گراؤنڈ رپورٹ : بہار میں کسان کی خودکشی کے واقعات کم ہونے کا مطلب یہ قطعی نہیں کہ یہاں کے کسان زراعت کر کے مالامال ہو رہے ہیں۔ زراعتی بحران کے معاملے میں بہار کی تصویر بھی دوسری ریاستوں کی طرح خوفناک ہے۔
بہار کے شیوہر ضلع کے راجا ڈیہہ گاؤں میں رہنے والے ایک کسان نارد رائے نے مبینہ طور پر مکئی کی فصل برباد ہو جانے کی وجہ سے گزشتہ 14 مارچ کو کھیت میں ہی پیسٹی سائڈ(Pesticide) کھاکر خودکشی کر لی۔مقامی لوگوں کے مطابق نارد نے پڑوس میں ہی رہنے والے منٹو رائے سے ڈھائی بیگھا کھیت بٹائی پرلیا تھا۔ شرط یہ تھی کہ کھیت میں اگنے والے ہر 10 کوئنٹل اناج پر ایک کوئنٹل منٹو کو دینا ہوگا۔ مقامی لوگوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ اس نے شمالی بہار گرامین بینک سے لون بھی لیا تھا اور فصل کمزور ہونے سے پریشان بھی رہا کرتا تھا۔اس معاملے میں حالانکہ تحریر ی طور پر بیان دےکر نارد رائے کے چھوٹے بھائی اوم پرکاش رائے نے کہا ہے کہ خاندانی تنازعے کے چلتے اس نے خودکشی کی ہے اور اس کا زراعت سے کوئی لینادینا نہیں ہے۔
اوم پرکاش رائے کے تحریری بیان کا حوالہ دیتے ہوئے شیوہر ضلع کے ڈی ایم راج کمار نے کہا کہ نارد کچھ سالوں سے خاندانی مسائل کو لےکر پریشان رہا کرتا تھا۔حالانکہ اوم پرکاش نے بھی پہلے میڈیا کے سامنے زبانی بیان دیا تھا کہ پیداوار کمزور ہونے کی وجہ سے ہی اس نے خودکشی کی ہے۔اس معاملے کی تفتیش کے لئے ڈی ایم نے سات رکنی جانچ کمیٹی بنائی تھی۔ کمیٹی نے تفتیشی رپورٹ ریاستی حکومت کو بھیج دی ہے۔ادھر واقعہ کے بعد سی پی آئی (ایم ایل) کے ایم ایل اے سداما پرساد نےگزشتہ دنوں مرنے والے کے رشتہ داروں سے ملاقات کی۔انہوں نے معاملے کی لیپاپوتی کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ مکئی کی فصل میں دانہ نہیں آنے سے وہ مایوس تھا اور اسی وجہ سے اس نے خودکشی کر لی۔
بہار میں کسان کی خودکشی کے واقعات نہیں کے برابر ہوتے ہیں۔بہار میں زراعتی بحران کو لےکر کسانوں کی خودکشی کی خبریں میڈیا میں مئی 2015 میں آئی تھیں۔مئی مہینے کی الگ الگ تاریخوں میں پٹنہ کے ایک کسان اور گیا کے دو کسانوں نے کمزور پیداوار کی وجہ سے خودکشی کر لی تھی۔اس کے بعد اب تک زراعت کے چلتے کسان کی خودکشی کا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا۔اس کا یہ قطعی مطلب نہیں ہے کہ یہاں کے کسان زراعت کرکے مالامال ہو رہے ہیں۔ زراعتی بحران کے معاملے میں بہار کی تصویر بھی خوفناک ہی ہے۔یہاں کے کسان بھی دوسری ریاستوں کے کسانوں کی طرح ہی موسم کی مار، سرکاری بے حسی، ان دیکھی، زمیندار کے استحصال اور لال فیتاشاہی کے شکنجوں میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔
