ہندوستانی سماج کا تصور سبزی خور سماج کے طور پر کیا جاتا ہے،لیکن کسی بھی سماجی گروہ کے کھان پان کی عادتوں سے جڑا کوئی بھی دعویٰ پوری طرح صحیح نہیں ہوسکتا۔
ایک ایسے وقت میں جب کھان پان کو لےکر ملک بھر میں اتنا دنگافساد مچا ہے اور یہ پہچان اور پیدائش کے سوال سے جڑ گیا ہے، حقائق کے سہارےاس موضوع پر چل رہی بحث کو تھوڑا منطقی موڑ دینا ضروری ہے۔لمبے وقت تک ہندوستان کا خیالی تصور ایک سبزی خور، خاص طور پر گائے کے گوشت سے پرہیز کرنے والے سماج کے طور پر کیا جاتا رہا ہے۔ اس سے بھی آگے ایسی باتوں کی نظریاتی طور پر مختلف رنگوں کے علما، رہنماؤں اور عام باتوںکے ذریعے وضاحت کی جاتی رہی ہے۔
انہوں نے ہندوستان کا تصور بنیادی طور پر ایک ایسے ملک کے طور پر کیا ہے، جہاں کی اخلاقیات خاص طورپر مذہبی اصولوں سے طے ہوتے ہیں۔ یہی مبینہ طور پرسبزی خوری کے متعلق رجحان اور گائے کے گوشت کے متعلق پرہیز کی وضاحت کرتا ہے۔ایسی باتوں کا پچھلی صدی پر براہ راست اثر پڑا اور حال کے وقت میں ذات پرستی اور فرقہ پرستی کے خطرناک ماحول میں ان کا اثر اور زیادہ دکھائی دے رہا ہے۔حالانکہ علما، خاص کر مؤرخوں کے ذریعے اس خیال کو تباہ کرنے کے لئے کافی کچھ کیا گیا ہے (اور ابھی بھی کیا جا رہا ہے)، لیکن اس کی تشہیر اتنی وسیع ہے اور اس کو اتنی زبردست پہچان ملی ہوئی ہے کہ منظم طریقے سے اس کا جواب دینا آسان نہیں ہے۔
ان کہانیوں کو چیلنج دینے کے راستے میں ایک اہم رکاوٹ ہندوستان میں سماجی گروہوں (جیسے، مذہبی کمیونٹی یا ذات) کے یکساں ہونے کا خیال ہے۔جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ تہذیب سے قبول کردہ رویےکے اصولوں پر عمل کرنے والے ہیں۔ ایسے عقائد کسی سماجی گروہ کے اندر پائے جانے والے زبردست فرق کو چھپا لیتے ہیں۔
یہ جھوٹ موٹ طریقے سے ہندوستانیوں کو ضرورت سے زیادہ شخصی مخالف ہونے اور گروہ میں رہنے کی خواہش رکھنے والے کے طور پر پیش کرنے میں بھی مدد کرتی ہے۔یہاں اکانومک اینڈ پالیٹیکل ویکلی کے تازہ شمارے میں ایک مضمون کے خلاصے کو پیش کیا جا رہا ہے،جو ہندوستان اور ہندوستانیوں کے ایسی پیش کش کو چیلنج دیتا ہے۔اس پرچے میں ہم نے خوطے کیے ہوئے سلوک کے تین بڑے پیمانے کے نمائندہ اعداد و شمار (نیشنل سیمپل سروے، نیشنل فیملی ہیلتھ سروے اور انڈین ہیومن ڈیولپمنٹ سروے) کا تجزیہ کیا تاکہ ‘ ہندوستان کیا کھاتا ہے ‘، اس پر کچھ بنیادی باتوں کو سامنے رکھا جا سکے۔
اس کے نتیجے کھان پان یا غذا کی عادتوں کے کئی عوامی دعووں پر سنگین سوال اٹھاتے ہیں۔ اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ وہ ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ کسی بھی سماجی گروہ پر مبنی کوئی دعویٰ پوری طرح صحیح نہیں ہو سکتا۔عام دعووں اور رائج عقائد کے ٹھیک الٹ ہندوستان میں سبزی خوری کا پھیلاؤ بہت کم ہے۔سروے کے اندازے بتاتے ہیں کہ ہندوستان کی 23سے 37فیصدی کے بیچ آبادی سبزی خور ہے۔اس طرح، ایک سبزی خور ملک ہونے کی بات تو جانے ہی دیں، ہندوستان ایک میٹ کھانے والے اکثریتوں کا ملک ہے۔ یعنی گوشت خور یا غیرسبزی خور کا خیال اور سبزی-خؤری پرستی کے اردگرد کیا جانے والا صلاح و مشورہ اس طرح ایک چھوٹی سی سبزی خور آبادی کے تسلط کی صورتحال کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
