سیاست اور میڈیا کی ملی بھگت نے اپنی چالاکی سحر بیانی اور منصوبہ بندی سے ایک مشکوک انکاؤنٹر کو اکثریتی عوام کے ذہن کا مستقل اور طبعی حصہ بنا دیا ہے۔اس کتاب نے اس کا جائزہ لیتے ہوئے پولیس اور میڈیا کی کہانی پر بڑے ہی ماہرانہ انداز میں کئی پیشہ ورانہ سوالات کھڑے کئے ہیں۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے اطراف کی مسلم آبادی ملک کے اکثریتی طبقے کے ذہن میں ایک بڑے ممکنہ خطرے کی طرح ہے۔ جس کا اظہار گاہے بگاہے سیاسی رہنماؤں میڈیا اور اکثریتی برداری کے عام لوگ بھی کرتے رہتے ہیں۔ یہاں کی بیشتر آبادی کو روزانہ ہی ایسی ذہنیت کے غصے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آٹو رکشہ والے ہوں کہ بینک والے بلکہ پزہ کمپنی کے کارندے بھی ان کی درخواستوں کو حقارت اور ذلت سے مسترد کر دیتے ہیں ۔ کچھ ان کہی اور من گھڑت کہانیاں بھی اس علاقے کو ایک دیو اور عفریت کی طرح پیش کرتی ہیں۔ علاقے میں ہر وقت پولیس فورس کی تعیناتی ڈر اور خوف کے ماحول کو مزید خوفناک اور دہشت زدہ کرتی ہے۔
نیاز فاروقی کی یاد داشتوں پر مشتمل خود نوشت بعنوان، An Ordinary Man’s Guide to Radicalism; Growing up Muslim in India بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کے بعد علاقہ میں رہنے والے مسلم نوجوان اور طلباء کو درپیش چیلنجز اور ان کی ذہنی کیفیت کا بیانیہ ہے۔ کتاب کی تمہید میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ اندرون ملک کے دور دراز دیہاتوں قصبوں اور چھوٹے شہروں سے مسلم نوجوان جو اپنی تعلیم یا روزگار کی غرض سے دہلی آتے ہیں ان میں سے کثیر تعداد جامعہ نگر علاقہ کو اپنا مسکن بناتے ہیں۔ مصنف کا آبائی وطن گوپال گنج بہار ہے اور حصول تعلیم کی غرض سے جامعہ نگر میں بہت ہی کم عمری سے سکونت پذیر ہیں۔
اپنے مذہبی پس منظر کو بیان کرکے نیاز فاروقی نے اس ذہنیت کو بلیغ النظری کا سبق دینے کی کوشش کی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ مذہب صرف رجعت پسندی کٹرپن اور دہشت گردی کی طرف مائل کرتاہے نہ کہ اخلاقی نظم وضبط اور ذہن و قلب کی کشادگی کی بھی تعلیم دیتا ہے۔ اسی ذیل میں مصنف نے اپنے بچپن میں دادا کے ذریعہ اقبال و کبیر کی شاعری کے سبق پڑھنے کا بھی ذکر کرتے ہوئے لکھاہے کہ دادا نے اقبال کی نظم بچے کی دعا کے ساتھ ساتھ شری رام جی کے بارے میں بھی بتایا کہ شاعر نے انہیں امام ہند کہا ہے۔مصنف کی بچپن کی تربیت میں جہاں اردو فارسی کے اشعار کا حصہ ہے وہیں کبیر کے دوہوں اور سنسکرت اشلوکوں کی بھی کم اہمیت نہیں ہے۔ نیاز فاروقی نے اپنی نجی کہانی کے ذریعے مسلم نوجوانوں کے دکھ درد غم و غصے اور تجربات و مشاہدات کو بہت ہی سلیس سادہ اور مؤثر انداز تحریر میں پیش کیا ہے۔
