تو مسلمان نہیں ہے، تو مسلمان ہو ہی نہیں سکتا۔ ‘ شاید اس کو ‘ سوڈو ‘ لفظ پتہ نہیں تھا ورنہ وہ اس کا استعمال یہاں ضرور کرتا۔’تجھ کو اپنے آپ کو مسلمان بولنے میں شرم آنی چاہئے ‘، ‘ تو بال کٹاکر چوٹی رکھ لے ‘۔
جمعرات کو بی جے پی کے ترجمان سنبت پاترا ری پبلک ٹی وی نیوز چینل پر بیٹھے باقی ہندوؤں پر چلّا رہے تھے، ‘ آپ لوگ سوڈو ہندو ہو ‘، ‘ آپ لوگوں کو ہندو بولنے میں شرم آتی ہے ‘، ‘ نقلی ہندو ‘۔اور پھر گھنشیام تیواری جو کہ سماجوادی پارٹی کے ترجمان ہیں ‘ مولانا گھنشیام ‘ کہہ دئے جاتے ہیں۔ مطلب تم تو اب مسلمان ہو گئے ہو گھنشیام۔ ایک سیکنڈ کو مجھے لگتا ہے، میں نے یہ کہیں دیکھا ہے۔ پہلے بھی کہیں دیکھا ہے۔اور پھر میرے دماغ میں ایک بچپن کا منظر گھوم گیا۔ ہولی کا دن تھا۔ ہم سبآٹھ سے تیرہسال کی عمر کے تھے۔ ہم جہاں رہتے تھے وہاں آدھے بچّے ہندو تھے اور آدھے مسلمان۔
شاید ہندو زیادہ تھے پر پتہ نہیں چلتا تھا۔ شاید ہم اپنے اپنے تہواروں پر ہی زیادہ ہندو یا مسلمان لگتے تھے۔ کیونکہ باقی وقت ہم گلّی ڈنڈا، گولیاں، ستولیا، چھپا چھپائی، کرکٹ یا پتنگ بازی ہی کرتے تھے اور ان میں سے کوئی بھی کھیل ہندو یا مسلمان نہیں ہے۔خیر اس ہولی کے دن، جیسا ہر ہولی پر ہوتا تھا، پانی پر بین ہو گیا۔ دو سے تین گھنٹے کی ہولی کے بعد سارے گھروں کی ٹنکیاں خالی ہو گئی۔اب بس اتنا پانی بچا تھا کہ ایمرجنسی میں لوگ اپنے ہاتھوں کو دھو سکیں۔ پانی اب شام کو چار پانچ بجے آنا تھا اور ابھی تو دوپہر کے 12 بھی نہیں بجے تھے۔تبھی کسی نے آئیڈیا دیا کہ پاس والی مسجد کی ٹنکی لبالب بھری ہے۔ ہندو بچّوں نے ڈیمانڈ کی، تم لوگ مسلمان ہو بالٹیاں مسجد سے بھر لاؤ۔
مسجد میں جانے کے چار دروازے تھے۔ تین ایک طرف اور ایک پیچھے سے۔ پیچھے والا ہمیشہ بند رہتا تھا اور صرف نماز کے وقت کھلتا تھا۔ آگے والے تین دروازوں میں دو سیدھے وضوخانے میں جاتے تھے۔پر دونوں وضوخانے بھی الگ تھے۔ایک پرانا تھا اور ایک نیا۔ پرانے والے میں پرانے نل تھے، تو ان میں سے پانی آہستہ آہستہ آتا تھا۔ نئے والے وضوخانے میں نئے نل تھے۔ تو پانی بلبلاکے آتا تھا۔پر یہ دونوں دروازے بھی صرف نماز کے وقت کھلتے تھے۔ بس درمیان والا بڑا دروازہ ہمیشہ کھلا ہوتا تھا۔ 12 ابھی بجے نہیں تھے۔ ہمیں پتا تھا کہ مسجد کے مولانا اس ٹائم پر تھوڑا سا اونیایا(نیند میں) ہوتا ہے۔
