خبریں

بہار میں فرقہ وارانہ تشدد : کیا یہ الیکشن کی تیاری ہے؟

وہ ساری نفرت بھری  باتیں جو ایک دوسرے کے کھان پان، رہن سہن اور اخلاقیات کے بارے میں پہلے اتنی شدت سے نہیں سنی جاتی تھیں، اب ان باتوں میں ؛’ہم سب،اُو سب ،ای لوگا اُو  لوگ ، اوکنی کے ‘ زیادہ اثردار ہونے لگا ہے۔

فوٹو : پی ٹی آئی

فوٹو : پی ٹی آئی

بہار میں نفرت کی سیاست اور نتیجتاً فرقہ وارانہ تشدد،اصلیت میں 2019 کی تیاری ہے۔بہار میں ابھی ہوئے یا ہو رہے نفرت بھرے تشدد کی سب سے بڑی وجہ یہی بتائی جا رہی ہے۔  تو کیا واقعی ایسا ہی ہے؟

2015میں بہار اسمبلی انتخاب کے دوران ‘ نفرتی ترقی ‘ کی زہریلی تشہیر کے پیچھے بھی یہی دلیل تھی۔  یعنی یہ سب انتخاب جیتنے کے لئے کیا جا رہا ہے۔  2013 میں مظفرنگر فساد کے بعد بھی یہی سب سے بڑی وجہ بتائی گئی۔اس سے پہلے رتھ یاترا (1989)، بابری مسجد انہدام (1992)، گجرات فسادات (2002) کی سب سے بڑی وجہ بھی انتخاب کو ہی بتایا جاتا ہے۔ان (نفرتی) واقعات کے بعد ہونے والے انتخاب کے نتیجے دیکھیں تو عام طور پر اس بات میں سچائی بھی دکھائی دیتی ہے۔  یہ بھی چھپی بات نہیں ہے کہ ایسے ہر بڑےواقعہ کے بعد کس کس پارٹی کو سب سے زیادہ فائدہ ملتا رہا ہے۔حالانکہ اس کے برعکس تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ نفرت کسی پارٹی کو فوری طور پر تو انتخاب میں کامیاب کر سکتی ہے۔  مگر یہ وہ امرت نہیں ہے، جس کو پا کر اور پی‌کر کوئی پارٹی امر ہو جاتی ہے۔  اگر ایسا ہی ہوتا تو 1992 میں بابری مسجد انہدام کے بعد ہوئے اسمبلی انتخاب میں اتر پردیش میں ایس پی  اور بی ایس پی  جیت درج نہیں کرا پاتیں۔

 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں کراری شکست کے بعد 2015 میں یعنی تقریباً ڈیڑھ سال کے اندر بہار اسمبلی انتخاب میں مہا گٹھ بندھن  کے طور پر جانے گئے جے ڈی یو، راشٹریہ جنتا دل، کانگریس کا مورچہ جیتنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔مگر اس سے یہ نتیجہ نکال لینا کہ نفرت ہار گئی ہے یا نفرت کی بیل ایک انتخاب تک ہی ہے اور انتخاب تک ہی رہے‌گی… شاید کارگر  سوچ نہیں ہوگی۔  یہ سوچ اوپری تہہ کو تو دیکھنے اور سمجھنے میں خوب مدد کرتی ہے پر گہرے پانی میں اتریے تو یہ نظریہ بہت کام نہیں آتا ہے۔دراصل یہ سماجی تانےبانے کی اس بنیاد کو اکھاڑنے کی کوشش ہے، جو لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جینے پر مجبور کرتی ہے۔  وہی بنیاد جس کو پڑھے لکھے گنگاجمنی تہذیب کے نام سے نوازتے ہیں اور نادان میل جول کہتے ہیں۔

جمہوریت میں انتخاب بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔  ہندوستانی جمہوریت کی بنیاد میں ہی انتخاب ہے۔  مگر یہ تو ان کے لئے بنیادی چیز ہے، جو جمہوریت کو جمہوری‎ بنائے رکھنے میں یقین رکھتے ہیں۔یہ ان کے لئے تو محض ایک سیڑھی ہے، جو کسی ‘ بڑے مقصد ‘ کے لئے دل وجان سے لگے ہیں۔  ایسے خیال، پارٹی، لوگ… نفرت کو انتخاب کے دائرے میں ہی سمیٹ‌کر نہیں رکھتے ہیں۔  وہ کھاد اور پانی کے ساتھ نفرت کو سینچتے رہتے ہیں۔  سینچتے رہتے ہیں۔  وہ بڑے صبر کے ساتھ پھل کا انتظار کرتے ہیں۔شاید فیض احمد فیض کی طرز پر اس کو یوں سمجھا جا سکتا ہے؛

