یہ نفرت اور تشدد، بہاری سماج کو گہرا زخم دینے والا ہے۔ سڑکوں پر اترے لوگوں کے تیور دیکھئے۔ اس تیور میں نفرت کی گرمی دیکھئے۔ ان کی چال، ان کے ہاتھ سے اٹھتی تلوار، ہاکی سٹک اور منھ سے نکلے قول اس کی تصدیق کر رہے ہیں۔
بہار کو نفرت کی آگ میں جھونک دیا گیا ہے۔ اس کو فرقہ وارانہ فساد کہا جائے یا دو کمیونٹی میں تصادم یا فرقہ وارانہ کشیدگی…لفظوں پر عالم جتنی چاہے، اتنی بحث کریں۔ عام بہاری عوام کے لئے یہ نفرت، خوف، تشدد، کشیدگی، بےچینی، نیند اڑانے کا دور ہے۔ویسے، اب یہ جاننا ضروری ہو گیا ہے کہ آزادی کے بعد بہار فرقہ وارانہ تشدد اور کشیدگی کی ایسی گرفت میں کب آیا تھا؟ یہ بھی جاننا اتنا ہی ضروری ہے کہ بہار کے کون کون سے ضلعے پچھلے دو سال میں فرقہ وارانہ کشیدگی سے بچ پائے ہیں؟
چھوٹی موٹی جھڑپ کو جانے دیں۔ پھر بھی اگر لسٹ بنےگی تو اب ایسا لگتا ہے کہ بہار کے زیادہ تر بڑے اور اہم ضلعے اس میں شامل ہوںگے۔ سال دو سال کے واقعات نہ یاد آ رہے ہوں تو فی الحال چھوڑ دیں۔ پچھلے چھے مہینے پر ہی غور کریں۔ اس دوران میں ہی بہار نے فرقہ وارانہ تشدد کے کئی بڑے اجتماعی دور دیکھ لئے ہیں۔بقرعید، درگاپوجا، محرم، بارہ وفات، سرسوتی پوجا، رام نومی اور شاید اب ہنومان جینتی تک ان سب مواقع پر بہار میں ایک ساتھ کئی ضلعوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی ہوئی ہیں۔ ابھی ہو رہے ہیں۔ رام نومی کو گزرے کئی دن ہو چکے ہیں پر فرقہ وارانہ تشدد اور کشیدگی کا دور ابھی گزرا نہیں ہے۔ ان لائن کو لکھے جانے کے دوران بھی تشدد کی خبریں آ رہی ہیں۔کچھ لوگوں کو یہ 80 کے دور کی یاد دلا رہے ہیں۔ حالانکہ، شاید اسّی کے دور میں بھی بہار کے اتنے ضلعوں میں ایک ساتھ، اتنے کم وقت میں فرقہ وارانہ ٹکراؤ یا کشیدگی نہیں ہوئی تھی۔
الگ الگ ذرائع سے جٹائی گئی جانکاری بتا رہی ہے کہ پچھلے دو سالوں میں بہارکے سیتامڑھی، مدھےپورہ، گوپال گنج، گیا، نوادہ، جموئی، مظفرپور، ویشالی، سیتامڑھی، چھپرا، مشرقی اور مغربی چمپارن، کٹیہار، ارریہ، سپول، بھوج پور، بیگوسرائے، سیوان، بھاگل پور، پٹنہ، اورنگ آباد، روسڑا، منگیر، نالندہ، ارول، شیخ پورہ… میں فرقہ وارانہ کشیدگی ہوئی ہیں۔ تشدد ہوا ہے۔ ظاہر ہے، یہ لسٹ پوری نہیں ہے۔ ان میں وہ واقعات شامل نہیں ہیں، جو گئورکشک کے نام پر بہار کے کچھ ضلعوں میں پہلی بار سننے اور دیکھنے میں آئے۔ جی، یہی بہار کو نفرت کی آگ میں جھونکنے کی کوشش ہے۔ اس کو اب منصوبہ بند، منظم سازش بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس کی جانچ تو ہونی ہی چاہئے۔
آڈیو : رویش کمار کی اپیل
بہار کبھی بھی اتنی نفرت والی ریاست نہیں تھی۔ کھان پان میں نہ رہن سہن میں اور نہ ہی ایک دوسرے کے ساتھ کمیونٹی تعلقات میں۔ بہار کی آبادی کی بناوٹ بھی زیادہ تر ملی جلی رہی ہے۔ مگر پچھلے کئی سالوں سے اس بناوٹ کے ایک ایک دھاگے کو بہت ہی محنت اور قرینے سے الگ الگ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔یہ کوشش پہلی بار بڑے پیمانے اور کھلے طور پر تب دیکھنے کو ملی جب بہار میں اسمبلی انتخاب ہو رہے تھے۔ انتخاب میں گائے کاگوشت، گاؤ کشی، پاکستان، مسلم ریزرویشن، مسلم وظیفہ… جیسے مدعے اچھالکر، پھیلاکر بہار میں نفرتی ترقی کی سیاست کی بنیاد ڈالنے کی کوشش ہو رہی تھی۔ مگر بہار نے ترقی کی نفرتی سیاست کی بنیاد پر سر اٹھانا گوارا نہیں کیا۔ اس نے بہت ہی صاف آواز میں اس کو بے دخل کرتے ہوئے اپنی بات کہی۔
