خبریں

عام لوگوں کے ساتھ دھوکا کر رہی ہیں نجی  بیمہ کمپنیاں

خاص رپورٹ :وہسل بلوورکی مدد سے راجستھان پولیس  سینکڑوں گراہکوں کو ٹھگنے کے الزام میں آئی سی آئی سی آئی (ICICI) بینک کے افسروں کی جانچ‌کر رہی ہے۔ لیکن بیمہ اور بینکنگ ریگولیٹری اس بات سے بے پرواہ ہیں۔

آئی سی آئی سی آئی بینک کی  جعلسازی کے شکار لوگ۔ فوٹو : انشورنس اینجیل

آئی سی آئی سی آئی بینک کی  جعلسازی کے شکار لوگ۔ فوٹو : انشورنس اینجیل

ملک کی توجہ ان دنوں پنجاب نیشنل بینک (پی این بی) گھوٹالہ پر ہے۔ اروند سبرامنیم جیسے حکومت سے وابستہ  ماہر اقتصادیات، کارپوریٹ سربراہوں ، کاروباری میڈیا سب کے لئے پی این بی گھوٹالہ ایک موقع کی طرح  آیا ہے۔پی این بی گھوٹالہ کی مثال دےکر انہوں نے سرکاری بینکوں کے نجکاری کی مانگ اچھال دی ہے، جو ان کے مطابق بینکنگ کی دنیا کے مسائل کا حل ہے۔دوسری طرف قانونی ریگولیشن  نے اس حقیقت کی طرف آنکھیں موند سی لی ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر کے نئے نجی بینکوں اور ان کی لائف انشورنس کمپنیوں نے کافی بڑی تعداد میں عام  بینک گراہکوں کے ساتھ جعلسازی کی ہے۔

راجستھان میں آئی سی آئی سی آئی بینک کے افسروں نے آئی سی آئی سی آئی بینک کے معاون آئی سی آئی سی آئی پرڈینشیل لائف انشورنس کے ساتھ مل‌کر گراہکوں کو ٹھگنے کا کام کیا اور ان کو غلط طریقے سے بیمہ پالیسی بیچ دی۔اس کا انکشاف نتن بالچندرانی نام کے ایک وہسل بلوور نے کیا ہے۔ ان میں سے کئی گراہک کم آمدنی والے کسان تھے، جن کو خاص طورپر نشانہ بنایا گیا۔ایسا لگتا ہے کہ ان کمپنیوں نے کھلےدل سے منیجمنٹ گرو  سی کے  پرہلاد کے اس اصول کو اپنا لیا ہے کہ سب سے نچلے پائیداان پر کھڑے لوگوں سے بھی کارپوریٹ فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔

پرہلاد کا دعویٰ ہے کہ اس سے خواب دیکھنے والے غریبوں کی زندگی میں خوشحالی آئے‌گی۔ لیکن، راجستھان کے کسان، ضرور اس سے الگ رائے رکھتے ہوں‌گے۔آئی سی آئی سی آئی بینک اور آئی سی آئی سی آئی پروڈینشیل لائف نے پڑھے لکھوں کو بھی نہیں چھوڑا۔

یہ سب کیسے ہوا اور کس طرح سے یہ جعلسازی جاری ہے،اور اس سے بھی پریشان کرنے والی بات یہ کہ بیمہ ریگولیٹری نے اس حالت کو ٹھیک کرنے یا گراہکوں کی حفاظت کرنے کے لئے کچھ بھی ذکر نہیں کیا ہے،اس بات کا انکشاف انشورنس اینجلس نے کیا ہے۔انشورنس اینجلس آئی سی آئی سی آئی پروڈینشیل لائف کے سابق ملازم بالچندانی کے ذریعے قائم ایک رجسٹرڈ ادارہ ہے۔انشورنس اینجلس دھوکہ دےکر پالیسی بیچ دئے گئے لوگوں کو متعلقہ بیمہ کمپنیوں سے پیسے واپس دلوانے کا کام کرتا ہے۔ آج کی تاریخ تک یہ زیادہ تر شکایت گزار کے پیسے واپس دلانے میں کامیاب رہا ہے۔

