اتوار کی صبح دہلی کے کالندی کنج علاقے کے پاس روہنگیا پناہ گزینوں کی بستی میں آگ لگ گئی تھی، جس سے یہاں سات سال سے رہ رہے تقریباً 250 روہنگیا پناہ گزیں بےگھر ہو گئے۔
دہلی کے کالندی کنج علاقے سے تقریباً ایک کلومیٹر کی دوری پر مدن پور کھادر سے متصل کنچن کنج میں تقریباً سات سال سے رہ رہے روہنگیا مسلمانوں کی بستی میں اچانک اتوار صبح آگ لگ گئی۔ اس آگ میں اس بستی کی تقریباً 55 جھگیوں میں سے 44 آگ میں جھلس گئیں، جس سے 25 خاندانوں کے تقریباً 250 روہنگیا پناہ گزیں بے گھر ہو گئے۔اس بستی میں تقریباً 7 سال سے رہ رہے محمد ہارون پوری بستی کے مکھیا جیسے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں؛
’ رات کے وقت سبھی سوئے ہوئے تھے کہ تبھی کوئی شخص پیشاب کے لئے نکلا تو دیکھا کہ باتھ روم میں رکھے کپڑوں میں آگ لگی ہے۔ اس نے فوراً ہی شور مچا دیا جس سے سبھی لوگ جاگ گئے لیکن اتنےمیں ہی آگ پاس میں بنی مسجد اور مدرسے تک آ پہنچی، جس نے پلاسٹک سے بنی تمام جھگیوں کو اپنی چپیٹ میں لے لیا۔‘
اس بستی کے زیادہ تر باشندے یا تو یومیہ مزدوری کرتے ہیں یا چھوٹی موٹی دکان چلاتے ہیں۔ ہارون کی بھی ایک پرچون کی دکان تھی، جس میں انہوں نے پچھلے ہی مہینے ڈیڑھ لاکھ روپے لگائے تھے۔ اس آگ سے دکان میں جلے سامانوں میں ایک نیا فریج بھی شامل ہے۔ہارون کی دوسری دکان گیس سلینڈر بھرنے کی تھی۔ بستی میں موجود لوگوں نے بتایا کہ آگ لگنے سے 2 گیس سلینڈر بھی پھٹ گئے جس نے اور زیادہ نقصان پہنچایا۔
اس بستی کے سب سے نزدیک جامعہ نگر کے علاقے سے لوگ مدد کے لئے آگے آئے ہیں۔ جامعہ نگر کے باشندہ اور سماجی خادم محمد عارف بتاتے ہیں؛
’یہ لوگ تقریباً 7-8 سال سے یہاں رہ رہے تھے۔ یہاں پہلے 47 بستیاں تھیں جو بڑھکر 55 تک آ پہنچی ہیں کیونکہ کچھ لوگ اپنی نئی فیملی میں تبدیل ہو گئے۔‘عارف آگے بتاتے ہیں کہ جامعہ نگر کے پاس میں دو ہی روہنگیا بستیاں ہیں ایک کنچن کنج اور دوسری شرم وہار۔ شرم وہار میں بھی تقریباً 60 فیملی رہتی ہیں جس میں 30 ایک جگہ اور باقی دوسری جگہ رہتی ہیں۔ اگر شرم وہار اور کنچن کنج سے دونوں کا مقابلہ کیا جائے تو کنچن کنج کی بستی زیادہ اچھے سے بنی ہوئی تھی۔
محمد عارف ‘ کنچن کنج روہنگیا ‘ کے نام سے ایک وہاٹس ایپ گروپ چلا رہے ہیں، جس میں ان تمام عام ضروریات کے لئے لوگوں کی مدد لی جا رہی ہے جو حکومت نہیں کر سکتی جیسےمچھردانی، اوڈوماس وغیرہ۔متاثرین کے پاس سوائے اپنی فیملی کے اور کچھ نہیں بچا ہے۔ آس پاس کے علاقے سے فوری طور پر مدد پہنچائی جا رہی ہے۔ دہلی حکومت نے مدد کے طور پر اب تک صرف پانی کے دو ٹینکر دستیاب کرائے ہیں۔عآپ حکومت کے اقلیتی وزیر فیروز احمد نے بتایا؛’حکومت ان لوگوں کے لئے بنیادی سہولیات جیسے کھاناپانی اور ٹینٹ کا انتظام کر رہی ہے اور سوموار تک ایک میڈیکل کیمپ بھی لگا دیا جائےگا۔ ‘
کنچن کنج بستی تقریباً سات سال سے بسی ہوئی تھی جس میں مسجد سے لےکر مدرسہ بھی تھا۔ اس میں تقریباً 150 طالب علم پڑھائی کر رہے تھے۔متاثرین بتاتے ہیں کہ آگ اتنی خوفناک تھی کہ کسی طرح صرف فیملی کو ہی بچایا جا سکا۔ کسی کی جمع بچت پیچھے چھوٹی، تو کسی کی بیٹی کی شادی کے لئے اکٹھے کئے جا رہے کپڑے راکھ ہو گئے۔جمع پونجی اور گھرگرہستی جانے کے علاوہ اس وقت اس کمیونٹی کے لئے اس سے بھی ایک بڑی پریشانی سامنے کھڑی ہے۔ یہ ہے یونائٹیڈ نیشنس ہائی کمیشن فار ریفیوجی (یو این ایچ سی آر) سے اپنا کارڈ دوبارہ ایشو کروانا۔ معلوم ہو کہ یہ کارڈ پناہ گزینوں کو کسی بھی ملک میں رہنے کے لئے جواز فراہم کرتا ہے۔ یہی ایک شناختی کارڈ ہے جس کے سبب وہ کسی ملک میں رہ سکتے ہیں۔
حالانکہ ملک میں روہنگیاؤں کے لئے کام کرنے والی زکوٰۃ فاؤنڈیشن کے ایک افسر محمد صادق کا کہنا ہے کہ یو این ایچ سی کی دہلی مقامی آفس اس کا رکارڈ رکھتی ہے جہاں سے اس کو دوبارہ جاری کروایا جا سکتا ہے۔
آگ لگنے کے بعد بستی کی کچھ تصویریں؛
(معظم علی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پڑھتے ہیں۔)
Categories: خبریں