فیک نیوز:تصویر کو فرقہ وارانہ رنگ اس وقت دیا گیا جب بغیر کسی دلیل اور ثبوت کے لڑکےکومسلمان قرار دیا گیا ۔ انڈیا ٹی وی نےبھی اس کے مسلمان ہونے پر مہر لگا دی !صحافی کنچن گپتا نے بھی ٹی وی کی تعریف کرتے ہوئے لڑکے کی شناخت سے پردہ اٹھانے کی مبارکباد دی۔ حالانکہ بعد میں ان کواپنی غلطی کا احساس ہوا اور انہوں نے ٹوئٹ ڈیلیٹ کر کے معافی مانگی۔
سوشل میڈیا میں فیک نیوز اورجعلی تصویروں کے ذریعے فرقہ وارانہ تشدد پھیلانے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن خوش قسمتی سے وقت رہتے اس طرح کی فیک نیوز کی شناخت کر لی جاتی ہے اور ان کو رد کر دیا جاتا ہے۔ گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ کے ایک آرڈر کی مخالفت میں ملک کے دلت سماج نے ‘بھارت بند’ کا اعلان کیا تھا اور ملک بھرمیں تقریباً ایک درجن صوبوں میں احتجاج اور مظاہرےکئے تھے۔ ان ہی مظاہروں کی ایک تصویر سوشل میڈیا میں عام ہو گئی جس میں ایک نوجوان لڑکا نیلی قمیص اور سر پر نیلے رنگ کی پٹی باندھ کر احتجاج میں شامل تھا۔ اسی تصویر کے ساتھ ایک تصویر اور تھی جس کے بارے میں بتایا جا رہا تھا کہ یہ لڑکا کرنی سینا کے احتجاج میں بھی موجود تھا اور اس نے بھگوا پوشاک پہن رکھی تھی۔ اس لڑکے کی ان دو تصویروں سے یہ ثابت کر دیا گیا کہ یہ لڑکا ‘فری لانسر” ہے جو مزدوری پر کسی بھی احتجاج کا حصّہ بن جاتا ہے۔
یہاں تک تو سب ٹھیک رہا لیکن اس تصویر کو فرقہ وارانہ رنگ اس وقت دیا گیا جب تصویروں میں موجود لڑکے کو بنا کسی دلیل اور ثبوت کے مسلمان قرار دیا گیا اور اس کا نام عبد الجمال خان بتایا گیا۔ انڈیا ٹی وی نے اپنی خبر میں بنا کسی ثبوت کے اس کے مسلمان ہونے پر مہر لگا دی !انڈیا ٹی وی کے علاوہ بنگال کے ہندتوا کارکن تپن گھوش نے بھی اس لڑکے کو ‘ملا’ کہہ کر کانگریس کا ایجنٹ بتایا۔ صحافی کنچن گپتا نے بھی ری پبلک ٹی وی کی تعریف کرتے ہوئے لڑکے کی شناخت سے پردہ اٹھانے کی مبارکباد دی۔ حالانکہ بعد میں ان کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انہوں نے ٹوئٹ ڈیلیٹ کر کے معافی بھی مانگی۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ ریپبلک ٹی وی کے جس ٹوئٹ کو بنیاد بناکر انہوں نے یہ دعوی کیا تھا وہ ایک جعلی ٹویٹر ہینڈل سے ٹوئٹ کیا گیا تھا ! کنچن گپتا کے علاوہ ایک دوسرے ٹوئٹر پروفائل @Nalna0806 نے بھی اسی فیک نیوز کو عام کیا ۔ اس ٹوئٹر پروفائل کو ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی بھی فالو کرتے ہیں !