علی حسین عارف کا معاملہ (آئی سی آئی سی آئی پالیسی نمبر # * * * * 3146 & # * * * * 4432) خاص طور پر آنکھیں کھولنے والا ہے۔ اخلاقیات کو طاق پر رکھ‌کر کس طرح سے دھوکے سے بیمہ بیچنے کا گورکھ دھندہ  چل رہا ہے، اس کی جانکاری ہمیں اس معاملے سے ملتی ہے۔زبیدہ بائی سنہ 2000 میں ہندوستان زنک سے سبکدوش ہوئی تھیں۔ سبکدوشی  کے وقت وہ سینئر عہدے پر کام کر رہی تھیں۔دسمبر، 2014 میں انہوں نے 10 لاکھ روپیے کا فکسڈ ڈپازٹ کرانے کے لئے آئی سی آئی سی آئی بینک کی فتح پور برانچ، ادے پور سے رابطہ کیا، جہاں ان کا بچت کھاتا تھا۔غیر شادی شدہ ہونے کی وجہ سے، انہوں نے فکسڈ ڈپازٹ میں اپنے بھتیجے / بھانجا کو نومنی بنانے کا فیصلہ کیا۔

زلیخا تاج بینک کی برانچ مینجر تھیں۔ زبیدہ بائی سے ان کی بات چیت ہوتی تھی۔ تاج کو زبیدہ بائی کے غیر شادی شدہ ہونے کی جانکاری تھی اور یہ بھی پتا تھا کہ 70 سال کی زبیدہ کو بیمہ پالیسی نہیں بیچی جا سکتی ہے۔اس لئے تاج نے زبیدہ بائی کو فون کرکے اپنے بھتیجے / بھانجا کو آئی سی آئی سی آئی بینک کی شاخ میں لےکر آنے کے لئے کہا۔علی حسین عارف  ادے پور کی موہن لال سکھاڑیہ یونیورسٹی میں ایم بی اے کا طالب علم تھااور اس وقت ان کی عمر 22 سال تھی۔آئی آر ڈی اے آئی ،ایرڈا کے اصولوں کے مطابق بیمہ اسکیم کسی طالب علم کو نہیں بیچی جا سکتی۔ اس لئے زلیخا نے لائف انشورنس پالیسی کے فارم میں علی حسین عارف کو ایک کاروباری کے طور پر دکھایا اور اس کی سالانہ آمدنی 20 لاکھ روپے دکھا دی۔

اصولوں کے مطابق تھرڈ پارٹی  پیمنٹ کی اجازت نہیں ہے، لیکن زبیدہ کے ذریعے دستخطی ایک بینک چیک کا استعمال کرکے اس کے کھاتے سے ایک ڈیمانڈ ڈرافٹ بنوایا گیا (زبیدہ کی اجازت لئے بغیر) اور اس ڈیمانڈ ڈرافٹ کا استعمال علی حسین عارف کے نام سے بیمہ پالیسی (نمبر * * * * 3146، تاریخ 3 دسمبر، 2014) کے پریمیم کی ادائیگی کرنے کے لئے کیا گیا۔ریگولیٹری کے حساب سے ایسے لین دین تکنیکی طور پر منی لاؤنڈرنگ کے زمرے میں آتے ہیں اور اس لئے ممنوع ہیں۔جنوری، 2015 میں، یعنی فرضی طریقے سے پہلی پالیسی جاری کئے جانے کے ایک مہینے کے بعد زبیدہ کے ساتھ دوسری بار جعلسازی کی گئی۔

اس بار بھی وہی طریقہ اپنایا گیا۔ لیکن دوسری پالیسی کے فارم (نمبر * * * * 4432، 20 جنوری، 2015 کو جاری کیا گیا) میں زلیخا تاج نے علی حسین عارف کی سالانہ آمدنی 30 لاکھ روپے دکھائی۔ یعنی دسمبر میں جاری کی گئی پالیسی سے 10 لاکھ روپے زیادہ۔ان سب کے درمیان زبیدہ بائی کو یہ لگتا رہا کہ زلیخا تاج اس کے پیسے سے فکسڈ ڈپازٹ کھول رہی ہے اور اس کا بھانجا / بھتیجا اس میں نومنی ہے۔

اس طرح اس معاملے میں آئی سی آئی سی آئی بینک نے چار دھوکے بازی کی :

1۔ آئی سی آئی سی آئی بینک کے ذریعے زبیدہ بائی کے نام سے ایک فکسڈ ڈپازٹ جاری کرنے کی جگہ، آئی سی آئی سی آئی پروڈینشیل لائف نے علی حسین عارف کے نام سے ایک بیمہ پالیسی جاری کر دی۔

