ملک کی کئی ریاستوں سے آئے سرکاری بینک ملازمین نے نئی دہلی کے سنسد مارگ پر مختلف مانگوں کو لےکر مظاہرہ کیا۔
نئی دہلی: مرکزی ملازمین کے برابر تنخواہ کی مانگ کو لے کرمختلف سرکاری بینکوں کے ملازمین نے بدھ کو راجدھانی دہلی کے سنسد مارگ پر مظاہرہ کیا۔ملک کی مختلف ریاستوں سے تحریک میں شامل ہونے پہنچے بینک ملازمین نے الزام لگایا ہے کہ بینک منیجمنٹ بورڈ اور بینک ملازم یونین کے درمیان عام ملازم پس رہا ہے۔
انہوں نے یہ بھی الزام لگایا ہے کہ بینک اپنی مصنوعات بیچنے کے لئے ملازمین پر دباؤ بناتا ہے اور باقاعدگی سے تبادلے کی دھمکی بھی دیتا رہتا ہے۔لکھنؤ واقع یونین بینک آف انڈیا کی ایک شاخ میں کام کر رہے پنکج شریواستو بتاتے ہیں، ‘ ہماری سب سے پہلی مانگ ہے کہ ہمیں مرکزی حکومت کے ملازمین کے برابر تنخواہ ملنی چاہئے۔ جتنا کام کرتے ہیں، اس کے مطابق تنخواہ ملنی چاہئے۔ دوسرا سب سے بڑا مسئلہ ہے ‘ کراس سیلنگ ‘۔ اس کا مطلب ہے کہ بینکنگ کے مطابق جو گراہک قرض لینے آ رہا ہے، اس کو بیمہ بیچنے کو کہا جا رہا ہے۔ اگر کاغذات کے مطابق اس کو چار لاکھ روپے کا لون ملنا چاہئے اور اگر وہ بیمہ خریدتا ہے، تو اس کو آٹھ لاکھ قرض دے دیا جاتا ہے۔ قرض چاہئے تو گراہک کا بیمہ خریدنا ضروری ہے۔ میچوئل فنڈ بھی بیچنے کو کہا جاتا ہے۔ ‘
پنکج آگے بتاتے ہیں، ‘ کام کرنے کے وقت کو لےکر مانگ ہے کہ ہماری ٹائمنگ متعین کی جانی چاہئے۔ ہم صبح آٹھ بجے آتے ہیں، لیکن شام کو جانے کا کوئی وقت طے نہیں ہے۔ ‘
ملازمین کا یہ بھی کہنا ہے کہ بینکنگ سیکٹر میں دو طرفہ سمجھوتہ ہوتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ ملازم یونین اور بینک انتظامیہ کے درمیان سمجھوتہ ہوتا ہے اور وہ لوگ تمام ملازمین کے لئے اصول اور اسکیم پر بات کرتے ہیں۔الزام ہے کہ دونوں کی ملی بھگت سے عام ملازم پریشان ہوتا ہے۔ ملازمین کی مانگ ہے کہ ریٹائرڈ ملازم ان کا فیصلہ نہیں کریںگے، بلکہ ان کو بھی بات چیت کے عمل میں شامل کیا جائے۔
بھوپال میں بینک آف انڈیا کی ایک شاخ میں کام کر رہے امت واجپئی نے بینک انتظامیہ پر تبادلے کی دھمکی کا الزام لگاتے ہوئے کہا، ‘ دیکھئے بینک تو سرکاری ہے، لیکن اس کا ملازم سرکاری نہیں ہے۔ بینک نظام میں یونین کا بڑا اثر ہے اور وہ لوگ ملازمین کو اپنا غلام سمجھتے ہیں۔ وہ بھی غلام سمجھتے ہیں اور انتظامیہ بھی۔ دونوں کا آپس میں گٹھ جوڑ ہے۔ ‘
امت بتاتے ہیں، ‘ بینک میں جلدی جلدی پرموشن دینے کا سسٹم لایا گیا۔ اس کے چلتے ملازمین پر انتظامیہ کی طرف سے ایک طرح کا دباؤ ہوتا ہے۔ ان کے حساب سے کام نہ کرو تو تبادلے کی دھمکی ملتی ہے، جو انتظامیہ کی چاپلوسی کرتا ہے اس کو سب ملتا ہے اور جو عام طور پر کام کر رہا ہے اس کو تبادلے کی دھمکی۔ ‘
وہ کہتے ہیں، ‘ بینکوں میں جو بےایمانی دیکھنے کومل رہی ہے یہ اسی کی دین ہے کہ تبادلے کی دھمکی ملتی ہے، اگر تبادلے کی دھمکی نہیں ملتی تو لوگ ڈھنگ سے کام کرتے ہیں۔ کسی بڑے آدمی یا بڑے افسر کے قرض کی عرضی کو خارج کر دو تو وہ شکایت کرتا ہے اور پھر تبادلہ ہو جاتا ہے۔ اسی سے بچنے کے لئے بہت سارے لوگ بےایمانی میں شامل ہو جاتے ہیں۔ ‘