لیکن وہ اس کے خلاف مظاہرہ کرنے کے لئے پرچم لےکر سڑکوں پر نہیں اترتے بلکہ سامان سر پر لادکر مزدوری کرنے کے لئے پنجاب، ہریانہ، ممبئی یا دلی کی راہ پکڑ لیتے ہیں۔یہاں سال درسال زراعت میں غیر یقینی بڑھ رہی ہے اور موسم میں تبدیلی کی وجہ سے فصل کی پیداوار پر برا اثر پڑ رہا ہے۔ اس سے آنے والے وقت میں زراعتی بحران اور خوفناک شکل لےگا۔کھیت میں نمی کی کمی اور سردی کے زیادہ دنوں تک رہ جانے سے اس بار کئی علاقوں میں آلو کی پیداوار اوسط سے کم ہوئی ہے۔ وہیں کئی جگہوں سے خبریں آ رہی ہیں کہ مکئی کے پودوں میں دانے نہیں آ رہے ہیں۔
چھپرا ضلع کے دریاپور بلاک کے پراری گاؤں کے کسان جے ناتھ سنگھ نے پانچ ایکڑ میں آلو بویا تھا۔ وہ کہتے ہیں، ‘ایک کٹھا میں اوسطاً چار کوئنٹل آلو ہوتا ہےلیکن اس بار پیداوار میں 30 سے 35 فیصد کی گراوٹ آئی ہے۔’ انہوں نے مزید کہا، ‘ گزشتہ سال پانی کی کمی کی وجہ سے کھیتوں میں نمی نہیں تھی۔ آلو کے لئے ایک پٹون کافی ہوتا ہےلیکن اس بار دو بار پٹون کیا گیا، اس کے باوجود آلو کی پیداوار کم ہو گئی۔ اسی طرح مکئی کی فصل پر بھی برا اثر پڑا ہے۔ ‘ مگہی پان کے لئے مشہور مگدھ علاقے کے چار ضلعوں اورنگ آباد، نوادہ، نالندہ اور گیا میں سردی نے اس بار پان کی فصل کو جھلساکر رکھ دیا ہے۔
مگدھ علاقے میں پانچ ہزار کسان (ان میں زیادہ تر کسان لیز پر زمین لےکر)پان کی زراعت کرتے ہیں۔ مگہی پان نازک مزاج ہوتا ہے۔ یہ نہ تو زیادہ سردی جھیل پاتا ہے اور نہ ہی گرمی۔اس سال بہار میں زیادہ سردی پڑنے سے 70 فیصد سے زیادہ کسانوں کا پان برباد ہو گیا۔ پان ایسے وقت میں خراب ہوا جب اس کو توڑکر منڈی لے جانا تھا۔نوادہ ضلع کے ہسوا بلاک کے دھیریندر چورسیا نے گزشتہ سال 15 کٹھے میں پان کی زراعت کی تھی لیکن کیڑوں نے پان کی جڑوں پر حملہ کر دیا تھا۔اس سے پورا کھیت برباد ہو گیا تھا۔اس سال انہوں نے 27 کٹھے میں پان لگایا۔ان کو امید تھی کہ پان کی پیداوار ٹھیک ٹھاک ہو جائےگی۔ لیکن اس بار موسم نے ان کو دھوکہ دے دیا۔
دھیریندر چورسیا کہتے ہیں، ‘ایک کٹھا میں پان لگانے کا خرچ 30 ہزار روپے آتا ہے۔27 کٹھے میں قریب سات لاکھ روپے لگا چکا تھا۔ پان تیار ہو گیا تھا لیکن سردی کا ایسا قہر برپا ہوا کہ سارا پان جلکر راکھ ہو گیا۔ ہم من مسوس کر رہ گئے۔’ مزید بتاتے ہیں، ‘ گزشتہ سال کیڑا لگ جانے سے قریب 4 لاکھ روپے کا نقصان ہوا تھا۔ اس نقصان کا تو معاوضہ ہی نہیں ملا اور اب 7 لاکھ روپے کا قرض سر پر آ گیا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا ہے کیا کروں۔ ‘ کسانوں کے مطابق کیٹ پتنگوں کے چلتے ہرسال کم سے کم 25 فیصد کسانوں کا پان برباد ہو جاتا ہے۔ کیڑے سے برباد پان کے لئے معاوضہ کا کوئی اہتمام نہیں ہے۔