چناؤجیت گئے تو کیا کہنا

ہارے بھی تو بازی مات  نہیں

ان کے لئے تو انتخاب آئیں‌گے اور جائیں‌گے، مگر نفرت کی بیل زیادہ سے زیادہ گاؤں، ٹولوں، محلوں، بستیوں، گھروں میں اپنی پہنچ بنانے کا کام بدستور جاری رکھے‌گی۔

بہار میں یہی ہو رہا ہے۔ 2015 کے انتخاب سے بہتوں کو یہ غلط فہمی ہوئی کہ سیاسی طور پر نفرت کو شکست ہو گئی ہے۔  سیٹوں کی گنتی میں یہ سچ بھی ہے۔  مگر دھیان رہے، شکست خوردہ ہونے کے بعد بھی اس نے ایک چوتھائی بہاریوں کو اپنا ہمدرد بنا لیا۔  یہ اسی سچ کا دوسرا پہلو ہے۔ جن بہاریوں  کو اس نے اپنی گرفت میں لیا وہ زیادہ تر اس طبقے سے آتے ہیں، جن کے پاس صدیوں سے ہر طرح کی طاقت رہتی آئی ہے۔  ان کے لئے جمہوریت کی ‎ شکست بھی برداشت کرنا مشکل رہی ہے۔  اس پر سے نفرت سے بھرے خیال کا سہارا۔  یہ ان کو اپنا دبدبہ بنائے رکھنے کے لئے نئی طرح کا سمبل دے رہا ہے۔  اس میں کام کی امید میں بیٹھی بےکار جوانی کا جوش بہت کام آ رہا ہے۔

اسی لئے اسمبلی انتخابات گئے اور اس کے نتائج بھی نفرت کے معقول نہیں آئے، پھر بھی نفرت کی بیل سوکھی نہیں۔ انتخاب کے چند مہینے بعد ہی شروع ہوئے نفرتی ٹکراؤ اور تشدد تو یہی اشارہ کرنے لگا تھا۔  نفرتی واقعات کے بعد چھپرا، ارریہ، کٹیہار، چمپارن، گیا، ویشالی کے گاؤں میں لوگوں سے بات کرتے ہی جو چیز سب سے نمایاں طور پر ظاہر ہوتی ہے، وہ ہے آہستہ آہستہ ایک دوسرے پر بھروسہ کا ختم ہوتے جانا۔  ہر چیز میں آہستہ آہستہ ‘ مذہب کی پہچان ‘ اثردار طریقے سے شامل ہونے لگی۔  وہ ساری نفرتی باتیں جو ایک دوسرے کے کھان پان، رہن سہن اور اخلاقیات کے بارے میں پہلے اتنی شدّت سے نہیں سنی جاتی تھیں، اب ان باتوں میں ‘ ہم سب،اُو سب ،ای لوگ اُو  لوگ ، اوکنی کے ‘ زیادہ اثردار ہونے لگا ہے۔  حالانکہ اس سے یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کہ بہار میں یہ پہلے تھا ہی نہیں۔  مگر یہ کبھی بہار کی اہم یا اثردار آواز نہیں تھی۔  یہ آپسی صلاح مشورہ کا پیمانہ نہیں تھا۔

 یہ بھی پڑھیں :  بہار جل رہا ہے اور حاکم وقت  چین کی بنسی بجا رہاہے…

گزشتہ  کچھ سالوں میں اور خاص طور پرپچھلے اسمبلی انتخاب کے بعد یہ نفرتی خیال زیادہ اثردار نظر آنے  کی کوشش میں مصروف ہے۔  عام لوگوں میں اثردار دکھنے کا سب سے آسان طریقہ ہے، زندگی پر تشدد اور خوف کا سایہ۔  یہی طریقہ بخوبی استعمال ہو رہا ہے۔  اسی کے ذریعے نفرت کی کامیابی کے پرچم بہار میں ضلع‎ در ضلع‎ گاڑے جا رہے ہیں۔  پرچم کا نام یا رنگ چاہے جو ہو۔جی، یہ ہمارے سماج کو مکمل طور پر مذہب کے نام پر بانٹ دینے کا ‘ بڑا مقصد ‘ ہے۔  یہ چھوٹاچھوٹا بٹوارا ہے… جو بڑے بٹوارے کی راہ ہموار کر رہا ہے۔جہاں گھر یا مندر،مسجد،گرودوارا،گرجا کے در سے باہر کوئی انسان، ہندوستانی شہری نہیں رہے‌گا بلکہ ہر ایک کی پہچان صرف اور صرف مذہب میں تبدیل کر دی جائے‌گی۔  جب تک یہ ‘ بڑا مقصد ‘ پورا نہیں ہوتا ہے…نفرت اورنگ آباد، نوادہ، نالندہ، آسنسول، کاس گنج کے طور پر دکھتی رہے‌گی۔  انتخاب تو بیچ بیچ میں ہوتے ہی رہیں‌گے۔  دھیان رہے، یہ خاص رنگ میں رنگی قوم پرستی ہے۔  اس کے لئے تو یہ چھوٹی موٹی قربانی ہے۔