صبح فجر کی نماز کی اذان دینے آخر ساڑھے تین سے چار بجے اٹھانا پڑتا ہے۔تو پلان یہ بنا کہ کوئی مین دروازے سے اندر جاکر نئے وضوخانے کا دروازہ کھول دےگا کیونکہ نیا وضوخانہ ویسے بھی ہماری طرف تھا اس لئے وہاں سے پانی چرانے میں آسانی تھی۔خیر ہمیشہ کی طرح مجھے یہ ذمہ داری سونپی گئی۔ میں ہولی کے رنگوں میں رنگا ہوا چپکے سے اندر گھسا۔ میری سانس دھونکنی کی طرح چل رہی تھی۔ باقی سارے بچّے، کمانڈو کی طرح مسجد کے باہر چھپے ہوئے تھے۔ میں مسجد میں دبے پاؤں چلتا ہوا وضوخانے کی طرف بڑھا تبھی مجھے کہیں دروازے کے چرمرانے کی آواز آئی۔ مسجد میں ایک کمرہ تھا جس میں مولانا رہتے تھے۔ پر اب میں مسجد کے بالکل درمیان تھا۔
ہرایک دروازہ تقریباً تقریباً مجھ سے برابر کی دوری پر تھا۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا تو وہیں بیچ مسجد میں زمین پر لیٹ گیا اور اپنے آپ کو مسجد کے فلور پیٹرن میں چھپانے کی کوشش کرنے لگا۔کچھ 10 سیکنڈ میں مجھے احساس ہوا کہ دروازہ کھلا نہیں ہے بند ہوا ہے۔ مطلب مولانا اندر کمرے میں ہے۔ پھر کیا تھا میں اٹھکر بھاگا اور وضوخانے میں گھس گیا۔لیکن دروازے پر پہنچتے ہی مجھے احساس ہوا کہ کنڈی میں زنگ لگی ہوئی ہے۔ مطلب یہ کھلتے ہی اتنی آواز کرےگی۔ دروازے کے اس طرف دو بچّے تھے۔ جو میری آواز سن سکتے تھے۔ میں نے ان سے دروازے کے اس پار بدبداتے ہوئے کہا کہ یاسین بھائی، جن کی پاس ہی میکینک کی دوان تھی۔ان کی دکان سے باہر ہمیشہ گندے آئل میں ڈوبے کپڑے پڑے ہوتے تھے۔وہ اٹھا لائیں۔ میں انہیں اس کنڈی پر رگڑکر اس کی زنگ دور کر دوںگا اور پھر یہ کنڈی بغیر آواز کے کھل جائےگی۔
کچھ ہی دیر میں دروازے کے نیچے سے آئل میں لپٹے وہ کپڑے، لفافوں کی طرح آنے لگے۔ میں نے ان کو کنڈی پر مل مل کر کنڈی کو چکناکر دیا۔ پھر کیا تھا کنڈی مکھن کی طرح کھل گئی۔دروازہ کھلتے ہی میرے سامنے تین بالٹیاں آ گئیں۔ نل ایسا چلا کہ پہلی بالٹی 30 سیکنڈ میں بھر گئی۔ ہماری آنکھیں تو حیرت سے پھیل گئیں۔اب یہ بات سنکر آپ حیرت مت کیجئے کیونکہ یہ وہ زمانہ تھا جب کوئی بھی بالٹی کسی بھی نل سے بھرنے میں کم سے کم 10 منٹ لیتی تھی۔پھر کیا تھا، ہماری تو لاٹری لگ چکی تھی اور ہمارے دلوں میں لالچ گھر کر چکا تھا۔ ڈیسائڈ یہ ہوا کہ کیوں نہ لوہے والی بڑی ٹنکی بھر دی جائے جو کہ احاطے کے درمیان رکھی تھی۔پھر کیا تھا، سارے لگ گئے اس کام میں۔ اگلے 20 منٹ میں احاطےکی ٹنکی ہم نے بھر دی اور اس کے اگلے 20 منٹ میں خالی بھی کر دی۔ہمیں اب اور پانی چاہئے تھا۔ کسی بھی قیمت پر۔ ہم کوئی بھی خطرہ اٹھانے کو تیار تھے۔میں ہمیشہ کی طرح بالٹی لےکر جیسے ہی وضوخانے کے اندر گھسا، دروازے کے پیچھے مولانا میرا انتظار کر رہا تھا۔