2۔علی حسین عارف کو پیشے سے ایک کاروباری دکھایا گیا، جس کی 22 سال کی عمر میں سالانہ آمدنی 20 لاکھ روپے تھی، جبکہ حقیقت میں وہ ایک طالب علم تھا، جس کو بیمہ پالیسی بیچی ہی نہیں جا سکتی تھی۔

3۔ زبیدہ کے بینک کھاتے کے پیسے کا استعمال علی حسین عارف کے نام سے بیمہ پالیسی جاری کرنے کے لئے کیا گیا۔ یہ تھرڈ پارٹی پیمنٹ کا معاملہ ہے، جس کی اجازت نہیں ہے اور ساتھ ہی یہ منی لاؤنڈرنگ کے زمرہ میں آتا ہے۔

4۔ایک مہینے کے اندر علی حسین عارف کی اعلانیہ سالانہ آمدنی 20 لاکھ روپے سے بڑھ‌کر 30 لاکھ روپے ہو گئی۔ یہ صرف ان کو دوسری پالیسی بیچے جانے کے لائق دکھانے کے لئے کیا گیا۔

زبیدہ نے 7 اپریل، 2015 کو آئی سی آئی سی آئی پروڈینشیل لائف کو ایک شکایت کی، مگر آئی سی آئی سی آئی پروڈینشیل لائف نے ان کے دعویٰ کو خارج کر دیا کہ ان کے ساتھ دھوکہ دھڑی کی گئی ہے۔

اس کے بعد، انہوں نے 29 اکتوبر، 2015 کو ای-میل سے آئی سی آئی سی آئی بینک کی سی ای او چندہ کوچر سے شکایت کی۔ اس میں انہوں نے ایک سوال پوچھا :

‘ کیا بینک کے پاس میرے ذریعے دی گئی ایسی کوئی تحریری اجازت ہے، جس میں میں نے اس کو اپنا پیسہ کسی دوسرے کے نام سے سرمایہ کاری کرنے کی اجازت دی ہے؟ ‘

اس سوال کا جواب دیتے ہوئے، چندہ کوچر کے ایگزیکیٹو اسسٹنٹ اور سینئر منیجمنٹ ڈیسک کا حصہ چندرمولی رپولو نے 3 نومبر، 2015 کو ایک چونکانے والا جواب دیا :

‘ یہ سرمایہ کاری آپسی رضامندی سے ہی کی گئی اور اس کے پس منظر میں یہ بات بھی تھی کہ وہی بھانجا / بھتیجا آپ کے سارے کھاتوں اور آپ کے سارے سرمایہ کاری میں نومنیہے۔ ‘

اس طرح سے سی ای او کے ایگزیکیٹو اسسٹنٹ نے اپنے جواب میں یہ قبول کیا کہ آئی سی آئی سی آئی بینک آپسی اتفاق، جو غالباً زبانی طور پر دی گئی تھی، سے غیر قانونی کاروبار (مثلاً، گراہک کے پیسے سے تھرڈ پارٹی کے نام سے پالیسی جاری کرنا) کرتا ہے۔یہ ریگولیٹری پالیسیوں کی صاف صاف خلاف ورزی ہے اور تکنیکی طور پر یہ منی لاؤنڈرنگ کا معاملہ بنتا ہے۔زبیدہ نے اس جواب کا حوالہ دیتے ہوئے، ریزرو بینک کے گورنر کو ایک ای میل بھیجا، جس کی ایک کاپی آئی سی آئی سی آئی پروڈینشیل لائف کو بھی بھیجی گئی۔اس کو بھیجنے کے کچھ گھنٹوں کے اندر ہی ان کو آئی سی آئی سی آئی پروڈینشیل لائف کی طرف سے ایک فون کال آئی، جس میں یہ کہا گیا کہ کمپنی دونوں بیمہ اسکیم میں لی گئی  پریمیم ان کو واپس کر رہی ہے۔اس بات کی تصدیق 23 نومبر، 2015 کو آئی سی آئی سی آئی پروڈینشیل لائف کی طرف سے آئے دفتری پیغام سے بھی ہو گئی۔

آئی سی آئی سی آئی بینک اور وہ بھی آئی سی آئی سی آئی بینک کے سی ای او کے آفس کی طرف سے اس بات کو رسمی طور پر قبول کیا گیا تھا کہ کہ بینک ‘ آپسی رضامندی سے ‘ (یعنی رسمی دستاویز کے بغیر) کاروبار کرتا ہے۔

دلچسپ یہ ہے کہ آر بی آئی کو اس بات کی جانکاری تھی، مگر اس کے باوجود وہ اس بات سے بے پرواہ نظر آتا ہے کہپبلک سیکٹر کا ایک بڑا بینک غلط طریقے سے بیمہ اسکیم بیچ رہا ہے۔

