فیک نیوز:ٹی وی چینلوں کے بریکنگ نیوز کا سلسلہ بدستور جاری ہے اور یہ سلسلہ جب حقیقت کے برعکس ہوتا ہے تو میڈیا کی ذمہ داری پر سوال کھڑے کرتا ہے۔ ٹائمز ناؤ نے اس بار بھی اپنی بریکنگ نیوز میں جھوٹے دعوے کیےہیں۔
10 اپریل کو دی نیوانڈین ایکسپریس نے اپنے بنگلور ایڈیشن کے صفحہ 7پر ایک خبر شائع کی تھی جو جھوٹ پر مبنی تھی۔ خبر کے مطابق گجرات کے ایم ایل اے جگنیش میوانی کو کرناٹک پولیس نے گرفتار کر لیا تھا۔ گرفتاری کا سبب تقریباً 160لیپ ٹاپ کی برآمدگی تھی جن پر مبینہ طور پر جگنیش کی تصویریں موجود تھیں۔ ان لیپ ٹاپ کی برآمدگی اس وقت کی گئی جب صوبے میں الیکشن ماڈل کنڈکٹ کوڈ نافذ ہو چکا تھا۔
جب یہ خبر سوشل میڈیا پرعام ہوئی تو جگنیش مخالف قارئین نے اس کا سہارا لے کر جگنیش کے ساتھ ساتھ کانگریس کو بھی نشانہ بنایا اور سوشل میڈیا پر ہنگامہ برپا کیا۔ اپنی تفتیش کے دوران آ لٹ نیوز نے کرناٹک حکومت کے انفارمیشن آفیسر سے رابطہ قائم کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ لیپ ٹاپ ضلع شوموگا کی طرف لے جائے جا رہے تھے اور ان لیپ ٹاپ پر جگنیش کی تصویریں نہیں تھیں بلکہ صوبے کے وزیر اعلیٰ کی تصویریں تھیں۔ اس خبر کے متعلق سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ خبر 1 اپریل کو دی ہندو نے شائع کی تھی جس کو ردو بدل کے بعد دی نیو انڈین ایکسپریس میں شائع کیا گیا جو جھوٹ پر مبنی تھا!
کرناٹک اسمبلی انتخابات کے قریب آتے ہی ایسے مضامین، تصویریں اور خبریں عام ہونے لگی ہیں جن کی اساس جھوٹ پرہی ہے۔ دی ٹرو پکچر نامی پورٹل نے پچھلے دنوں ایک مضمون شائع کیا تھا جو جانبدارا نہ طور پر یہ ثابت کر رہا تھا کہ کرناٹک میں موجودہ حکومت کے دور میں دلتوں پر ظلم اور زیادتی بڑھ گئی ہیں اور نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے پاس جو شماریاتی حقائق ہیں وہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ کرناٹک میں دلتوں پر ظلم اطراف میں موجود صوبوں کے مقابلے بہت بڑھ گئے ہیں۔ مضمون میں کرناٹک اور اطراف کے صوبوں کی شماری تصویر پیش کی گئی ہے جسے دیکھ کر کئی سوال اٹھتے ہیں۔ جب کرناٹک کے اطراف کی بات کی جا رہی تھی تو گجرات کو کیوں شامل کیا گیااور آندھر پردیش کو اس فہرست سے کیوں باہر کیا گیا ؟
سوال یہ بھی بنتا ہے کہ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو تو ملک کے تمام صوبوں کی شماری تصویر جاری کرتا ہے لیکن دی ٹرو پکچر کے اس مضمون میں صرف 6 صوبوں کو جانبدارانہ طریقے سے کیوں شامل کیا گیا؟ تیسری بات، مضمون میں کل جرائم کی بات کی گئی جب کہ بہتر یہ ہوتا ہے صوبے کی آبادی کے حساب سے جرائم کی شرح کو دلیل کے طور پر پیش کیا جانا چاہیے تھا کیوں کہ ہر صوبے میں کسی بھی طبقے کی آبادی مختلف ہوتی ہے اور اس کی بنا پر اس طبقے کے خلاف ہونے والے جرائم کے معاملات مختلف ہو جاتے ہیں۔ الٹ نیوز نے جب جرائم کی شرح کی تقابلی تفتیش کی تو پایا کہ ملک بھر میں دلتوں کے خلاف ہونے والے جرائم میں کرناٹک کے حالات گجرات، تلنگانہ اور کیرل سے بھی بہتر ہیں اور دی ٹرو پکچر نے جس بات کا دعویٰ کیا تھا وہ حقیقت کے برعکس تھی اور متعصب تحقیق کا نتیجہ تھی۔
ٹی وی چینلوں کے بریکنگ نیوز کی اشاعت کا سلسلہ بدستور جاری ہے اور یہ سلسلہ جب حقیقت کے برعکس ہوتا ہے تو میڈیا کی ذمّہ داری پر سوال کھڑے کرتا ہے۔ ٹائمز ناؤ نے اس بار بھی اپنی بریکنگ نیوز میں جھوٹے دعوے کیے ، ویڈیو دیکھئے :
ٹائمز ناؤ نے کہا کہ یہ خبر سب سے پہلے ان کے چینل پر دکھائی جا رہی ہے کہ پنجاب نیشنل بینک میں غبن کرنے والے ملزم نیرو مودی کو ہانگ کانگ میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ جب یہ ویڈیو سوشل میڈیا پرعام ہوا تو کافی تعداد میں لوگ اس فیک نیوز کا حصّہ بن گئے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کی کوئی خبر نہ تو میڈیا کے دوسرے چینلوں نے دکھائی تھی اور نہ ہی حکومت ہند کی طرف سے اس طرح کی کوئی بات منظر عام پر آئی تھی۔ حالانکہ یہ بات سچ ہے کہ چین نے حکومت ہند سے نیرو مودی کو گرفتار کرنے میں مدد کا اعلان کیا تھا۔
گزشتہ ہفتے وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے ایک خطاب میں بولتے ہوئے کہا کہ بہار ملک کا وہ صوبہ تھا جہاں صفائی کی شرح پچاس فیصد سے بھی کم تھی لیکن ایک ہفتے میں تقریباً 8.5 لاکھ سے بھی زیادہ ٹوائلیٹ بنوا کر یہ ثابت کر دیا گیا ہے کہ بہار کسی سے کم نہیں۔ نریندر مودی کے اس دعوے کو سچ مان لیا جائے تو ایک ہفتے میں تقریباً 8.5 لاکھ سے بھی زیادہ ٹوائلیٹ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایک سیکنڈ میں تقریبا 1.4 ٹوائلیٹ کی تعمیر ہوئی ہے۔
نریندر مودی کا یہ دعویٰ جھوٹا تھا کیونکہ جس تعداد کا ذکر کیا گیا ہے وہ تین سال کی تعداد ہے، ایک ہفتے کی نہیں ! دوسری بات قابل غور یہ ہے کہ مودی جب پچاس فیصد سے کم صفائی کی بات کرتے ہیں تو وہ یہ نہیں بتاتے ہیں کہ یہ کس دورانیہ کی بات ہے۔ سوچھ بھارت ابھیان کی ویب سائٹ ہم کو بتاتی ہے کہ اپریل 2018میں بھی بہار صفائی کے معاملے میں بہت پیچھے ہے !