ہم ایک بار پھردلت شعور اور بیداری کے دور میں داخل ہو گئے ہیں۔دلتوں نے اب یہ سمجھ لیا ہے کہ بی جے پی انہیں الو بنا رہی ہے۔انہیں بی جے پی کی سازش کا احساس ہو گیا ہے۔انہیں یہ بات کھٹکنے لگی ہے کہ بی جے پی نے ایک طرف تو ایک دلت کو صدر جمہوریہ بنا دیا ہے، مگر دوسری طرف وہ یہ بھی سازشیں رچ رہی ہے کہ کس طرح آئین میں تبدیلی کی جائے۔
There is no Hindu consciousness of kind. In every Hindu the consciousness that exists is the consciousness of his caste
مذکورہ قول ڈاکٹر بی آرامبیڈکرکا ہے ،جو انہوں نےاپنی کتاب Annihilation of Caste میں لکھا ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے برسوں پہلے جو کہا تھا، آج ایک بار پھر سچ ثابت ہو گیا ہے۔ 10اپریل کو بڑی ذات کے لوگوں کے ذریعہ بلائے گئے بھارت بند کااصل مقصد اسی شعور کا مظاہرہ کرنا تھا۔یہ بھارت بند ریزرویشن کے خلاف تھا۔گرچہ 10اپریل کے بھارت بند کو میڈیا کوریج کے نام پر کچھ حاصل نہیں ہوا، مگرشمالی ہندوستان کے مختلف علاقوں سے توڑ پھوڑ، آگ زنی اور فائرنگ کی خبریں ضرور آئیں۔حالانکہ 10اپریل کا بھارت بند 2اپریل کے دلتوں والے بھارت بند کی طرح کامیاب نہیں رہا، مگر یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ اس احتجاج کے پیچھے کا جو پیغام تھا وہ عوام اور سرکار کو دے دیا گیا ہے۔
حالانکہ 10اپریل کا بھارت بند دلتوں کو تعلیم اور ملا زمت میں دیے جا رہے ریزرویشن کے خلاف تھا، مگر یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ اعلیٰ ذات کے لوگ اس احتجاج کے ذریعہ اپنے “caste consciousness” کا مظاہرہ بھی کرنا چاہتے تھے۔ دوسرے لفظوں میں، یہ احتجاج نہ صرف ریزرویشن کی پالیسی کے خلاف تھا بلکہ دلتوں کی بڑھتی ’’طاقت ‘‘ سے پیدا ہو نے والے ’’ غم اور غصہ ‘‘کا اظہار بھی تھا۔شاید دلتوں کی اسی بڑھتی ’’طاقت‘‘ نے بڑی ذات کے لوگوں کے شعورکوپھر سے زندہ کر دیا ہے۔ریزرویشن کے خلاف بلایا گیا یہ احتجاج در اصل اس بات کا ثبوت ہے کہ بڑی ذات کے لوگ دلتوں کی ترقی(برائے نام ہی سہی) سے کس حد تک بوکھلائے ہوئے ہیں۔ راجستھان میں دو دلت لیڈران(جن میں ایک بی جے پی کے ایم ایل اے ہیں اور دوسرے کانگریس کے سابق ایم ایل اے ہیں)کے گھروں کو جلائے جانے کا واقعہ اس ضمن میں موزوں ترین مثال ہے۔شروعاتی تفتیش سے اب یہ باتیں صاف ہو گئی ہیں کہ 2اپریل کے دلتوں کے پر امن مظاہرے کو پر تشدد بنانے میں بڑی ذات کے غنڈوں کا ہاتھ تھا۔
یہ بھی پڑھیں: دلتوں میں اندیشے بھی تو آپ نے ہی پیدا کئےہیں،حضور…