پان کو پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا میں بھی شامل نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی کسانوں کو اس کی زراعت پر کسی طرح کی امداد دی جاتی ہے۔سردی سے پان کو ہوئے نقصان کا جائزہ لینے جنوری کے آخری ہفتے میں ریاست کے وزیر زراعت ڈاکٹر پریم کمار متاثرہ علاقوں میں گئے تھے۔انہوں نے کسانوں کو معاوضہ دینے کی یقین دہانی بھی کرائی تھی۔اس یقین دہانی کو ڈیڑھ مہینہ گزر چکا ہے لیکن کارروائی کے نام پر بس نقصان کا اندازہ ہو پایا ہے۔قابل ذکر ہے کہ بہار کی ایک بڑی آبادی کے پاس بہت کم یا نہیں کے برابر کھیت ہے۔ یہ کسان بٹائی (اس کے تحت آپسی سمجھوتہ سے پیداوار کا ایک طےشدہ حصہ زمین مالک کو دینا ہوتا ہے) اور لیز (اس میں بٹائی دار ہرسال زمین مالکوں کو طےشدہ رقم دیتے ہیں) پر کھیت لےکر زراعت کرتے ہیں۔
قیاسی طور پر 50 فیصد سے زیادہ کسان بٹائی اور لیز پر کھیتی کرتے ہیں۔اس طرح دیکھا جائے تو بٹائی دار کسان ہی یہاں کی زراعت کی ریڑھ ہیں۔لیکن ان کسانوں کے لئے کسی طرح کا کوئی الگ قانون نہیں ہے۔ساتھ ہی پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا اور دوسری طرح کی اسکیموں کا فائدہ لینے کے لئے جو دستاویز چاہئےوہ بھی ان کے پاس نہیں ہوتے۔اس وجہ سے بٹائی دار کسان سرکاری اسکیموں سے محروم رہ جاتے ہیں۔مثال کے طور پر پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا کو لیا جا سکتا ہے۔ اس اسکیم کا فائدہ لینے کے لئے Land Ownership Certificate (ایل پی سی)، آدھار کارڈ، بینک اکاؤنٹ اور زمین کی رسید دینا ضروری ہے لیکن بٹائی دار کسان کے پاس بینک اکاؤنٹ اور آدھار کارڈ کے علاوہ کوئی دستاویز نہیں ہوتا ہے۔ چونکہ وہ زمین کے مالک نہیں ہوتے ہیں اس لئے ایل پی سی اور زمین کی رسید ہونے کا سوال بھی نہیں اٹھتا ہے۔
ویشالی ایریا اسمال فارمرس ایسوسی ایشن کے سکریٹری یوکے شرما کہتے ہیں، ‘اسمال فارمرس ایسوسی ایشن سے تقریبا 800 کسان جڑے ہوئے ہیں لیکن انشورنس محض پانچ کسانوں کا ہی ہو پایا کیونکہ ان کے پاس ہی اپنی زمین ہے، ایل پی سی اور زمین کی رسید بھی ہے۔’پٹنہ ضلع کے باڑھ کی اگوان پور پنچایت کے موکم پور گاؤں کے رہنے والے کسان پیتامبر یادو تین بیگھا کھیت ہر سال 10ہزار روپے کی شرح پر لیز لےکر اور دو بیگھا زمین بٹائ پر لےکر زراعت کرتے ہیں۔ایل پی سی اور زمین کی رسید نہیں ہونے کی وجہ سے ان کو پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا کا فائدہ نہیں مل پایا۔ایل پی سی اور زمین کی رسید کی ضرورت صرف بیمہ تک ہی محدود نہیں ہے۔ کئی دوسری اسکیموں مثلاً Primary Agricultural Credit Society (پی اے سی ایس) کے ذریعے اناج کی فروخت اور سیلاب یا دیگر آفات میں فصل کو نقصان ہونے کی صورت میں معاوضہ کے لئے بھی یہ دستاویز ضروری ہیں۔
