خبریں

وسط ایشیائی ریاستیں طالبان کے ساتھ امن کیوں چاہتی ہیں؟

روس اور وسط ایشیائی ممالک نے افغان تنازعے میں زیادہ دلچسپی لینا شروع کر دی ہے۔ ازبکستان میں ایک اجلاس اس بات کا عندیہ دیتا ہے کہ طالبان کے ساتھ مبینہ روابط کی وجہ خطے میں اسلامک اسٹیٹ کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ ہے۔

Uzbek_DW

ازبکستان نے اسی ہفتے دو روزہ بین الاقوامی ’افغانستان امن کانفرنس‘ کی میزبانی کی ہے۔ تاشقند میں ہونے والے اس اجلاس میں وسط ایشیائی ممالک، امریکا، جرمنی، چین، پاکستان اور روس کے نمائندے شریک ہوئے۔ اس کے علاوہ افغان صدر اشرف غنی، ان کے ازبک ہم منصب شوکت میر زییویوو اور یورپی خارجہ امور کی سربراہ فیدیرکا موگیرینی بھی تاشقند میں موجود تھے۔

اس کانفرنس کے مقصد طالبان کو کابل حکومت کے ساتھ بات چیت پر راضی کرنے کے لیے راستے تلاش کرنا تھا۔ تاہم طالبان نمائندوں کی عدم موجودگی کے باعث اس اجلاس کی کامیابی کے امکانات انتہائی محدود تھے۔ اس کے باوجو ازبک اور افغان صدر علاقائی سطح پر اتفاق رائے بڑھانے کے حوالے سے پر امید ہیں، تا کہ سترہ سال سے زائد سے جاری یہ تنازعہ ختم کیا جا سکے۔

ازبک صدر شوکت میر زییویوو نے اس اجلاس کے افتتاحی خطاب میں کہا، ’’افغانستان کی سلامتی ازبکستان کی بھی سلامتی ہے اور یہ وسطی اور جنوبی ایشیا میں استحکام کا ایک راستہ ہے۔‘‘ ازبک صدر نے اس موقع پر طالبان سے کہا کہ وہ کابل حکومت کے ساتھ امن بات چیت شروع کریں اور اس مقصد کے لیے انہوں نے ازبکستان کی خدمات کی بھی پیشکش کی۔

 کابل حکام 2010ء سے طالبان کے ساتھ بات چیت کرنے کی کوششوں میں ہیں اور اس عسکریت پسند گروہ نے اس معاملے میں کبھی بھی سنجیدہ رویہ اختیار نہیں کیا۔ تاہم طالبان نے امریکا کے ساتھ مذاکرات کی اپنی خواہش کا اظہار کیا ہے کیوں کہ ان کے خیال میں امریکا ہی افغان جنگ کے خاتمے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