدنے کے لئے دباؤ ڈالا جا رہا ہے؟

بینک متر اور ذاتی گراہک خدمات سیکٹر میں بھی بحران ہے۔  گاؤں اور قصبوں کے درمیان اس کمی کو یہی سروس سینٹر پوری کرتے ہیں۔  پہلے ان مراکز کی ہرسال تجدیدکاری ہو جاتی تھی۔  اب بینک کا کہنا ہے کہ وہ اب تجدیدکاری نہیں کریں‌گے۔  بینک کے ہی معاون کمپنی سے قرار کرنا ہوگا۔  ان سب کو ایک آئی ڈی جاتی ہے جو بلاک کر دی گئی ہے۔  جس سے ان کی کمائی رُکی ہوئی ہے۔  اپنی تعداد ہزار میں بتاتے ہیں مگر روتے ایسے ہیں جیسے میری طرح اکیلے ہوں۔  اس سریز سے ایک جانکاری ملی ہے۔  ہزار دس ہزار ہوں یا اکیلے ہوں، آپ کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

گراہک سیواسینٹر والوں کا کہنا ہے کہ نجی گراہک سیوا سینٹرپر سرمایہ کاری کر چکے ہیں۔  اس کے لئے اپنے پیسے سے کمپیوٹر خریدا، فرنیچر لگایا۔  جس کے بدلے کمیشن ملتا ہے۔  کوئی بھی کھاتہ کھلتا ہے تو بینک ان کو کمیشن دیتا ہے۔  ان مراکز کو لےکر سب کچھ سیدھا سادابھی نہیں ہے۔

کئی بار ان کے یہاں سے بھی فراڈ ہو جاتا ہے۔  مینجر بھی ان کے کمیشن میں حصےدار بن جاتے ہیں۔  ان لوگوں کو لسٹ جاری کر دینی چاہیے کہ کس مینجر کو کتنا دیا۔  کیا کیا دیا۔  مجھے خط لکھ سکتے ہیں۔  کیونکہ یہ بات تو بینکر نے ہی بتائی ہے۔  بغیر اخلاقی طاقت کو حاصل کئے آپ کی کسی جدو جہد میں جیت نہیں ہو سکتی ہے۔  جھوٹ کو ظاہر کر دینے سے اخلاقی طاقت آ جاتی ہے۔  اخلاقی طاقت وَن ٹائم پیمنٹ نہیں ہے۔  آپ سچ بول بول‌کر اس کو حاصل کرتے رہ سکتے ہیں۔

راجستھان سے ایک بینک متر نے لکھا ہے کہ حکومت ہند کے مالیاتی شمول کے تحت 2012 میں SBBJ بینک نے بینکمتر کی تقرری کی تھی۔  اب 2017 میں SBBJ اور SBI کا انضمام ہو گیا۔  آرڈرآیا کہ بینک متر کو کارپوریٹ میں شامل کر دو۔  راجستھان ہائی کورٹ سے یہ مقدمہ جیت‌کر آ گئے اور بینک نے اپنا آرڈر واپس لے لیا۔  مگر اب بینک نے ان کی آئی ڈی بند کر دی ہے۔  6 سال سے یہ نجی بینک متر کا کام کر رہے ہیں۔  دعویٰ ہے کہ ایماندارانہ کام کر رہے ہیں۔  یہ پہلو بہت ضروری ہے۔  جب آپ بےایمانی میں حصہ دار ہوتے تو کچھ دن مزہ آتا ہے لیکن اسی کے بہانے سب ختم کر دیا جاتا ہے۔  بینکوں کو پتا ہوتا ہے کہ آپ کی امیج خراب ہے اور آپ میں لڑنے کی اخلاقیات نہیں بچی ہیں۔ جن دھن اسکیم کے تحت بینک متر کو 5000 روپے اعزازیہ اور کمیشن دینے کا اعلان ہوا تھا۔  ان کا دعویٰ ہے کہ آج تک یہ پیسہ نہیں ملا۔  یہ لوگ چاہتے ہیں کہ میں انصاف دلواؤں۔

نوٹ بندی کے دوران سارے بینکروں نے بنا چھٹی کے دن رات کام کیا تھا۔  تب اعلان ہوا تھا کہ ان کو اوورٹائم ملے‌گا۔  بہت سے بینکوں کے لوگ لکھ رہے ہیں کہ اوورٹائم نہیں ملا ہے۔  کہیں آدھا ملا ہے تو کہیں ملا ہی نہیں ہے۔  ہرطرف پریشانی ہے۔

