اب فلموں میں ایک نئی چیز نظر آ رہی ہے۔ یہ ہے مشتعل وطن پرستی کا تیور ، جو نہ صرف سوشل میڈیا اور سماج کے ایک خاص طبقے میں دکھائی دینے والے نیشنلزم سے میل کھاتا ہے، بلکہ موجودہ حکومت کے ایجنڈے کے ساتھ بھی اچھے سے قدم ملاکر چلتا ہے۔
بالی ووڈ نے ہمیشہ نئے خیالات کے لئے اخباروں کی سرخیوں کی طرف دیکھا ہے۔ خبر میں رہنے والی کوئی بھی چیز اس کے لئے صحیح ہے اور اگر اس میں تجسس پیدا کرنے کی صلاحیت ہے، تو وہ فلموں تک کا راستہ طے کر لیتی ہے۔ اپنے وقت کےحوالوں کا استعمال کرنا ناظرین سے جڑنے کا ایک آسان راستہ ہے۔فلموں کی تاریخ کو دیکھیں تو پائیںگے کہ فلموں نے اپنے وقت کے خبری ماحول سے ہمیشہ سے تحریک حاصل کی ہے۔ 1950 اور 1960 کی دہائی میں اس کو نیشن بلڈنگ کے پروجیکٹ نے متاثر کیا اور ڈیم وغیرہ کی تعمیر کی کئی کہانیاں دیکھی گئیں۔ ساتھ ہی سیمنٹ کی جمع خوری کرنے والوں کی بھی کہانیاں دکھائی دیں۔
1970 کی دہائی میں ملک کے غصے کو امیتابھ بچن نے پردے پر ظاہر کیا۔ 1980 کی دہائی میں بدعنوان رہنماؤں کے خلاف غصہ پردے پر دکھائی دیا۔ آزادی کے بعدکے دور میں فلم سازوں نے یہ محسوس کیا کہ ان کو غیر رہائشی ہندوستانیوں اور صارفیت کی طرف جھک رہے متوسط طبقے کو اپیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈیزائنر کپڑے، ڈیزائنر چھٹیاں اور ڈیزائنر جذبات کے پیچھے یہی سمجھ تھی۔ اب فلموں میں ایک نیا عنصر دکھائی دے رہا ہے۔ یہ ہے مشتعل وطن پرستی کا تیور، جو نہ صرف سوشل میڈیا اور سماج کے ایک خاص طبقے میں دکھائی دینے والے طیش بھرےنیشنلزم سے میل کھاتا ہے، بلکہ موجودہ حکومت کے ایجنڈے کے ساتھ بھی اچھے سے قدم تال ملاکر چلتا ہے۔
اس بات کی کئی مثالیں ہیں لیکن اس کی سب سے فحش مثال باغی-2 کا وہ منظر ہے، جس میں ہمارا بہادر ہیرو ایک کشمیری کو جیپ کے بونٹ پر باندھتا ہے اور اس کا استعمال ہیومین شیلڈ کے طور پر کرتا ہے۔ وہ ایسا اس لئے کرتا ہے، کیونکہ وہ ہندوستانی ترنگے کی مبینہ توہین سے غصہ میں ہے۔
ظاہری طور پر اس کا تعلق ہندوستانی فوج کے ایک میجر کے ذریعے فاروق احمد ڈار نام کے ایک کشمیری کو فوج کی جیپ سے باندھنے کے واقعہ سے ہے۔ اس واقعہ کی چاروں طرف تنقید کی گئی، لیکن جب ایک بار فوج نے اس کارنامے کو انجام دینے والے میجر گگوئی کی پیٹھ تھپتھپا دی، اس کو ایک طرح سے سرکاری حمایت ہی نہیں ملی، بلکہ اس کو تعریف کے لائق تک مان لیا گیا۔اس منظر کو فلم میں ڈالتے وقت باغی-2 کے رائٹرس کے لئے اتناہی کافی رہا ہوگا کہ یہ سینما جانے والی پبلک، فوج اور شاید اقتدار میں اونچے عہدوں پر بیٹھے لوگوں کو اچھا لگےگا۔ اس سے باکس آفس پر کمائی کا امکان بڑھےگا اور سب سے زیادہ ان کو یہ راشٹریہ فرض کی طرح لگا ہوگا۔