پتامبر یادو بتاتے ہیں، ‘ اس بار حکومت نے پی اےسی ایس کے ذریعے 1660روپے فی کوئنٹل کی در سے دھان خریدنے کا اعلان کیا تھا۔ میرے پاس زمین کی رسید نہیں تھی جس کی وجہ مجھے کھلے بازار میں 1400 روپے فی کوئنٹل کی در سے 85 من دھان بیچنا پڑا۔’ وہ مزید کہتے ہیں، ‘ گزشتہ سال سیلاب کی وجہ سے فصل برباد ہو گئی تھی لیکن مجھے کوئی معاوضہ نہیں ملا کیونکہ میرے پاس زمین کا کوئی کاغذ نہیں تھا۔ کھیت مالک دستاویز دینے کو کبھی تیار نہیں ہوتے ہیں۔’ ایک زرعی کوآرڈینیٹر نے نام ظاہر نہیں کرنے کی شرط پر کہا، ‘ بٹائی دار کسان نہ تو سرکاری اسکیموں کا فائدہ لے پاتے ہیں اور نہ ہی فصل کا نقصان ہونے پر معاوضہ ہی ملتا ہے کیونکہ اس کے لئے ایل پی سی اور زمین کی رسید ضروری ہے۔ بٹائی دار کسانوں کے پاس یہ دونوں ہی نہیں ہوتے ہیں۔’ یوکے شرما کہتے ہیں، ‘ بٹائی دار کسانوں کے مسئلہ کا حل بہار ٹینینسی ایکٹ 1886 کی ترمیم میں ہی چھپا ہوا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ آخر یہ بہادرانہ قدم اٹھانے کا جوکھم لےگا کون؟ ‘
وہ کہتے ہیں، ‘ ایسی ترمیم کی جانی چاہئے، جو زمین مالک اور بٹائی دار دونوں کے لئے فائدےمند ہو۔بٹائی دار کسانوں کو مناسب حق دئے بنا زراعت میں بہتری ممکن نہیں ہے۔’ حالانکہ ایسا نہیں ہے کہ بہار میں اراضی اصلاح اور زراعت کو ترقی یافتہ اور فائدےمند بنانے کی کوششیں نہیں ہوئیں۔ کوششیں تو ہوئیں لیکن وہ کوششیں کبھی مقام پر نہیں پہنچ سکیں۔60کی دہائی میں کانگریس حکومت نے بہار میں اراضی اصلاح کا عمل شروع کیا تھا لیکن زمین دار کی مخالفت کی وجہ سے یہ ٹھنڈے بستے میں چلا گیا۔ 90 کی دہائی میں لالو پرساد یادو نے بھی اراضی اصلاح کو انتخابی مدعا بنایا لیکن انتخاب جیتنے کے بعد انہوں نے بھی اس سمت میں کوئی قدم نہیں اٹھایا۔
ڈیڑھ دہائی بعد سال 2005 میں نتیش کمار جب پہلی بار سی ایم کی کرسی پر قابض ہوئےتو انہوں نے اراضی اصلاح کے لئے ڈی بندھوپادھیائے کی صدارت میں لینڈ ریفارم کمیشن کی تشکیل کی تھی۔یہاں یہ بھی سند رہے کہ 1977 میں مغربی بنگال میں جب لیفٹ فرنٹ کی حکومت بنی تھی تو وہاں کے ورگادار (بٹائی دار) کسانوں کو مناسب حق دینے کے لئے ‘ آپریشن برگا ‘(Operation Barga)چلاکر اراضی اصلاح کی تھی جس کو اب تک کی سب سے کامیاب اراضی اصلاح تسلیم کی جاتی ہے۔اس کام کی قیادت ڈی بندیوپادھیائے نے ہی کی تھی۔انہوں نے دو سالوں تک ماتھا پچی کر کے اپریل 2008 میں نتیش حکومت کو رپورٹ سونپی تھی۔ اس رپورٹ میں بٹائی داروں کو حق دینے کی بات کہی گئی تھی اور اس کے لئے ایک قانون بنانے کی تجویز دی گئی تھی۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ہر بٹائی دار کو اس زمین کا پرچہ دینا چاہئے جس زمین پر وہ زراعت کر رہا ہے۔ اس پرچے میں زمین کےمالک کا نام اور کھیت کا نمبر رہےگا۔