(فوٹو : رائٹرس)

(فوٹو : رائٹرس)

زبیدہ بائی کا معاملہ، اس طرح کا واحد معاملہ نہیں ہے۔ راجستھان میں آئی سی آئی سی آئی بینک کے ذریعے دھوکہ دھڑی کے معاملے کی ابتدائی تفتیش کرنے والے اے ایس پی (اسپیشل آپریشن گروپ) ہنومان سنگھ راناوت نے دی وائر کو بتایا :’ ابتک ہماری تفتیش سے دھوکہ دھڑی اور ایرڈا  کی ہدایتوں کی سنگین خلاف ورزی کی بات سامنے آئی ہے۔ بینک اور بیمہ افسروں نے بھی تفتیش میں تعاون نہیں کیا اور ہمیں بھٹکانے کی کوشش کی۔ یہ کافی بڑے پیمانے پر کی گئی دھوکہ دھڑی ہے۔ ‘

یہ آئی سی آئی سی آئی بینک کی عزت پر بدنما داغ لگانے والا بڑا الزام ہے۔ انشورنس ہولڈرز کے لئے یہ زیادہ فکر کی بات ہونی چاہئے کہ انگلی بیمہ ریگولیٹری پر بھی اٹھائی گئی ہے۔آئی آر ڈی اے آئی نے جس طرح کا برتاؤ آئی سی آئی سی آئی پروڈینشیل لائف پر نکیل کسنے کی کوشش کرنے والے اپنے ایک سینئر افسر کے ساتھ کیا، وہ کافی کچھ بیان کرنے والا ہے۔ایک سرکاری جنرل انشورنس کمپنی سے Deputation پر گئے مہیش جوشی شانتی لال آئی آر ڈی اے آئی کے ممبئی علاقائی آفس میں بطور آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی (او ایس ڈی)گریوانس کام کر رہے تھے۔

27 فروری، 2016 کو اپنے سینئر ٹی ایس نائک-ہیڈ آف دی کنزیومر ایڈووکیسی ڈپارٹمنٹ، اور آئی آر ڈی اے آئی کے دیگر افسروں کو بھیجے ایک ای میل میں انہوں نے آئی سی آئی سی آئی پروڈینشیل لائف کے ذریعے کی جا رہی دھوکہ دھڑی کی تفتیش کرنے کے لئے کہا تھا اور یہ واضح تنقید کی تھی :’ برائے مہربانی شکایت کی بنیادوں کا تجزیہ کیجئے۔ آئی سی آئی سی آئی کے خلاف ایسی شکایات بڑی تعداد میں آ رہی ہیں۔ ‘

25 مئی، 2016 کو، آئی آر ڈی اے آئی افسروں کو بھیجے گئے ایک ای میل میں آئی سی آئی سی آئی پروڈینشیل لائف کے ذریعے دھوکہ دھڑی کے ایک دیگر معاملے میں کارروائی کرنے کی مانگ کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا :’ یہ ایک اور تشویشناک معاملہ ہے، جس کی طرف اعلیٰ افسران کو دھیان دینا چاہئے۔ اگر حقائق صحیح ہیں، تو پیسے واپس دلانے کے ساتھ یہ ریگولیٹری کے ذریعے کارروائی کی بھی مانگ کرتا ہے۔ ‘

پانچ دن پہلے 20 مئی کو جوشی نے اپنے ساتھی آئی آر ڈی اے آئی افسروں کو آئی سی آئی سی آئی کے خلاف ایک اور شکایت کے تعلق میں ایک ای میل بھیجا تھا :’… راجستھان کے علاقے میں آئی سی آئی سی آئی پروڈینشیل کے خلاف آئی کئی شکایات کی تفتیش میں ہمیں کئی بےحد سنگین بدانتظامی، یا کہیں غیر مناسب کاروباری طریقوں کا پتا چلا ہے۔ بدانتظامی کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ایک دن ریگولیٹری کے کردار پر بھی سوال اٹھ سکتے ہیں۔ ‘

جوشی جس دن کی پیشین گوئی کر رہے تھے، وہ دن آ گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ لائف انشورنس پالیسی ہولڈرز کی حفاظت کرنے کے لئے آئی سی آئی سی آئی پروڈینشیل لائف کے خلاف جو کارروائی ایرڈا کو کرنی چاہئے تھی، وہ پولیس کرنے والی ہے۔