اس نے پیچھے سے میری گدّی پکڑ لی۔(یہاں تھوڑا فلیش کٹ مارنا پڑےگا)ہوا کچھ یوں کہ جب میں رنگا ہوا مسجد میں گھسا تو اپنے رنگے ہوئے پیروں کے نشان چھوڑتا ہوا نکلا۔پھر جہاں فلور پر لیٹا تھا وہاں بھی میں نے اپنے نشان چھوڑے۔مولانا جب اٹھا ہوگا تو اس کو سیدھے سارا ماجرا سمجھ میں آگیا ہو گا۔ اور وہ میرا دروازے کے پیچھے انتظار کر رہا تھا۔حالانکہ اس نے مجھے گدّی سے پکڑ لیا تھا۔ میں سر سے لےکر پیر تک کالا،ہرا،لال،نیلا،جامنی،پیلا رنگا ہوا تھا۔ اس نے مجھے گدّی سے ایسے پکڑا جیسےکہ مرے ہوئے بدبودار چوہے کو چٹکی سے دم سے پکڑتے ہیں۔ مجھے تبھی آئیڈیا آیا۔ میں مولانا سے گیلا رنگا ہوا چمٹ گیا۔ میرا رنگ اب مولانا کے کپڑوں پر چڑھنے لگا تھا۔ مولانا نے اپنے آپ کو بچانے کے چکر میں مجھے دھکا دیا اور میں وہاں سے بھاگا۔
لیکن تبھی ایک آواز آئی، ‘ یہ تو شمیم کا لونڈا ہے۔ ‘ کسی نے مجھے مسجد میں پہچان لیا تھا۔ پھر کیا تھا مولانا میرے پیچھے بھاگا، پر اب ‘ شمیم کا لونڈا ‘ کسی کے باپ کے ہاتھ نہیں آنے والا تھا۔ ایک سیف ڈسٹینس پر پہنچنے پر میں رک گیا۔ اور پھر مولانا چلّانے لگا۔’تو مسلمان نہیں ہے، تو مسلمان ہو ہی نہیں سکتا۔ ‘ شاید اس کو ‘ سوڈو ‘ لفظ پتہ نہیں تھا ورنہ وہ اس کا استعمال یہاں ضرور کرتا۔’تجھ کو اپنے آپ کو مسلمان بولنے میں شرم آنی چاہئے ‘، ‘ تو بال کٹاکر چوٹی رکھ لے ‘، وغیرہ وغیرہ۔ وہ کافی دیر چلّایا پر میں ہنستا رہا، پر نا تب میرے کان پر جوں رینگی تھی اور نہ آج گھنشیام تیواری کے رینگنی چاہئے۔
تو سنبت پاترا، آپ کو ٹی وی پر چلّاتے ہوئے دیکھتے آج وہ مولانا بڑے یاد آئے۔ وہ تب دھرم کے ٹھیکے دار بنے ہوئے تھے۔ اور آج آپ ۔اب اگر باتوں پر جاؤں تو آپ کو ‘ مولانا سنبت ‘بلانا چاہئے کیونکہ اس مولانا جیسی ‘ بلڈی فول ‘ والی باتیں آپ کر رہے ہیں۔ (ہمارے ہندی میڈیم ماحول میں بلڈی فول سب سے بڑی بے عزتی ہوا کرتی تھی)۔ آپ بانٹ رہے ہو دھرم کے آدھار کارڈ۔ہماری محنت اور پلاننگ دیکھی، ہولی کے پانی کا انتظام کرنے کے لئے۔ ساتھ میں ہولی کھیلنے کے لئے۔ یہ ایک مسلمان بچّہ ہندوستان میں کر رہا تھا ہولی کے لئے۔ اور یہ ہی ہندوستان ہے۔
ہے منڈوک نریش سنبت (کیونکہ آپ چال ہی نہیں ڈھال میں بھی کچھ ایسے دکھتے ہیں) نہ وہ مولانا مجھے ہولی کھیلنے سے روک پایا، نہ ہی میرا باپ (حالانکہ میرے باپ نے کبھی روکا نہیں لیکن بولنے میں زیادہ اثردار لگتا ہے)تو آپ کس کھیت کے کدو ہو۔یہ ملک نہ کسی کے سرٹیفیکیٹ پر چلا ہے نہ چلےگا۔ جیسے میں اس دن اس مولانا پر ہنس رہا تھا، کچھ دنوں میں لوگ تم پر ہنسیںگے۔کیونکہ تم جیسے لوگ صرف مذاق ہیں۔ بس فرق یہ ہے کہ یہ مذاق ابھی ملک کے ساتھ ہو رہا ہے۔ پر جیسا مذاق کےساتھ ہمیشہ ہوا ہے، وہ ہی تمہارے ساتھ ہونے والا ہے۔ مذاق آخر میں بس مذاق بنکر رہ جاتا ہے۔
(داراب فاروقی اسکرپٹ نگار ہیں اور فلم ڈیڑھ عشقیہ کی کہانی لکھ چکے ہیں۔)
Categories: فکر و نظر