ہندوستان میں سبزی خوری میں کافی علاقائی فرق ہے۔ حالانکہ اس کا ایک پیٹرن بتایا جا سکتا ہے۔ ہندوستان کے مغرب اور شمال کی ریاستوں میں مشرق اور جنوب کی ریاستوں کے مقابلے میں سبزی خوری کا رواج زیادہ ہے۔ چھ ریاستوں (سارے شمال مشرق کے) میں 2فیصدسے بھی کم سبزی خوری ہے۔ کم سے کم 2 کروڑ کی آبادی والی ریاستوں میں تین میں (آسام، مغربی بنگال اور کیرل) میں 5فیصد سے کم اور تین میں (ہریانہ، راجستھان، پنجاب) میں 75 فیصدسے زیادہ سبزی خوری ہے۔
یہ علاقائی پیٹرن کھانے کی زرعی ماحولیات کی دستیابی، مقامی طور پر طاقتور سماجی گروہوں (ذات، مذہب) سے متعلق ثقافتی سیاست اور غذائی دلچسپیوں میں جنسی امتیاز کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔
یہ بات کسی پہیلی کی طرح ہے کہ دیہی اور شہری علاقوں میں سبزی خوری میں زیادہ دھیان دینے لائق فرق نہیں ہے۔ سبزی خوری شہر کی ساخت کے حساب سے بڑھتا جاتا ہے۔چھوٹے شہروں سے بڑے شہروں اور چھوٹے شہروں سے بڑے شہروں کی طرف یہ بڑھتا ہے۔ لیکن اس تصویر میں تھوڑی پیچیدگی تب آ جاتی ہے، جب ہم اس میں مہانگروں کو شامل کر لیتے ہیں۔ مہانگروں میں سبزی کھانے والوں کی مقدار کم ہے۔
اس کی وضاحت کرنے کے لئے ہندوستان کے مختلف حصوں اور ذاتوں اور مذہبوں سے کام گار طبقے کے رہن سہن کے اعداد و شمار کو شامل کرنا ہوگا۔سماجی گروہوں کے اندر کافی فرق پایا جاتا ہے، جو ہر طرح کی عمومیت کوخارج کر دیتا ہے۔ خاص طور پر مذہب اور ذات پر مبنی عمومیت کو۔اس لئے یہ بےمعنی اوسطوں کی بنیاد پر ‘ ہندوستان ‘ کی ایک جنرل امیج کو بھی پیچیدہ کر دیتا ہے۔جین (جن میں سبزی خوری بہت زیادہ ہے) اور سکھوں (جن میں اکثریت سبزی خور ہیں) کو چھوڑکر کسی بھی مذہبی کمیونٹی کی اکثریتی آبادی سبزی خور نہیں ہے۔
سب سے زیادہ آبادی والے ہندوؤں کا اکثریتی طبقہ گوشت کھانے والا ہے۔ اگر ہم سرکاری مہاذاتوں کی بات کریں، تو سب سے کم سبزی خوری درج فہرست قبائلی ذات میں ہے۔ درج فہرست ذاتیاں اس معاملے میں ان سے زیادہ پیچھے نہیں ہیں۔
او بی سی (دیگر پسماندہ طبقہ) میں سبزی خوری زیادہ ہے اور غیر فہرست شدہ ذات / فہرست شدہ قبائل / دیگر پسماندہ طبقے میں یہ سب سے زیادہ ہے۔اس سے آگے بات کریں، تو ہم سبزی خوری کے معاملے میں برہمنوں کے اندر بھی کافی فرق دیکھتے ہیں۔ برہمنوں میں صرف دو تہائی اور اعلیٰ ذاتوں میں صرف ایک تہائی سبزی خور ہیں۔ یہ عام نظریہ کے مقابلے میں کافی کم ہے۔
کل ملاکر، مردوں کے مقابلے میں خواتین زیادہ سبزی خور ہیں۔ اتناہی نہیں، اس معاملے میں ان کے درمیان فرق بھی ٹھیک ٹھاک ہے (قریب قریب 10 فیصد کا۔ ساتھ ہی خواتین کے اندر سبزی-خوری مردوں کے اندر سبزی خوری سے تقریباً 50 فیصدزیادہ ہے)۔دلچسپ یہ ہے کہ دیہی اور شہری علاقوں، شہروں کے مختلف اقسام اور تمام بڑے طبقوں میں اس جنسی فرق کی ساخت تقریباً یکساں ہے۔ ساتھ ہی، ان علاقوں میں جہاں سبزی-خوری کی مقدار زیادہ ہے، وہاں یہ جنسی فرق اور بڑا ہے۔
ایک حد تک اس جنسی فرق کا تعلق اس حقیقت سے ہے کہ خواتین کے مقابلے میں مرد گھر سے باہر زیادہ کھانا کھاتے ہیں اور گوشت خوری کو لےکر اخلاقی ممانعت کی فکر کم کرتے ہیں۔یہ حقیقت مردوں کو پدری سماج کے تناظر میں رسم و رواج سے زیادہ چھوٹ لینے کا موقع دیتا ہے۔ اسی سکے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ سبزی خوری کی ‘ روایت ‘ کو بچائے رکھنے کا دارومدار غیرمتناسب طریقے سے خواتین کے کندھے پر آ جاتا ہے۔
کل ملاکر سماجی گروہوں اور علاقوں کے اندر دھیان دینے لائق جنسی فرق کسی گروہ کی یا علاقائی ‘ روایتوں ‘ کے دعویٰ پر سوالیہ نشان لگا دیتی ہے۔