پرچے کی ایک تصدیق شدہ کاپی زمین کے مالک کو بھی دینے کی بھی بات کہی گئی تھی۔ان سب کے علاوہ بھی کئی طرح کی سفارشیں تھیں۔ لیکن زمیندار ووٹ بینک کو بچانے کی سیاسی مجبوریوں کے چلتے نتیش کمار نے بھی پیش رو وزیراعلیٰ کی راہ پر ہی چلنے کا فیصلہ لیا اور سفارشوں کو دھول پھانکنے کے لئے چھوڑ دیا۔سال 2009 میں ایک مضمون میں ڈی بندھوپادھیائے نے اراضی اصلاح کے لئے مجوزہ سفارشوں کو نافذ نہیں کرنے پر افسوس جتاتے ہوئے کہا تھا کہ سفارشیں نافذ نہ کر کے بہار نے اناج پیداوار کو قانونی طریقے سے منظم کرنے کا ایک اور موقع گنوا دیا۔یہاں یہ بھی غور طلب ہے کہ نتیش کمار نے سال 2006 کے جولائی مہینے میں رامادھار کی صدارت میں ریاستی کسان کمیشن کی بھی تشکیل کی تھی۔ یہ غالباً آزادی کے بعد کسی ریاست کے ذریعے تشکیل شدہ پہلا کسان کمیشن تھا۔
اس کمیشن کے بنیادی طور پر دو مقاصد تھےکسانوں کے مسائل کی شناخت کر کےاس کا مناسب حل دینا اور کسانوں کی آمدنی بڑھانے کی تدبیروں کو تلاش کرنا۔ لیکن اتنے سالوں میں نہ تو کسانوں کے مسائل کم ہوئے اور نہ ہی ان کی آمدنی بڑھی۔زراعت کے ماہر دیوندر شرما کا کہنا ہے کہ بہار میں جتنی بھی حکومتیں آئیں سبھی نے کسانوں کو محروم ہی رکھا ہے۔انہوں نے کہا، ‘ دوسری ریاستوں کی طرح ہی بہار بھی بھاری زراعتی بحران سے جوجھ رہا ہے لیکن تعجب کی بات ہے کہ یہاں کے کسان کسی طرح کا پروٹیسٹ تک نہیں کرتے ہیں۔سال 2015 سے میں لگاتار ملک بھر کے کسان رہنماؤں کو ساتھ لےکر اجلاس کرتا ہوں۔اجلاس میں ہر ریاست سے کسان رہنما آتے ہیں لیکن بہار میں مجھے اب تک کوئی کسان رہنما نہیں ملا۔ ‘
انہوں نے بٹائی دار کسانوں کو راحت دینے کے لئے حکومت کو آندھر پردیش اور تلنگانہ میں اپنائے گئے ماڈل سے سیکھنے کی صلاح دی اور کہا کہ حکومت کو منڈیوں کا نیٹ ورک بھی تیار کرنا چاہئے تاکہ کسان آسانی سے اپنے مصنوعات بیچ سکیں۔یہاں یہ بھی بتا دیں کہ زراعت میں اصلاح کے لئے وزیراعلیٰ نتیش کمار نے سال 2008 میں پہلا زرعی روڈ میپ بھی جاری کیا تھا جس میں اگلے پانچ سالوں میں زرعی علاقے میں کیاکیا کیا جائےگااس کا حساب کتاب تھا۔گزشتہ سال نومبر میں سی ایم نتیش کمار کی گزارش پر صدر رامناتھ کووند نے تیسرا زرعی روڈمیپ جاری کیا۔ اس کے تحت سال 2017 سے 2022 تک زرعی علاقے کی ترقی پر 1.53 لاکھ کروڑ روپے خرچ کئے جائیںگے۔
زرعی روڈمیپ میں اختیاری زراعت، نامیاتی کاشت کاری، آمدنی کے اختیاری تدبیروں کے ساتھ ہی تمام طرح کی سبسیڈی اور زراعت میں انتہائی جدید تکنیک کے استعمال پر زور دیا گیا ہے۔ لیکن حیرت انگیز طور پر 176 صفحات کے اس روڈمیپ میں بٹائی دار کسانوں کے حق میں ایک لفظ بھی خرچ نہیں کیا گیا۔زرعی روڈمیپ کے لئے اپنے پیغام میں نتیش کمار نے لکھا ہے، ‘ زرعی روڈمیپ 2022-2017 کے ذریعے قوس وقزح بکھیرتے انقلاب(Iridescent revolution) کا راستہ ہموار ہوگا۔ ‘ ممکن ہے کہ نتیش کمار یہ انقلاب لے بھی آئیں لیکن اس میں بٹائی دار کسانوں کا رنگ یقینی طور پر اداسی بھرا اور مٹ میلا ہی ہوگا۔
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔)
Categories: خبریں, گراؤنڈ رپورٹ