بالی ووڈ مارکہ یہ نیا نیشنلزم کئی صورتوں میں سامنے آتا ہے۔ ایک سرے پر بحران کے سامنے بہادری کا مظاہرہ کرنے والی جیت کی کہانیاں ہیں،چاہے یہ کھیلکے میدان پر ہو، جیسے، سلطان یا میدان جنگ میں ہو، جیسے آنے والی فلم پرمانو، جو 1998 میں اٹل بہاری باجپئی حکومت کے ذریعے کئے گئے ایٹمی ٹیسٹ کے بارے میں ہے۔پھر تاریخی فلمیں بھی ہیں۔ یہ ایک ایسی روش ہے، جس کو اس سے پہلے تک ہمیشہ محض ایک کاسٹیوم ڈرامہ مانا جاتا تھا اور اس طرح سے یہ بی گریڈ کے زمرہ میں شمار کی جاتی تھی۔ اب ستاروں میں غیر ملکی حکمرانوں سے بہادری کے ساتھ لوہا لینے والے ماضی کے عظیم ہندوستانی ہیروکا کردار نبھانے کے لئے ہوڑ مچی ہوئی ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ پدماوت کو بھلےہی راجپوت مردوں کی بہادری کو دکھانے والی فلم کے طور پر دکھانے کی جتنی بھی کوشش کی گئی ہو، آخرکار یہ راجپوت عورتوں کی اعلیٰ ترین قربانی کے بارے میں ہی تھی، جنہوں نے ایک غیر تہذیب یا فتہ مسلم حکمراں کے سامنے خود سپردگی کرنے کی جگہ آگ میں کودکر اپنی جان دینا زیادہ بہتر سمجھا۔ یہ فطری ہی ہے کہ اس مسلم حکمراں کو ایک بیمار ذہنیت والے شخص کے طور پر دکھایا گیا۔جلدہی، بالی ووڈ میں بھائی بھتیجہ واد کے خلاف جرأت کے ساتھ کھڑی ہونے والی کنگنا رناوت جھانسی کی رانی لکشمی بائی کے طور پر دکھائی دیںگی اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوجوں کے خلاف جنگ لڑتی ہوئی دکھائی دیںگی۔ رانی کا آشیروادپانے کے لئے رناوت وارانسی کے منی کرنکا گھاٹ پر گئیں اور وہاں سے ان کی جو تصویریں آئیں، ان میں وہ ندی میں پوجا کرتی ہوئی دکھیں۔
اس کے بعد ان کی وزیر اعظم سے ملاقات کرتے ہوئے ایک تصویر سامنے آئی۔ ہم کافی تجسس کے ساتھ اس فلم کا انتظار کر رہے ہیں، لیکن یہ اندازہ بنا کوئی جوکھم لئے لگایا جا سکتا ہے کہ اس فلم میں ہندوستان کے پرچم کو کافی بڑھ چڑھکے لہرایا جائےگا۔حال کی فلموں میں یہ پرچم ہر طرح کے حالات میں دکھایا گیا ہے۔ یہاں تک کہ اس نے کمانڈر رستم (اکشے کمار) کو اپنی بیوی کے عاشق کو مار دینے کا جواز فراہم کرنے کا بھی کام کیا، کیونکہ وہ اصل میں ایک جاسوس تھا۔ اکشے کمار اچھا کام کرنے والے لوگوں کے کرداروں کو نبھانے میں کافی آگے ہیں۔ وہ جب کویت میں پھنسے ہوئے ہندوستانیوں کا بچاؤ نہیں کر رہے ہوتے (ایئرلفٹ) تب وہ ٹوائلٹ (ٹوائلٹ ایک پریم کتھا) اور عورتوں کے لئے گھر میں بنے سستے سینٹری پیڈوں (پیڈمین) کی تشہیر کرتے ہیں۔
وہ جلدہی گولڈ میں دکھائی دیںگے۔ یہ فلم 1948 میں، یعنی آزادی کے بعد ہوئے پہلے اولمپک میں ہندوستان کے ذریعے انوکھے طریقے سے گولڈ میڈل جیتنے کی کہانی پر مبنی ہے۔اسی طرح کے ایک مثالی شہری اجئے دیوگن ہیں، جو ایک انکم ٹیکس آفیسر کے طور پر اتنے ایماندار ہیں کہ کسی سے گھوس لینے کی بات تو چھوڑئے، کسی کی شراب بھی نہیں پیتے، کسی کا کھانا تک نہیں کھاتے۔ فطری ہے کہ اس سے ولن آگ ببولا ہو جاتا ہے اور وہ دیوگن کو مارنے کے لئے اپنے گرگے بھیج دیتا ہے۔وزیر اعظم کے ذریعے بھیجی گئی ایک اسپیشل پولیس ٹیم دیوگن کو بچاتی ہے۔ اس میں کوئی تعجب نہیں کہ کمار اور دیوگن، دونوں نے ہی وزیر اعظم مودی سے ملاقات کی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ملک کی خدمت سے متعلق ان کی سپردگی کو دیکھتے ہوئے وزیر اعظم ضرور ان دونوں سے خاصے متاثر ہوںگے۔