یہ بات قابل غور ہے کہ کس طرح دلتوں کی حفاظت کے لئے بنائے گئے قانون میں چھیڑ چھاڑ کے خلاف ہو رہی بحث ریزرویشن کے خلاف مہم میں تبدیل ہو گئی ہے۔یہ بات نہ صرف پریشا ن کن ہے بلکہ ہم سب کے لیے فکر کا باعث بھی۔یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ 2 اپریل کا بھارت بند (سپریم کورٹ کے ذریعہ ایس سی ایس ٹی ایکٹ میں کی گئی مداخلت کے خلاف) اچانک سے ہو جانے والا واقعہ نہیں تھا، یہ مظاہرہ در اصل برسوں اور مہینوں سے پنپ رہے غصے کا بلاسٹ تھا۔مگر آپ نوٹ کر لیجئے بڑی ذات کے لوگوں کا ریزرویشن کی مخالفت کرنا بھی اچانک نہیں تھا۔یہ بھی اس سوچ کا مظاہرہ تھا، جو جنرل طبقے کے لوگ ریزرویشن کی پالیسی کے لئے برسوں سے پا لے ہوئے ہیں۔
ویڈیو : ایس سی ایس ٹی قانون میں تبدیلی
جب بھی ہم نے کسی بڑی ذات کے ممبر کو ریزرویشن کے خلاف بولتے دیکھا ہے، ہم نے یہ ضرور دیکھا ہے کہ وہ خود کو غریبوں کا مسیحا سمجھنے کی غلط فہمی پالے ہوا ہے۔ہم ایسے لوگوں کو یہ بولتے ہو سنتے ہیں کہ ریزرویشن ضرور دیا جانا چاہئے، مگر ذات کی بنیاد پر نہیں مالی حالت کی بنیاد پر۔ریزرویشن انہیں دیا جائے جو ضرورت مند ہیں۔ بظاہر یہ خیال اچھا ہے، مگر آپ سب جانتے ہیں یہ ایک ’’فریب‘‘ ہے۔یہ بھلے مانس اور کوئی نہیں بلکہ لاہور کے ’’ذات پات توڑک منڈل‘‘ کے ترجمان ہیں، جس نے 1936میں امبیڈکر کو اپنے سالانہ اجلاس میں لیکچر دینے کے لئے مدعو کیا تھا، مگر بعد میں اس لیے مکر گئے کہ امبیڈکر کی تقریر میں ہندو مذہب کے لئے قابل اعتراض باتیں لکھی تھیں۔(واضح ہوکہ امبیڈکر کے خطبہ کا ایک نسخہ منڈل کو پہلے ہی بھیج دیا گیا تھا)۔ یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ جب ایسے بھلے لوگ ریزرویشن کے خلاف بولتے ہیں، تو یہ لوگ یہ بولنا ہر گز نہیں بھولتے کہ وہ ایک casteless سوسائٹی اور castelessہندوستان چاہتے ہیں۔ان کی ان باتوں پر مجھے ہنسی آ تی ہے۔ مجھے امید ہے آپ بھی اپنی ہنسی نہیں روک پاتے ہوںگے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی لوگ 10اپریل کو بھارت بند بلانے والوں کے بھی ترجمان ہیں۔لہذاہندو راشٹراب دن کا خواب معلوم پڑتا ہے۔ایسا معلوم پڑتا ہے آنے والی کئی صدیوں تک ہندوستان ذات پات والی ہی سوسائٹی ہی رہے گی۔مان لیجئے کہ 2014 کے عام انتخاب میں “caste consciousness” کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔یہ بھی کوشش کی گئی کہ “Hindu Consciousness” پیدا ہو۔ بہت حد تک یہ کوشش رنگ بھی لائی۔ بی جے پی اپنی مہم میں کامیاب ہوئی۔اسے دلت ووٹوں کو یکجا کرنے میں بلا شبہ سبقت حاصل ہوئی اور دہلی کا تخت میسر ہوا۔
