اقوام متحدہ کی ایک اعلیٰ اہلکار کے مطابق میانمار کی حکومت کے اصرار کے باوجود ہمسایہ ملک بنگلہ دیش میں پناہ لینے والے لاکھوں روہنگیا مہاجرین کی میانمار کی ریاست راکھین واپسی کے لیے حالات ابھی تک سازگار نہیں ہیں۔
میانمار کے سب سے بڑے شہر ینگون سے اتوار آٹھ اپریل کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق میانمار حکومت مسلسل اس امر پر اصرار کر رہی ہے کہ وہ بنگلہ دیش میں پناہ لینے والے لاکھوں مسلم اقلیتی روہنگیا مہاجرین کی واپسی کے لیے تیار ہے لیکن اقوام متحدہ کی ایک اعلیٰ اہلکار نے آج واضح طور پر کہہ دیا کہ ان مہاجرین کی راکھین واپسی کے لیے حالات ابھی تک بالکل سازگار نہیں ہیں۔
میانمار کی ریاست راکھین سے گزشتہ برس اگست میں وہاں جاری خونریز فوجی کریک ڈاؤن سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے قریب سات لاکھ روہنگیا مسلمان فرار ہو کر ہمسایہ ملک بنگلہ دیش میں پناہ گزین ہو گئے تھے، جن کی بہت بڑی اکثریت کوکس بازار نامی بنگلہ دیشی ضلع میں مقیم ہے۔تب ان مہاجرین نے الزام لگایا تھا کہ راکھین میں ملکی فوجی اور بدھ شدت پسند ان کے گھروں کو جلا رہے تھے اور مردوں کو قتل کرنے کے علاوہ بڑی تعداد میں روہنگیا خواتین کے ساتھ جنسی زیادتیاں بھی کی جا رہی تھیں۔
زیادہ تر بدھ اکثریتی آبادی والے میانمار کی فوج اپنے خلاف ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔ ان لاکھوں روہنگیا مسلمانوں کی میانمار واپسی کے لیے گزشتہ برس نومبر میں بنگلہ دیش اور میانمار کی حکومتوں کے مابین ایک باقاعدہ معاہدہ بھی طے پا گیا تھا مگر ابھی تک کوئی ایک بھی روہنگیا مہاجر بنگلہ دیش سے واپس میانمار نہیں لوٹ سکا۔اس پس منظر میں اقوام متحدہ کے انسانی بنیادوں پر امدادی کارروائیوں کے رابطہ دفتر کی نگران خاتون اہلکار اور عالمی ادارے کی نائب سیکرٹری جنرل اُرزُولا میولر نے اتوار آٹھ اپریل کو کہا کہ راکھین میں حالات ابھی تک اتنے سازگار نہیں کہ روہنگیا مہاجرین رضاکارانہ طور پر لیکن عزت کے ساتھ اور دیرپا بنیادوں پر واپس لوٹ سکیں۔
عالمی ادارے کی نائب سیکرٹری جنرل نے میانمار کے اپنے چھ روزہ دورے کے اختتام پر، جس دوران وہ راکھین بھی گئیں، اے ایف پی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’میانمار حکومت کو لازمی طور پر ان انتہائی اہم اور فیصلہ کن لیکن ابھی تک حل طلب امور کا کوئی حل نکالنا ہو گا کہ روہنگیا مہاجرین اپنی واپسی کے بعد آزادانہ طور پر نقل و حرکت کر سکیں اور انہیں ریاست کی طرف سے دی جانے والی معمول کی شہری سہولیات سمیت روزگار کی منڈی اور سماجی انضمام کے عمل تک بھی رسائی حاصل ہو۔‘‘
میانمار میں روہنگیا باشندوں کو برس ہا برس تک بنگلہ دیش سے آنے والے غیر قانونی مہاجرین قرار دے کر ایسے حالات میں رہنے پر مجبور کیا جاتا رہا کہ ان کی حالت نسلی امتیاز سے متاثرہ ایک بدحال اقلیت کی سی تھی اور وہ میانمار کے شہری بھی تسلیم نہیں کیے گئے تھے۔ اسی لیے یہ مسلم اقلیت ابھی تک ’بے وطن‘ سمجھتی جاتی ہے۔اے ایف پی کے مطابق اقوام متحدہ کی نائب سیکرٹری جنرل میولر نے اپنے دورہ میانمار کے دوران راکھین میں بہت سے ایسے روہنگیا مسلم باشندوں سے بھی ملاقاتیں کی، جو وہاں ’قابل مذمت حالات میں‘ مختلف کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔یہ روہنگیا باشندے قریب چھ برسوں سے راکھین میں ایسے تکلیف دہ حالات میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ گزشتہ برس اگست سے قبل چھ سال پہلے بھی میانمار کی اسی ریاست میں روہنگیا اقلیت کے خلاف نسلی اور مذہبی بنیادوں پر وسیع تر قتل و غارت دیکھنے میں آئی تھی۔
Categories: خبریں, عالمی خبریں