ہمیں ایک سال پہلے ہوئے اتر پردیش اسمبلی انتخاب پر بھی ذرا غور کرنا چاہئے۔  آخر کیا وجہ ہوئی کہ جو پارٹی دو دہائی سے تیسرے نمبر کی لڑائی لڑ رہی تھی، وہ ایک چھلانگ میں نمبر ایک کی پارٹی بن گئی۔  صرف یہی نہیں بلکہ رکارڈ توڑ نمبر کے ساتھ پہلے پائدان پر پہنچ گئی۔  کیا یہ جادو اچانک ہو گیا؟سالوں سے ایسا مانا جا رہا تھا کہ چونکہ وہ پارٹی یوپی میں گنتی میں شکست خوردہ ہے تو اس کے خیال بھی زمین دوز ہو گئے ہیں۔  پر کیا واقعی میں ایسا تھا؟  کیا کوئی بھی پارٹی اچانک اتنی گنتی بڑھا سکتی ہے؟  نفرت یہ کام کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔اس لئےاگر نفرت کو ختم مانا جا رہا تھا تو یہ ہم سمجھنے والوں کی غلطی ہے۔  نفرت کی بیل اتنی جلدی نہیں سوکھتی ہے۔  وہ جب پھیلتی ہے تو بہت گہری جڑ جماتی ہے۔  اس لئے کبھی کبھی ایسی غلط فہمی ہوتی ہے کہ وہ تن‌کر اس لئے اچانک کھڑی ہو گئی ہے کیونکہ نفرتی تشدد کے طور پر اس کو کوئی سنجیونی بوٹی مل گئی ہے۔  مگر سنجیونی بوٹی بھی ہوا میں کام نہیں کرتی ہے اور ہر حالت میں کام نہیں کرتی ہے۔  یہ تو پہلے ہی بوئی گئی نفرت کا کمال ہے، جو انتخاب ہارنے سے ہار مان‌کر بیٹھ نہیں گئی تھی۔  اس کو معقول کھاد پانی ملا اور وہ تروتازہ ہوکر نئے دم خم کے ساتھ میدان میں حاضر ہو گئی۔

 یہ بھی پڑھیں : بہار میں فرقہ وارانہ تشدد، بی جے پی کے ساتھ اتحاد کا نتیجہ یہی ہونا تھا

ایک اور بات ،اتر پردیش کے ضلعوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی اب بڑی خبر نہیں بنتی اور نہ ہی اس کے لئے لوگ ہی بہت پریشان ہوتے ہیں۔  خبر بننے اور پریشان ہونے کے لئے اس کو مظفرنگر یا کاس گنج ہونا پڑتا ہے۔  مظفرنگر اور کاس گنج کے درمیان بہت سے واقعات ‘ روٹین ‘ یا ‘ روز مرہ ‘ کا واقعہ بنا دئے گئے ہیں یا بن گئے ہیں۔

بہار کو کیا اسی راستے پر آگے بڑھایا جا رہا ہے۔  نفرت اتنی بو دو کہ کبھی بھی کوئی سنجیونی اس کو تن‌کر کھڑےہونے کی طاقت دے دے۔ابھی تو بہار میں نفرتی تشدد کے واقعات بہتوں کو چونکا رہے ہیں۔  لوگ پریشان ہیں۔  بہار کو کیا ہو گیا،یہ سوال پوچھے جا رہے ہیں۔  موجودہ نظام کے ہاتھ سے چیزیں پھسلتی نظر آ رہی ہیں۔  یہ سلسلہ کیسے رکے‌گا۔ یہ شک گہراتا جا رہا ہے۔  اب سلسلہ رکے یا نہ رکے مگر نفرت کو ہتھکڑی میں باندھ‌کر رکھنا مشکل ہے۔یہ اب محض حکومت اور انتظامیہ کا سوال نہیں رہا۔  تو کیا اتر پردیش کی طرح بہار میں نفرت کے ایسے واقعات کو ہماری روز مرہ کی زندگی کا حصہ بنایا جا رہا ہے؟  تاکہ نفرت پھلتی رہے… دھیان تب تک نہ جائے جب تک مظفرنگر یا کاس گنج جیسا کوئی تشدد نہ ہو یا پھر کوئی بھاگل پور یا بہارشریف نہ ہو؟