مگر یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ گزشتہ 4سالوں میں دلتوں کے ساتھ جو ناانصافیاں اور تشدد ہوئے ہیں اس سے وہ بے تحاشہ غصے میں ہیں۔انہیں اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ بی جے پی نے ان کے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔انہیں یہ سمجھ آ گیا ہے کہ ہندو بیداری محض ایک چھلاوہ ہے۔لہذا ان کادلت شعورجو گزشتہ چند سالوں سے کمزور پڑنے لگا تھا، ایک بار پھر عروج پر ہے۔ دی ویک کے تازہ شمارہ میں چھپی ایک رپورٹ کے مطابق صرف سال 2016 میں دلتوں پر کئے گئے ظلم سے متعلق درج کئے گئے کیسوں کی تعداد40801 تھی۔ ’’انسانی حقوق کمیشن کی 2010 کی رپورٹ کے مطابق ہر 18ویں منٹ پر دلت کے ساتھ ظلم ہوتا ہے۔ہر روز تین دلت خواتین کا ریپ ہوتا ہے۔دو دلتوں کا قتل ہوتا ہے۔دو دلتوں کے گھر جلائے جاتے ہیں۔(انڈیا ٹوڈے ) ۔ روہت ویمولا وا لا واقعہ اور اونا (گجرات) میں دلتوں کی پٹائی نے دلتوں کو گہرا ٹھیس پہنچا یا ہے۔ویمولا والا حادثہ، ان میں سب سے زیادہ تکلیف دہ تھا، کیونکہ حیرت انگیز طور پر بی جے پی حکومت نے روہت کی دلت پہچان پر ہی سوال اٹھا دیا تھا، بجائے اس کہ وہ تفتیش کے لئے حکم صادر کرتی۔گئوکشی سے متعلق ہونے والے حادثے نے مویشی معیشت کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔یہ بات سب جانتے ہیں کہ دلتوں کا ایک بڑا طبقہ اس معیشت سے جڑا ہے۔
لہذا ہم ایک بار پھردلت شعور اور بیداری کے دور میں داخل ہو گئے ہیں۔دلتوں نے اب یہ سمجھ لیا ہے کہ بی جے پی انہیں الو بنا رہی ہے۔انہیں بی جے پی کی سازش کا احساس ہو گیا ہے۔انہیں یہ بات کھٹکنے لگی ہے کہ بی جے پی نے ایک طرف تو ایک دلت کو صدر جمہوریہ بنا دیا ہے، مگر دوسری طرف وہ یہ بھی سازشیں رچ رہی ہے کہ کس طرح آئین میں تبدیلی کی جائے۔آئین میں تبدیلی کے حوالے سے اور کوئی نہیں بلکہ ایک مرکزی وزیر آنتھ کمار ہیگڑے کے بیان نے دلتوں کو سکتے میں ڈال دیا ہے۔دلتوں کا ڈر تب اور گہرا ہو گیا جب بی جے پی کی ہی ایک خاتون ایم پی ساوتری بائی پھولے نے (لکھنؤ کی ایک ریلی میں) بی جے پی کی آئین میں تبدیلی کے ارادے پر اپنے خدشات کا اظہار کیا۔
ایسا معلوم پڑتا ہےدلت شعور اور بیداری بتدریج عروج پر ہے، کیونکہ غیر بی جے پی لیڈران کے علاوہ خود بی جے پی کے دلت ممبران پارلیامنٹ نے آواز بلند کردیاہے۔ اور وہ بھی جبکہ وزیر اعظم مودی اور بی جے پی صدر امت شاہ کی طرف سے بار بار یہ یقین دہانی کرا ئی گئی ہے کہ ریزرویشن کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی جائے گی۔بی جے پی میں عدم اعتماد خدشہ پیدا ہو گیا ہے، جس کے ختم ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا ۔ امت شاہ نے ریلیوں میں’جے بھیم‘ کے نعرے تک لگائے ہیں، مگر سب بے معنی ثابت ہو رہے ہیں۔جاتے جاتے ہم اپنے آپ سے ایک سوال کریں؟ آپ کو کیا لگتا ہے، ریزرویشن کے ختم ہو جانے سے ذات پرستی یا “caste consciousness” کا خاتمہ ہو جائے گا؟ میرا جواب نہیں میں ہے۔ آپ کا؟
Categories: فکر و نظر