ایسے میں یہ سوال اٹھنا لازمی ہے کہ آخر بیمہ ریگولیٹری کس کے مفادات کی حفاظت کر رہی تھی؟یہ حقیقت اپنے آپ میں کافی کچھ کہتی ہے کہ ایرڈا میں جوشی کی مدت کافی مختصر رہی۔ وہ وہاں اپنی مدت پورا نہیں کر پائے اور ان کو اپنی پرانی کمپنی میں وقت سے پہلے ہی لوٹنا پڑا۔یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ایرڈا نے راجستھان میں آئی سی آئی سی آئی پروڈینشیل کے ذریعے بڑی تعداد میں غلط طریقے سے بیمہ اسکیم بیچنے کی شکایات پر کوئی کارروائی نہیں کی۔

ان ساری شکایات کو اگر غور سے دیکھیں، تو یہ آئی سی آئی سی آئی بینک اور آئی سی آئی سی آئی پروڈینشیل لائف کے سینئر منیجمنٹ کے ذریعے اپنے نچلی سطح کے ملازم پر کسی بھی قیمت پر لائف انشورنس اسکیم بیچنے کے دباؤ کو ظاہر کرتا ہے۔ان شکایات کو دیکھنے سے ایسا لگتا ہے کہ  ٹارگیٹ پورا کرنے پر ملنے والے انعام اور اس کو پورا نہ کرنے پر دی جانے والی سزا کا چکرویو ایسا تھا کہ نچلی سطح کے ملازم جھوٹ بولنے اور غلط طریقے سے بیمہ اسکیم بیچنے پر مجبور ہوئے۔

یہ دباؤ اتنا زیادہ ہے کہ ہدف کو پورا کرنے میں ناکام رہنے والا شخص کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔11 اکتوبر، 2017 کو ایک مقامی میڈیا نے مدھیہ پردیش کے دھار کے بدناور میں آئی سی آئی سی آئی بینک کے اسسٹنٹ برانچ مینجر کی خودکشی کی خبر شائع کی تھی۔

موت کے وقت دئے گئے اپنے بیان میں زرعی  قرض کے ہدف اور بیمہ پالیسی بیچنے کے ہدف کو پورا کرنے کے لئے منیجمنٹ کے ذریعے ڈالے جا رہے ناقابل برداشت دباؤ کو اپنی خودکشی کی وجہ بتایا تھا۔اس مضمون نگار کا ماننا ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ دونوں کمپنیوں کا سینئر منیجمنٹ نچلی سطح کے ملازم کی کارگزاریوں سے آگاہ نہ ہو۔ اس لئے ان کو ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہئے۔آئی سی آئی سی آئی بینک اور آئی سی آئی سی آئی پروڈینشیل لائف کے ذریعے دھوکے سے بیمہ بیچے جانے کی بات کو سب سے پہلے وہسل بلوورنتن بالاچندانی نے اجاگر کیا تھا۔

انہوں نے ایرڈا، ریزرو بینک آف انڈیا، سیریس فراڈ انویسٹی گیشن آفس (ایس ایف آئی او)، وزیر خزانہ کے دفتر اور وزیر اعظم دفتر کو بھی شکایت بھیجی تھی۔ لیکن، افسوس کی بات ہے کہ ان کے ذریعے بار بار شکایات کے باوجود ایرڈا نے کوئی کارروائی نہیں کی۔الٹے آئی سی آئی سی آئی نے ہی ان کے خلاف خفیہ جانکاریاں چوری کرنے کے الزام میں پولیس میں معاملہ درج کر دیا۔ اس معاملے میں ان کو 30 دن عدالتی حراست میں رہنا پڑا۔ایک سابق ملازم کے خلاف پولیس میں شکایت آئی سی آئی سی آئی پروڈینشیل لائف کے سی ای او سندیپ بکشی کی اجازت کے بغیر درج نہیں ہو سکتی تھی۔

حکومت اور آئی سی آئی سی آئی پروڈینشیل لائف کورٹ میں اس بات کا کوئی ثبوت نہیں دے پائی کہ نتن بالچندرانی نے کوئی خفیہ اطلاع  چوری کی ہے۔راجستھان ہائی کورٹ کی جےپور بنچ نے 16 جنوری، 2018 کو فیصلہ سناتے ہوئے (سیریئل نمبر 42، مقدمہ نمبر 1447/2017) نتن بالچندانی کو سارے الزامات سے بری کر دیااور کہا :’ انویسٹی گیشن آفیسر کے ذریعے درخواست گزار (نتن بالچندانی) کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 420 (دھوکہ دھڑی اور بےایمانی) کے تحت چارج شیٹ داخل کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ ‘