حالانکہ، اس معاملے میں اعداد و شمار کی کمی ہے اور حقیقت چھپانے یا انڈر رپورٹنگ کا امکان بھی کافی زیادہ ہے، مگر ایسا لگتا ہے کہ بیف (گائے کا گوشت) کھانے کی تشہیر سب کو تعجب میں ڈال سکتا ہے۔ایک طرف بیف کو لےکر سماجی ممانعت کے مدنظر یہ کافی زیادہ ہے، تو دوسری طرف ویسے مذہب کی طرف ذاتی گروہوں کے اندر کافی تنوع ہے، جن کو عام طور پر بیف کھانے والوں کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
قومی سطح پر کم سے کم 7 فیصداور اگر حقیقت کے زیادہ قریب جاکر کہا جائے، تو 15فیصدکے قریب آبادی بیف کھاتی ہے۔مسلموں اور عیسائیوں میں بیف کھانے والے بالترتیب 42 فیصد اور 27 فیصد ہیں۔ ہندو درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائلی ذاتوں، دونوں میں بیف کھانے کا فیصد 5 ہے۔ لیکن یہ اعداد و شمار جہاں ایک طرف انڈر رپورٹنگ کو دکھانے والے ہیں، تو دوسری طرف گروہوں کے اندر موجود بڑے فرق کو ڈھک لینے والے بھی ہیں۔راجستھان میں 7 فیصد مسلم بیف کھاتے ہیں اور مغربی بنگال میں 67 فیصدبیف کھاتے ہیں۔ درج فہرست ذاتوں میں یہ تعداد راجستھان میں تقریباً زیرو ہے اور (غیر منقسم) آندھر پردیش میں 22 فیصدہے۔
لوگوں کے ذریعے بتائے گئے اور ان کے اصل کھان پان کی عادتوں پر ثقافتی، سیاسی دباؤ کے اثر کے ثبوت ملتے ہیں۔ مثال کے لئے، عام طور پر زیادہ او بی سی آبادی والی ریاست او بی سی اور ہندو اعلیٰ ذاتوں کے درمیان سبزی خوری کے زیادہ بڑے فرق کو دکھاتے ہیں۔یہ ایک طرح سے نظریاتی شکل سے او بی سی کمیونٹی کے ‘ آزاد ہو جانے ‘ کا اشارہ مانا جا سکتا ہے۔ اسی طرح سے زیادہ مسلم آبادی والی ریاستوں میں زیادہ مسلم بیف کھانے کے بارے میں بتاتے ہیں۔
بڑی ریاستوں کے بارے میں یہاں ایک بات دھیان دینے لائق ہے کہ درج فہرست ذاتوں میں بیف کھانے کے معاملے میں جنوب کی چار ریاستیں سب سے اوپر ہیں۔ یہ وہی ریاستیں ہیں، جہاں دلت آزادی تحریکوں کی زیادہ لمبی اور مضبوط تاریخ رہی ہے۔ان سب سے یہی پتا چلتا ہے کہ کسی بھی ظاہری اعداد و شمار کو سماجی خطرے کی وجہ سے میٹ اور بیف کھانے کی جانکاری چھپانے اور سبزی کھانے کے بارے میں بڑھاچڑھاکر بتانے کے تعصب کے ساتھ ملاکر پڑھا جانا چاہیے۔ اس لئے ہم نے سبزی خوری کو علاقائی چشمے سے دیکھنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
نتیجہ کے طور پر بڑے پیمانے کے نمائندہ اعداد و شمار کا تجزیہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ سبزی خوری ہندوستان کی آبادی کے ایک اقلیتی گروہ کا ثقافتی عمل ہے۔ہندوستان میں کھان پان کی عادتوں کے زیادہ تر تصویروں میں فرق کو جوڑکر (مقام، علاقہ، ریاست، سماجی گروہ، جنس اور طبقے کے مختلف اصولوں اور سماجی گروہوں کے اندر) ان کو پیچیدہ بنایا جانا ضروری ہے۔تنوعات کی طرف دھیان دےکر ہی ہم ان سماجی عوامل کو بہتر طریقے سے سمجھ پائیںگے جو غذا کی عادتوں جیسی سماجی چیز کو جلائے رکھتی ہیں۔ جس کو ایک گروہ کی یا قومی ‘ روایت ‘ کے طور پر پیش کی جاتی ہے، وہ طاقت کے کھیل اور تسلط کی لڑائی سے آزاد نہیں ہے۔’ کھانا کیا ہے ‘ اور کون کیا کھاتا ہے، اس کا فیصلہ کون کرتا ہے ‘، جیسے سوالوں کا جواب اقتدار، خواہش، عزت اور پسند کے صفحات پر دیا جاتا ہے۔
(بال مراری نٹ راجن ولیم پیٹرسن یونیورسٹی،نیو جرسی میں انتھراپالوجسٹ ہیں اور سورج جیکب پالیٹیکل اکانومسٹ ہیں۔)
Categories: فکر و نظر