حالانکہ، بہار انتخاب کا نتیجہ آنے کے فوراً بعد اس تبصرہ کو لکھنے والے نے ہندی میں ایک تبصرہ لکھا تھا۔ اس میں لکھا تھا، ‘ نفرت کی سیاست، کبھی بہار کی اہم آواز نہیں رہی۔ نتیجہ بھی صاف صاف یہی بتا رہاہے کہ عدم رواداری کی سیاست یہاں نہیں چلی۔ مگر کیا ہمیشہ ایسا رہےگا، یہ کہنا مشکل ہے۔ پہلی بار بہار نے فرقہ وارانہ بنیاد پر اتنا تیز اور شدید کیمپین دیکھا ہے۔ گائے، گائے کا گوشت، پاکستان، مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن، دہشت یہ ساری باتیں، مدعے کے طور میں اچھالی گئیں۔ ایک نہیں، بی جے پی کے تین تین اشتہار اسی وجہ سے الیکشن کمیشن کی تنقید کے شکار ہوئے۔ ظاہر ہے، ان سب کا مقصد فرقہ وارانہ بنیاد پر پولرائزیشن تھا۔ حالانکہ ایسے کیمپین کا اثر سیٹوں کی تعداد پر بھلے نہ ہوا ہو، لیکن یہ ٹولوں ٹولوں تک پہنچا۔ ووٹروں کی بڑی تعداد بھلےہی بی جے پی کے ان مدعوں کے ساتھ نہیں گئی، پر ایک حصہ تو ضرور گیا۔ بی جے پی کو ملے ایک چوتھائی ووٹ تو کم سے کم یہی بتا رہےہیں۔ اس لئے یہ مدعا بھلےہی اس انتخاب کے ساتھ دبتے دکھیں لیکن سماج میں عدم اعتماد کا بیج پڑ گیا ہے۔ اگر اس کو کھاد پانی ملتا رہا تو آج نہیں تو کل یہ جنم لےگا۔ سوال ہے، سیاسی اور سماجی سطح پر نفرت کے اس بیج کو شگفتہ ہونے سے مہاگٹھ بندھن کیسے روکتا ہے؟ یہ نہ صرف بہار کے لئے بلکہ پورے ملک کے لئے اہم ہے۔ جیسے اس انتخاب کے نتیجے اہم ثابت ہوںگے۔ ‘
انتخاب میں اٹھے مدعوں نے ماحول کو ڈراونا بنایا تھا۔ اسی لئے جیتکے بعد ایک اہم سوال تھا کہ کیا بہار میں ڈر کی سیاست پر اب روک لگےگی؟ دھیان رہے یہ بات تقریباً سوا دو سال پہلے کی ہے۔مگر نئی حکومت کو سماجی تانابانا کی چدریا کو مکمل رکھنے کے لئے جتنی توجہ دینی چاہئے تھی، اتنی اس نے نہیں دی۔ بیج کو کھاد پانی ملتا رہا اور وہ پھلتا پھولتا رہا۔ نفرتی بول، نفرتی جلوس، نفرتی کام… چلتے رہے۔
… اور مہاگٹھ بندھن ٹوٹنے کے بعد تو وہ بےلگام ہو گیا۔ اتنی تیزی سے یہ نفرتی بیل لہراتی چلی گئی کہ اب اس کو تھامنا مشکل ہو رہا ہے۔ حالانکہ، مہاگٹھ بندھن ٹوٹنے کے بعد سے ہی نفرت کے سایے کے گہرانے کا خدشہ ہونے لگا تھا۔ مگر وہ خدشہ اتنی جلدی، اتنی خوفناک شکل میں پروان چڑھےگا، یہی سب سے خوفناک اور پریشان کن بات ہے۔ ایسا نہیں تھا کہ نفرت پہلے نہیں پھیلائی جا رہی تھی۔ مگر تب انتظامیہ بھی تیزی سے کاروائی کرتا دکھ جاتا تھا۔