سیاست اور میڈیا کی ملی بھگت نے اپنی چالاکی سحر بیانی اور منصوبہ بندی سے ایک مشکوک انکاؤنٹر کو اکثریتی عوام کے ذہن کا مستقل اور طبعی حصہ بنا دیا ہے۔اس کتاب نے اس کا جائزہ لیتے ہوئے پولیس اور میڈیا کی کہانی پربڑے ہی ماہرانہ انداز میں کئی پیشہ ورانہ سوالات کھڑے کئے ہیں۔مصنف نے بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر پر نیشنل میڈیا کی متعصبانہ اور جانبدارانہ رپورٹنگ کے مد نظر بایو سائنس کے کیریئر سے صحافت کی طرف رخ کیا۔ ملک کے ان باشندگان کی آواز بننے کا فیصلہ کیا جن کی آوازوں کو میڈیا کے شورو غوغا میں دباکر منفی انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ کتاب میں مصنف نے اپنی آپ بیتی کے ذریعے یہ ظاہر کیا ہے کہ بظاہر مذہبی پس منظر کے گھرانوں اور سماج میں تربیت یافتہ مسلم نوجوانوں کی دلچسپیاں اور طبعی رغبت کے سامان وہی ہوا کرتے ہیں جو دوسرے نوجوانوں کے ہوتے ہیں۔ فاروقی نے عورتوں کے پستان کی انگریزی اصطلاح کے ہجے یاد ہونے کی بات کا ذکر دراصل ان ہی معنوں میں کیا ہے۔
زیر نظر کتاب کے مطالعہ کے دوران اس بات کا بڑی شدت سے احساس ہوتا ہے کہ فاروقی کی کہانی میں اگر کچھ حذف و اضافہ کی گنجائش نکال لی جائے تو یہ ہر اس مسلم نوجوان کی آپ بیتی ہے جس نے اس خوفناک اور دہشت زدہ ماحول کا تجربہ اور مشاہدہ کیا ہے۔ اس کتاب پر اس بات کی تصدیق میں کوئی مضائقہ نہیں کہ فاروقی نے اپنے نوک قلم سے آپ بیتی کو جگ بیتی بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ کتاب میں بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کے بعد کے پروفیسر مشیر الحسن اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اساتذہ کے ذریعہ ناامیدی اور مایوسی کے عالم میں نوجوانوں اور طلباء کے ہمت و حوصلے کی بحالی کے اقدامات کی تعریف کے ساتھ ساتھ کچھ نام نہاد مسلم رہنماؤں کے سیاسی جملوں کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔
دوران مطالعہ کئی دفعہ واقعات کی تکرار کا احساس ہوتا ہے مگر یہ خیالات کی خامی و عیب نہیں بلکہ فن کی خوبی اور خوبصورتی پر محمول کیا جانا چاہیے۔نیاز فاروقی کی یہ تخلیقی خدمت ہر مسلم نوجوان کے کرب ، بے چینی اور گھٹن کی آواز ہے جس سے وہ دو چار تھا اور صفحہ قرطاس پر لفظوں کی صورت میں ظاہر کرکے وہ پورے ملک کو یہ بتانا چاہتا تھا کہ دیکھو میری اصلی تصویر یہ ہے نہ کہ دیپک چورسیا اور ارنب گوسوامی جیسے لوگوں کے ذریعہ بنائی گئی تصویر ہے۔ متعصب نیشنل میڈیا فرقہ وارایت کی عینک والے سیاسی رہنماؤں اور تنگ نظر و تنگ دل دانشوروں نے ہمارے رہائشی علاقہ کھانے پینے کی عادت اور پہناوے کی بنیاد پر ملک کے دوسرے شہریوں کے سامنے ہمیں جس رنگ میں پیش کیا ہے وہ یقینا بڑی بھیانک ڈراؤنی اور نا انصافی پر مبنی ہے۔
امید ہے کہ متذکرہ کتاب کا مطالعہ مسلم نوجوانوں کو خوداپنی ہی آواز کی بازگشت کی طرح محسوس ہوگی اور ملک کے عام شہریوں کو بھی بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر پر اٹھنے والے مناسب ضروری اور جائز سوالات کے منشااور نیت کے ساتھ ساتھ مسلم نوجوانوں کو بھی سمجھنے میں معاون ثابت گی۔
Categories: ادبستان, حقوق انسانی