کچھ فلمیں ایسی بھی ہیں، جو موجودہ واقعات پر کچھ الگ طرح کی رائے رکھتی ہیں۔ مثلاً، نیوٹن کا نام لیا جا سکتا ہے۔ یہ ماؤوادیوں کے علاقے میں گئے ایک الیکشن آفیسر کے بارے میں ہے۔ لیکن ایسی فلمیں چھوٹی فلمیں ہیں، جن میں بڑے نام والے ستارے کام نہیں کرتے ہیں۔ کسی فلم میں بڑے ستاروں کی حاضری سے نہ صرف اس کا تجارتی امکان اور بکاؤپن میں چار چاند لگ جاتے ہیں، بلکہ اس سے دیا جا رہا پیغام بھی طاقت ور ہو جاتا ہے۔ بہت کم ستارے ایسے ہیں، جو ملک کے مدعوں پر سرکاری لائن سے الگ یا مخالف خیال رکھنے والی فلم میں دکھنا چاہیںگے۔ جس بھی موضوع میں ذرہ بھر بھی سیاست کی جھلک دکھےگی، بڑے ستارے اس سے کوسوں دور رہتے ہیں کیونکہ اس کے خطرے بہت بڑے ہیں۔ اس لئے وہ ان کو بھول جانا ہی بہتر سمجھتے ہیں۔
مین اسٹریم کے بڑے بجٹ کی ہندی فلموں میں ایک نئے طرح کے مثالی ہندوستانی کی تعمیر ہو رہی ہے۔وہ ایماندار ہے، وطن پرست ہے۔ دکھاوٹی اخلاقیات کی حد تک انصاف کے حق میں کھڑا ہے، سماجی مسائل سے (خاص کر ایسے مسائل سے جو سرکاری اسکیموں سے میل کھاتے ہیں۔) سروکار رکھتا ہے۔
وہ، جو اکثر مرد ہے اور وقتاًفوقتاً عورت بھی، میڈل جیتکر لاتا ہے، دشمنوں کو تباہ کرتا ہے اور تمام باہری لوگوں سے جنگ لڑتا ہے ،چاہے وہ مسلم ہوں یا گوری چمڑے والے غیر ملکی حکمراں ہوں۔اس طرح کی فلمیں ماضی میں بھی بنا کرتی تھیں، مگر وہ یا تو کافی گہری ہوا کرتی تھیں۔ مثال کے لئے چک دے انڈیا جیسی شاندار فلم کا نام لیا جا سکتا ہے یا گھنگھور مسالہ فلمیں ہوا کرتی تھیں، جن کو سنجیدگی سے نہیں لیا جا سکتا تھا، جیسے مرد، جس میں امیتابھ بچن انگریزوں سے لڑائی لڑتے ہیں۔ لیکن آج غصہ یا المیہ کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ساری فلمیں کاروباری طورپر کامیاب نہیں ہوتیں جبکہ پروڈیوسر کا اہم ہدف ڈھیر سارا پیسہ کمانا ہوتا ہے۔ لیکن یہ سوچنا، پریشان کرنے والا ہو سکتا ہے کہ ایسی فلمیں اصل میں فلم بنانے والوں کی سوچ کو ظاہر کرتی ہیں۔
باغی-2 میں مرکزی کردار کی حب الوطنی کو ایک کشمیری کو ہیومین شیلڈ کے طور پر استعمال کرنے والے منظر کے بغیر بھی دکھایا جا سکتا تھا۔ پھر بھی اس فلم میں اس منظر کا ہونا یہ دکھاتا ہے کہ ڈائریکٹر کو اس میں کچھ بھی غلط نہیں دکھا۔ اس سے بھی زیادہ تشویشناک یہ حقیقت ہے کہ اس فلم نے باکس آفس پر اچھی کمائی کی ہے، جو یہ دکھاتا ہے کہ ناظرین کو بھی اس میں کچھ غلط نہیں دکھتا۔
Categories: فکر و نظر