اس لئے دوستوں اب مجھے ایک پبلک سیکریٹیریٹ کی ضرورت ہے۔  مجھے نہیں پتا تھا کہ میری صحافت کا ماڈل اس سطح پر پہنچ جائے‌گا۔  اس پبلک سیکریٹیریٹ کو چلانے کے لئے الگ الگ خدمات کے لوگ خفیہ طور پر میری مدد کریں۔  وہی ساری شکایتوں کو پروسیس کریں۔  سمجھائیں اور پھر ہم اس کو فیڈ بیک کے طور پر حکومت اور پبلک کے سامنے رکھیں۔  ورنہ سیکڑوں میسیج، ای میل پڑھنا، جواب دینا میرے بس کی بات نہیں۔  پھر بھی پڑھ تو سب کا لیتا ہوں۔  اب جواب کم دے پا رہا ہوں۔  اس لئے مایوس  نہ ہوں۔

اس سیکریٹیریٹ کے تصور کو پورا کرنے میں آپ تعاون دیں۔  چینل کے باہر ایک public secretariat کیسے بنے‌گا، کیسے چلے‌گا، کم سے کم ہم اس پر سوچ تو سکتے ہیں۔  مجھ میں نہ تو ہر موضوع کو سمجھنے کی صلاحیت ہے اور نہ جانکاری ہے۔  کیا ایک صحافی کو سیکریٹیریٹ بنا لینا چاہیے؟  جس کی مدد سے میں الگ الگ محکمہ جات کا تجزیہ کر سکوں‌گا۔  جہاں سرکاری اداروں کے لوگ خفیہ خط بھیج‌کر سسٹم کا راز باہر کر دیں۔  آپ فائل نمبر نہ بھی بتائیں مگر آپ کی تکلیف کو پڑھتے پڑھتے میں سسٹم کے اندر کی بےرحمی اور ٹھگی تو دیکھ ہی لیتا ہوں۔  بینک کے بعد بڑے پیمانے پر ریلوے کے اندر سے تجزیہ کرنے جا رہا ہوں۔  یہ سب تبھی ممکن ہے جب میرا اپنا ایک پبلک سیکریٹیریٹ ہو۔

اب میں یہ سن سن کر تنگ آ گیا ہوں کہ کوئی مجھے چھوڑے‌گا نہیں، میری نوکری چلی جائے‌گی تو کسی نے کمپنی خرید لی، اب کیا کروں‌گا۔  کئی لوگ مزے لینے کے لئے ایسے میسیج بھیج دیتے ہیں۔  کیسا سماج ہے یہ۔  کسی کی نوکری جانے کے خدشہ پر کوئی خوش بھی ہو سکتا ہے؟  آپ نے کیسے برداشت کر لیا کہ سوال پوچھنے پر کسی مدیر کی نوکری چلی جاتی ہے۔  جب آپ دوسروں کے لئے برداشت کریں‌گے تو بھائی اپنے لئے بھی ناانصافی سہنی پڑے‌گی نہ۔  پھر بھی جب تک نوکری ہے تب تک آپ کے لئے ہوں۔  یہ کہنے کا مطلب یہ نہ سمجھیں کہ ہر مسئلہ کے لئے میں ہی ہوں، میں ہی اٹھا سکتا ہوں، اپنی صلاحیت کے حساب سے زیادہ ہی اٹھایا ہے۔  بہت کا نہیں اٹھا سکا پھر بھی آپ دیکھیے اس میں ان کی بھی بات ہے جن کی بات نہیں اٹھا سکا۔

میری نوکری نہیں ہوگی تو نہیں ہوگی۔  آپ بس براڈبینڈ کا خرچہ بھیج دینا۔  فیس بک پر پوسٹ لکھ‌کر ہی حضور لوگوں کی حالت خراب کر دوں‌گا۔  اس پوسٹ کو پڑھنے کے بعد میری واہ واہی نہ کریں بلکہ آپ بھی اپنے ڈر سے آزاد ہو جائیں۔  بینکوں میں سنگین استحصال کا دائرہ چل رہا ہے۔  اس پہیے کو توڑ دیجئے۔  جب ملک آزاد ہو سکتا ہے تو غلام بینکر کیوں نہیں آزاد ہو سکتے ہیں؟  نوکری تو ہماری بھی جا سکتی ہے پر ہم بول رہے ہیں نہ۔  بولیے نہ آپ بھی۔