آئی سی آئی سی آئی پروڈینشیل لائف نے اپنے وہسل بلوورکے ساتھ جیسا سلوک کیا، اس سے یہ صاف پتا چلتا ہے کہ کمپنی کس طرح سے انتقامی جذبہ سے کام کر رہی تھی۔ ویسے اصل میں یہ ہر آدمی کو خبردار کرنے کی کوشش تھی، جو مستقبل میں وہسل بلوور بننے کے لئے سوچ سکتا ہے۔

آئی سی آئی سی آئی بینک اور آئی سی آئی سی آئی پروڈینشیل لائف کے ذریعے راجستھان میں منصوبہ بند طریقے سے دھوکہ دھڑی سے بیمہ پالیسی بیچنے کے معاملے میں بڑے میڈیا اداروں کا کردار اس کی فطرت اور کردار کو اجاگر کرتا ہے۔اس کا رخ اس بات کا ثبوت ہے کہ اشتہار دینے والے اہم کارپوریٹ کی حقیقت سامنے لانے میں اس کی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ نتن بالچندانی نےایرڈا کو بھیجی گئی تمام شکایات کی کاپی تمام بڑے میڈیا گھرانوں کو بھیجا تھا، لیکن کسی نے بھی اس معاملے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔

راجستھان پتریکا نے ایک اسٹوری کی (وہ بھی تب، جب راجستھان پولیسکے ذریعے آئی سی آئی سی آئی بینک اور آئی سی آئی سی آئی پروڈینشیل لائف کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے بعد)۔انگریزی میڈیا میں دی وائر کے علاوہ کسی نے اس خبر کو چھاپنے کی زحمت نہیں اٹھائی۔ اس خبر کے بعد بلومبرگ کوینٹ نے ایک اسٹوری کی ضرور، مگر کچھ ہی گھنٹے کے بعد اس کو ہٹا دیا۔انگریزی کارپوریٹ میڈیا ٹی وی چینلوں نے اس دھوکہ دھڑی کی کوئی خبر چلانے سے پوری طرح سے انکار کر دیا اور راجستھان کے واقعات کو لےکر آئی سی آئی سی آئی کے سی ای او سے داووس میں کوئی سوال پوچھنا مناسب نہیں سمجھا۔

ادارہ جاتی کلائنٹ کے لئے آئی سی آئی سی آئی بینک اور آئی سی آئی سی آئی پرڈینشیل لائف کو کور کرنے والے شیئر بازار کے تجزیہ کار نے اگر اس پورے معاملے کو نظرانداز کیا، تو ان کی مجبوری سمجھی جا سکتی ہے۔ان کی خاموشی سمجھ میں آنے والی ہے، کیونکہ وہ اپنا زیادہ تر وقت اپنے ادارہ جاتی کلائنٹ کو کارپوریٹ پہنچ دینے میں خرچ کرتے ہیں۔

کسی کمپنی پر کوئی منفی تبصرہ لکھنے پر ان پر یہ خطرہ ہمیشہ بنا رہتا ہے کہ وہ کمپنی ان کو بلاک نہ کر دے۔اوپٹن سنکلیئر کے حوالے سے کہا جائے تو، ‘ جب کسی شخص کی تنخواہ، اس کے نہ سمجھنے پر منحصر کرتی ہے، تو اس شخص کو کچھ سمجھانا مشکل ہوتا ہے ‘ لیکن، کیا یہی بات دونوں ریگولیٹری پر بھی نافذ ہوتی ہے؟آئی سی آئی سی آئی بینک کی سی ای او اور آئی سی آئی سی آئی پروڈینشیل لائف انشورنس کمپنی کی چیئرپرسن چندہ کوچر کو اور آئی سی آئی سی آئی پروڈینشیل لائف انشورنس کمپنی کے سی ای او سندیپ بکشی اور ایرڈا کے چیئر مین کے دفتر اور اس کے دیگر سینئر افسروں کو ایک تفصیلی سوال نامہ بھیجا گیا تھا، لیکن بار بار یاد دلانے کے باوجود نہ تو ان کے ذریعے موصول ہونےکی اطلاع دی گئی، نہ انہوں نے اس کا کوئی جواب دیا۔

(ہیمندرا ہزاری آزاد مارکیٹ تجزیہ کار ہیں)