امت نے آگے بتایا، ‘ ابھی مارچ چل رہاہے اور بینک اپنا بنیادی کام چھوڑکر بیمہ، گولڈ لون، گولڈ کوئن اور میچوئل فنڈ بیچ رہا ہے۔ کچھ جگہ ٹارگیٹ دیا جاتا ہے اور جہاں صاف نہیں بولا جاتا وہاں تبادلے والی دھمکی کام کرتی ہے۔ انتظامیہ تبادلے کے نام پر استحصال کرتی ہے۔ کیونکہ تبادلے کی وجہ سے معمولاتِ زندگی میں بڑی دقت آتی ہے اور افسروں کو پتا ہے کہ وہ اسی کا استعمال کرکے عام ملازم کو پریشان کرتے ہیں اور اپنے من کا کام کرواتے ہیں۔ ‘
خاتون ملازمین کے لئے بھی بینک میں تمام مسائل ہیں۔ مرکزی حکومت ایک سال کی چائلڈ کیئر چھٹی دیتی ہے اور بینک چھے مہینے کی۔گجرات کے میہسانا ضلع میں بینک آف بڑودا کی ایک شاخ میں بطور سینئر برانچ منیجر کام کر رہی ہیما بتاتی ہیں، ‘ بینکوں میں تبادلہ اصولوں کی صاف خلاف ورزی ہوتی ہے۔ میرے شوہر بھی بینک میں ہے۔ وہ نوئیڈا میں کام کرتے ہیں اور میں میہسانا میں۔ جبکہ اصول ہے کہ شوہر یا رشتہ دار جہاں رہتے ہیں وہاں پر خاتون ملازمین کو کام کرنا چاہئے۔ ‘
وہ کہتی ہیں، ‘ مودی حکومت جب بنی تھی، تب ایک سرکلر آیا تھا کہ خواتین کی پوسٹنگ شوہر یا رشتہ دار کے گھر کے نزدیک ہونی چاہئے، لیکن اس پر عمل نہیں کیا گیا۔ ‘
ہیما آگے بتاتی ہیں، ‘ بینک ملازمین کے بچّے اور مرکزی حکومت کے تحت کام کرنے والے ملازمین کے بچّوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا، اس کے باوجود ان کو چائلڈ کیئر چھٹی ایک سال کی ملتی ہے اور ہمیں چھے مہینے کی۔ ایسا ہمارے ساتھ کیوں ہوتا ہے؟ حکومت کی ساری اسکیموں کا کام ہم کرتے ہیں۔ نوٹ بندی کے وقت بنا شکایت کام کیا، لیکن اس کے مطابق نہ تنخواہ ملتی ہے اور نہ ہی سہولیات۔ بڑا افسر اور یونین کی ملی بھگت میں ہمارے فائدے کا کام کبھی نہیں کیا جاتا ہے۔ ‘
یونین بینک میں بطور کلرک کام کر رہے ششانک ایّر بتاتے ہیں، ‘ نیرو مودی پیسہ لےکر بھاگ گیا۔ گراہک آتے ہیں، تو ہمارا مذاق اڑاتے ہیں۔ کیونکہ ہم لوگ ہی سیدھے عوام کے رابطہ میں ہوتے ہیں۔ بڑے افسروں کی چوری کے چلتے ہماری بے عزتی ہوتی ہے۔ ‘
وہ کہتے ہیں، ‘ این پی اے کون بڑھاتا ہے؟ پہلی بات تو جو سب سے عام لوگ ہیں، وہ کبھی این پی اے نہیں بڑھاتے بلکہ یہ سب بڑے صنعتی گھرانوں کی وجہ سے یہ ہوتا ہے۔ یا تو بہت ساری سرکاری اسکیم کا فائدہ رہنما اپنے علاقے کے چُھٹ بھیّا رہنما اور کارکن سے یہ کہہکر کرواتے ہیں کہ یہ قرض سرکاری اسکیم کے تحت مل رہا ہے اور اس کو لوٹانا نہیں ہے۔ بینک اور حکومت کو ایسے اصول بنانا چاہئے کہ سرکاری بینک گراہکوں کے مفاد میں کام کر سکیں۔ سرکاری بینک کا کام نہیں ہے کہ اپنے ملازم کو سیلس مین بناکر بیمہ اور گولڈ کوئن بیچنے کے کام میں لگا دیا جائے۔ ‘
ششانک آگے بتاتے ہیں، ‘ بینک کے نظام میں بہت بڑی اصلاح کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایسی جگہ بھیجا جاتا ہے جہاں پانی کی سہولت نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی حفاظت۔ پھر بھی ہم کام کرتے ہیں۔ انتظامیہ نے مذاق بناکر رکھا ہے۔ میں کراس سیلنگ نہیں کہوںگا بلکہ یہ غلط پروپیگنڈا کرکے بیچنے کا بھی معاملہ ہے۔ لون کے لالچ میں گراہک بینک کے ذریعے بیچے گئے پروڈکٹ خرید لیتا ہے اور جب اس کو ملتا کچھ اور ہے، تب وہ ہمیں گالی دیتا ہے۔ ‘
وہ کہتے ہیں، ‘ انتظامیہ کے دباؤ کے چلتے ہوئے کام کا ٹھیکرا صرف نچلی سطح کے ملازمین پر پھوڑا جاتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری تنخواہ مرکز ملازمین کے برابر کرنے کے ساتھ تبادلے کا جو سسٹم ہے اس میں اصلاح ہونی چاہئے۔ ‘
Categories: خبریں