اب نفرت پھیلانے والے اور اس کی فصل کاٹنے والے بے خوف ہیں۔ یہ نفرت اور تشدد، بہاری سماج کو گہرا زخم دینے والا ہے۔ سڑکوں پر اترے لوگوں کے تیور دیکھئے۔ اس تیور میں نفرت کی گرمی دیکھئے۔ ان کی چال، ان کے ہاتھ سے اٹھتی تلوار، ہاکی سٹک اور منھ سے نکلے قول اس کی تصدیق کر رہے ہیں۔ یہ سب عام انسان کو خوفزدہ کرنے والے اور اکسانے والے ہیں۔ یہ پورے سماج کو تشدد آمیز بنانے کی کوشش ہے… یہ گھروں، محلّوں، علاقوں، بازاروں، دوستی، میل جول کو بانٹکر اپنی بیلوں کو اور طاقت دےگا۔بہتوں کو یہ بات بہت زیادہ لگ سکتی ہے۔ آزادی کے بعد شاید یہ پہلی بار ہو رہا ہوگا، جب کچھ مہینوں کے اندر بہار میں ایک ساتھ کئی جگہ پر فرقہ وارانہ کشیدگی / تشدد لگاتار ہو رہا ہے۔ ان لائنوں کو لکھتے ہوئے کبھی نالندہ میں افراتفری تو کبھی مونگیر میں دکان بند کرکے بھاگتے لوگوں کی خبر آ رہی ہے۔ تو نوادہ میں ہنومان جی کے مجسمہ کو برباد کرنے اور اس کا بدلہ لینے اترے لوگوں کی تصویر دکھ رہی ہے۔نفرت کے اس دور نے بھاگل پور، اورنگ آباد، روسڑا، منگیر، نالندہ، سیوان، نوادہ، گیا، شیخ پورہ… کو اپنےآغو ش میں لیا ہے۔ کہیں دو فریق آمنے سامنے آئے۔ کہیں پتھراؤ، تو کہیں آگ زنی، کہیں گولی چلی۔ مگر ہرجگہ اب ‘ حالت قابو میں لیکن کشیدگی آمیز ‘ ہے۔
موجودہ فرقہ وارانہ کشیدگی کی بنیاد اس مہینے میں ہوئے لوک سبھا اور اسمبلی ضمنی انتخابات کے نتیجہ کے ساتھ ہی بننے لگی تھی۔ ارریہ میں راشٹریہ جنتا دل کی جیتکے بعد لگاتار ایسے بیان آئے، جو ارریہ اور وہاں کے عوام کے بارے میں نفرتی امیج بنانے والے ہیں۔ نفرت کے نام پر لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑے کرنے والے ہیں۔ پھر ایک ویڈیو آیا۔ پاکستان آیا۔ ملک کو ٹکڑے کرنے کا کہیں سے نعرہ آیا۔ پھر اس نفرتی امیج کو دھاردار بنانے کی کوشش ہوئی۔ ابھی یہ سب ٹھنڈا ہی ہو رہا تھا کہ بھاگل پور میں ایک جلوس نکلا۔ کہا گیا کہ یہ ‘ بھارتیہ نو ورس ‘ کا جلوس ہے۔ مگر اس جلوس نے ہندوستان کے باشندوں کو جوڑا نہیں۔ ہنگامہ اور توڑپھوڑ ہوئی۔ پھر رام نومی کی تیاری، رام نومی کا جلوس اور رام کے نام کی آڑ میں ڈرانے، دھمکانے اور بانٹنے کی کوشش ہوئی۔ کوشش کامیاب ہوئی۔ کیوں، کیونکہ انتظامیہ کو جیسی مستعدی برتنی چاہیے تھی، اس نے برتی نہیں۔ اس کو ایسی نفرت، تشدد یا ہنگامے کا خدشہ نہیں تھا، یہ کہنا اور ماننا بہت ہی مشکل ہے۔ خاص طور پر جب اس کے پاس پچھلے دو سالوں کے نمونے ہوں۔
بہار کی بہترین حکومت کی علامت کے طور میں اپنی پہچان بنانے والے وزیراعلی نتیش کمار اس بار پوری طرح بے بس دکھ رہے ہیں۔ ورنہ کوئی وجہ نہیں تھی کہ نفرت کی بیل ایک ضلع سے دوسرے ضلع میں پھیلتی رہے اور پتا نہ چلے۔ حکومت کچھ اثردار قدم نہ اٹھا سکے۔پڑوسی ریاست بنگال میں بھی جو ہو رہا ہے، وہ کم خطرناک نہیں ہے۔ ان دونوں ریاستوں کی پہچان نفرتی / فرقہ وارانہ تشدد والی ریاستوں کے طورپر نہیں رہی ہے۔ اب نفرت پھیلانے والے، نفرت کی فصل بونے اور کاٹنے والوں کی فہرست میں اپنا نام چڑھوانے کے لئے اب یہ بھی باقیوں سے ٹکرلیںگے۔ ظاہر ہے، اس فصل کا فائدہ کسی نہ کسی گروہ، درجہ، آدمی یا آدمیوں کے گروہ یا خیال کو مل ہی رہا ہوگا۔ تب ہی تو یہ پھیل رہی ہے اور پھیلائی جا رہی ہے۔ ہے نہ؟
کیسی انوکھی بہترین حکومت ہے؟ کیسی زبردست ترقی ہے؟ ہے نہ؟
Categories: فکر و نظر