الٹ نیوز نے اپنی تفتیش میں بتایا کہ جس لڑکے کی دو تصویرں عام ہوئی ہیں وہ ظاہری طور پر تو ایک شخص معلوم ہوتا ہے لیکن تکنیکی لحاظ سے ان دو تصویروں کی یکسانیت ثابت نہیں ہوئی ہے اور دوسری بات یہ کہ تصویر میں موجود لڑکا عبد الجمال خان ہی ہے، اس کی بھی کوئی دلیل نہیں ہے۔ لہذا یہ تصویر فیک نیوز کا حصّہ ہے۔
رام نومی کے موقع پر بہار اور بنگال میں فرقہ وارانہ حادثات ہوئے تھے جن کی گرمی ابھی بھی فیس بک اور ٹوئٹر پر محسوس کی جا سکتی ہے۔ گزشتہ ہفتےبنگال کے تعلّق سے ایک تصویر سوشل میڈیا میں عام کی گئی جس میں کچھ خواتین کو برہنہ دکھایا گیا تھا جو زمین پر ایسے لیٹی ہوئی تھیں جیسے ان کو بھیت مارا گیا ہو؛ تصویر میں یہ دعوی کیا گیا تھا کہ بنگال میں ممتا بنرجی کے مسلم ایم ایل اے نے ہندو خواتین کا یہ حال کیا ہے اور وہاں مسلمان لیڈران ممتا کی شہ پر مسلسل ہندوؤں پر ظلم کر رہے ہیں۔ تصویر میں یہ درخواست بھی کی گئی تھی کہ سبھی ‘کٹرّ ہندو’ آنے والے انتخابات میں مودی جی کا ساتھ دیں، ورنہ بنگال میں جو حالات ابھی ہیں وہی پورے ہندوستان میں ہونگے !
الٹ نیوز نے اپنی تفتیش میں بتایا کہ ‘رام للا ہم آئنگے ‘ نامی فیس بک پیج پر جس تصویر کا سہارا لیا گیا تھا وہ پرانی تصویر ہے جس کا موجودہ دور سے کوئی تعلّق نہیں ہے۔ انگلینڈ کے معروف اخبار ڈیلی میل نے اس تصویر کو 2014میں اپنی ایک خبر میں شائع کیا تھا، خبر ریپ کے معاملے سے تعلّق رکھتی تھی۔ بقول الٹ نیوز، اس تصویر کو وقتاً فوقتاً فیک نیوز میں استعمال کیا جاتا رہا ہے اور نوبھارت ٹائمز نے 2016میں اس کے خلاف ایک مضمون شائع کیا تھا جس میں اس بات کی نشاندہی کی گئی تھی کہ یہ تصویر جھوٹی ہے۔
اسے عوام کی بد نصیبی ہی کہا جائے گی کہ ان کی حب الوطنی پاکستان ، اس کے عوام و لیڈران کا مذاق بنانے سے ہی طے ہوتی ہے اور یہ بے حد افسوس ناک ہے کہ ٹیکنالوجی کے اس دور میں عوام اس قدر بے شعور ہو گئی ہے!سوشل میڈیا میں ایک تصویر بہت عام ہوتی ہے جس میں ایک شخص ایئر پورٹ پر بالکل برہنہ ہے اور پولیس اسکو کہیں لے جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا میں کہا گیا کہ تصویر میں جو شخص موجود ہے وہ پاکستان کے پرائم منسٹر شاہد عباسی ہیں جن کو امریکا کی پولیس نے ایئر پورٹ پر روک لیا اور تلاشی کے دوران تمام کپڑے اتروا دئے ! بھگوا فکر کی تنظیموں نے اس کوسوشل میڈیا پر الگ الگ رنگ میں پیش کیا ! کسی نے کہا کہ پاکستان نے کل بھوشن کی اہلیہ کا منگل سوتر اتروایا تھا، اب امریکا نے پاکستان کے پرائم منسٹر کے کپڑے اتروا دئے ! ایک پیج پرعامر خان اور انکی فلم پی کے کو بھی نشانہ بنایا گیا اور لکھا گیا کہ عامر خان نے اپنی فلم میں پوچھا تھا کہ مذہب کی مہر انسان کے جسم میں کہاں لگی ہوتی ہے؟ یہی دیکھنے کے لئے امریکا میں پاکستانی پرائم منسٹر کو برہنہ ہونے پر مجبور کیا گیا ہے !
اس تصویر کی حقیقت یہ ہے کہ یہ 2015کی ایک ویڈیو سے لی گئی ہے۔ معاملہ یہ تھا کہ امریکی ایئر پورٹ پر ایک سفیر باربار ہونے والے سیکورٹی چیک سے بہت پریشان ہو گیا تھا ، جب اس سے برداشت نہیں ہوا تو وہ شخص بالکل برہنہ ہوکر ایئر پورٹ پر سیکورٹی مشینوں سے ہوکر گزرا تھا !اور یہ سفیر پاکستان کے پرائم منسٹر بالکل نہیں ہیں جیسا کہ اب دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ ویڈیو: