خبریں

موتیہاری چینی مل : خودسوزی کے ایک سال بعد بھی جل رہی ہیں آنکھیں…؟

گراؤنڈ رپورٹ:  گزشتہ سال 10 اپریل کو بہار کے مشرقی چمپارن ہیڈ کوارٹر موتیہاری میں بند پڑی چینی مل‌کے دو مزدوروں نے تنخواہ اور کسانوں کی بقایا ادائیگی کے مدعے پر خودسوزی کر لی تھی۔

شری ہنومان چینی مل کے سامنے واقع مندر کے چبوترہ پر مون ستیہ گرہ پر بیٹھے مل مزدور، سورج بیٹھا اور نریش شریواستو کی بیویاں/فوٹو : امیش کمار رائے

شری ہنومان چینی مل کے سامنے واقع مندر کے چبوترہ پر مون ستیہ گرہ پر بیٹھے مل مزدور، سورج بیٹھا اور نریش شریواستو کی بیویاں/فوٹو : امیش کمار رائے

10 اپریل کو جس وقت ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی مشرقی چمپارن کے ضلع موتیہاری واقع گاندھی میدان سے بہار کی عظیم الشان  تاریخ کے بارے میں بتا رہے تھے، ٹھیک اسی وقت پروگرام کی جگہ  سے تھوڑی ہی دوری پر شری ہنومان چینی مل‌کے کچھ مزدور اور دو بیوائیں مون ستیہ گرہ پر تھے۔نریندر مودی نے جو کچھ کہا اس کو دنیا نے سنا، لیکن ستیہ گرہ کرنے والے لوگوں کی آواز مقامی انتظامیہ تک بھی نہیں پہنچ سکی۔مون ستیہ گرہ کرنے والوں میں شامل دو بیوائیں 50 سالہ سورج بیٹھا کی بیوی مایا دیوی اور 48 سالہ نریش شریواستو کی بیوی پورنیما دیوی تھیں۔ سورج بیٹھا اور نریش شریواستو سال 2002 سے بند پڑی شری ہنومان چینی مل‌کے مزدوروں کے یونین میں اعلی عہدوں پر تھے۔ سورج بیٹھا جوائنٹ سکریٹری اور نریش شریواستو جنرل سکریٹری تھے۔

سال 2002 سے ہی چینی مل‌کے مزدوروں کو تنخواہ نہیں مل رہی تھی۔ دونوں چونکہ یونین میں بڑے عہدے پر تھے، اس لئے مزدور پیمنٹ کے لئے ان پر لگاتار دباؤ بنا رہے تھے۔ لیکن چینی مل انتظامیہ پیسے دے نہیں رہا تھا۔دونوں کافی دنوں تک ستیہ گرہ پر تھے۔ لیکن کہیں سے کوئی یقین دہانی نہیں ملی تھی۔ مزدوروں کی تنخواہ کی ادائیگی کی مانگ اور ادائیگی نہیں ہونے پر خودسوزی کرنے کو لےکر انہوں نے ملک کے صدر سے لےکر ضلع انتظامیہ اور مقامی چھتونی تھانہ تک کو خط لکھا تھا، لیکن کوئی پہل نہیں ہوئی۔سورج بیٹھا اور نریش شریواستو نے مجبور ہوکر 10 اپریل کو مل کے سامنے خودسوزی کر لی تھی۔ ان کو بہتر علاج کے لئے پٹنہ میڈکل کالج ،ہسپتال لے جا گیا تھا، جہاں علاج کے دوران ان کی موت ہو گئی تھی۔

پورنیما دیوی کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر نریش شریواستو پر مزدور پیمنٹ کے لئے لگاتار دباؤ بنا رہے تھے، جس کی وجہ سے وہ بہت پریشان رہا کرتے تھے۔ (فوٹو : انڈین ایکسپریس)

پورنیما دیوی کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر نریش شریواستو پر مزدور پیمنٹ کے لئے لگاتار دباؤ بنا رہے تھے، جس کی وجہ سے وہ بہت پریشان رہا کرتے تھے۔ (فوٹو : انڈین ایکسپریس)

اس درد ناک  حادثہ کو  گزرے ایک سال ہو گیا ہے، لیکن مزدوروں اور دونوں بیواؤں کی تکلیفیں کم نہیں ہوئی ہیں۔ ان کو لگا تھا کہ اس قربانی کے بعد حکومت اور کارمل انتظامیہ کا دل پسیج جائے‌گا اور ان کی  بقایا رقم کی ادائیگی جلد سے جلد ہو جائے‌گی، لیکن ان کی امیدیں اب دم توڑ رہی ہیں۔مایا دیوی کے تین بیٹے ہیں۔ بڑا بیٹا ٹینٹ کا کام کرتا ہے۔ ایک بیٹا پڑھتا ہے اور دوسرے نے پڑھائی چھوڑ دی ہے۔ ان کے پاس کھیت نہیں ہے۔ سورج جب زندہ تھے، تو ان کی کمائی سے ہی گھر چلتا تھا۔ اب بڑے بیٹے کی کمائی سے کسی طرح ان کی زندگی گزر  رہی ہے۔

وہ پھوس کے گھر میں رہتے ہیں۔ مایا دیوی کہتی ہیں، ‘ وہ بھوک ہڑتال پر تھے۔ ہمیں نہیں پتا تھا کہ خودسوزی کرنے کا کوئی پلان ہے۔ آگ لگانے کی خبر موبائل پر ملی تھی۔مایا دیوی مل انتظامیہ کو اس کے لئے ذمہ دار  مانتی ہیں۔ انہوں نے کہا، ‘ اگر انتظامیہ نے مزدوروں کا بقایا دے دیا ہوتا، تو آج مجھے بیوہ نہیں ہونا پڑتا۔ مزدوروں کا بقایا دلوانے کے لئے وہ گزشتہ 11-10  سالوں سے لگاتار انتظامیہ سے لڑ رہے تھے۔ ‘مایا دیوی کہتی ہیں، ‘ انہوں نے 700 روپے  ماہوار پر چینی مل میں نوکری شروع کی تھی اور مل بند ہونے تک 15 ہزار روپے  پاتے تھے۔ کارخانہ  کےانتظامیہ پر ان کا 133 مہینے کا تقریباً 22 لاکھ روپے بقایا تھا۔ اس سال جنوری مہینے میں مل انتظامیہ نے محض 2.5 لاکھ روپے  کا چیک دیا ہے۔ میں نے حکومت سے مانگ کی تھی کہ کم سے کم ایک بیٹے کو سرکاری نوکری دی جائے، لیکن حکومت کی طرف سے اس سمت میں کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ ‘

سورج بیٹھا کی موت کے بعد ریاستی حکومت نے ایس سی ایس ٹی لوگوں کی  فلاح و بہبود کے تحت ان کی فیملی کو 4.15 لاکھ روپے  دئے تھے۔قابل ذکر ہے کہ شری ہنومان چینی مل کا قیام موتیہاری ریلوے اسٹیشن سے محض 3 کلومیٹر دور بڑا بریارپور میں 1932 میں ہوا تھا۔ 10 ایکڑ میں پھیلے  اس کارخانہ میں 696 مزدور کام کر رہے تھے اور تقریباً 7 ہزار کسان مذکورہ کارخانہ کو گنا مہیا کراتے تھے۔سال 2002 سے مزدروں کو تنخواہ ملنی بند ہوئی تھی لیکن چینی مل سال 2004 تک چلتی رہی۔ سال 2004 کے بعد ایک دو بار اس کو ضرور کھولا گیا، مگر کچھ ہی دن بعد دوبارہ بند ہو گئی۔ سال 2012 میں وزیراعلی نتیش کمار کی پہل پر ڈیڑھ مہینے تک مل چلی تھی۔ اس کے بعد بند ہوئی، تو پھر نہیں کھلی۔ سال 2002 سے ہی گنا  کسانوں اور مزدوروں کا پیسہ مل انتظامیہ پر بقایا ہے۔

پھوس کے گھر میں اپنے شوہر سورج بیٹھا کی تصویر لئے بیٹھی مایا دیوی/فوٹو : امیش کمار رائے

پھوس کے گھر میں اپنے شوہر سورج بیٹھا کی تصویر لئے بیٹھی مایا دیوی/فوٹو : امیش کمار رائے

نریش شریواستو کی بیوی پورنیما دیوی ایک سال پہلے کے اس خوفناک حادثہ کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں، ‘ وہ لمبے وقت سے ستیہ گرہ پر تھے۔ میں اس بیچ مظفرپور چلی گئی تھی۔ 10 اپریل کو اچانک میرے پاس فون آیا اور بتایا گیا کہ انہوں نے خودسوزی کر لی ہے۔ 9 اپریل کو ان سے جب میری بات چیت ہوئی تھی، تو انہوں نے ایسا کچھ بھی نہیں کہا تھا ،جس سے لگتا کہ وہ خودسوزی کریں‌گے۔ ‘ پورنیما دیوی نے کہا، ‘ مل بند ہو جانے کے بعد سے بقایا کے لئے مزدوروں کی طرف سے ان پر لگاتار دباؤ بنایا جا رہا تھا۔ صبح سے ان کے موبائل پر فون آنا شروع ہوتا، تو دیر رات تک فون آتا ہی رہتا۔ تمام فون مزدوروں کے ہی ہوتے۔ کبھی کبھی وہ مجھ سے  یہ باتیں شیئر  کرتے تھے۔ ‘

پورنیما دیوی خودسوزی کے پیچھے سازش دیکھ رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ لینڈ مافیاؤں کے بھی نشانے پر تھے۔پورنیما دیوی کو بھی مل انتظامیہ کی طرف سے اس سال جنوری میں 2.5 لاکھ روپے  دئے گئے ہیں۔ پورنیما دیوی نے کہا، ‘ کارخانہ انتظامیہ پر ان کا 25 لاکھ روپے بقایا ہے۔ ان کے جانے کے بعد سے زندگی بوجھ بن گئی ہے۔ ‘ گزشتہ سال ہوئی خودسوزی کے واقعہ کو لےکر پولیس  کا کہنا تھا کہ چینی مل‌کے ہی مزدوروں نے ان کو خودکشی کے لئے اکسایا تھا۔ اس معاملے میں چینی مل‌کے ہی کچھ مزدوروں اور سماجی کارکن کو گرفتار کیا گیا تھا۔

مذکورہ معاملے میں پولیس  کی کارروائی کہاں تک پہنچی، یہ جاننے کے لئے چھتونی تھانہ کے انچارج راجیو رنجن کو فون کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ مقدمہ کی تمام کارروائی پوری ہو گئی ہیں۔ انہوں نے اس معاملے میں تفصیل بتانے سے یہ کہہ ‌کر انکار کر دیا کہ وہ تھانے سے باہر ہیں۔حالانکہ اس معاملے میں مرنے والوں کے رشتہ داروں کا کہنا تھا کہ ان کو کسی نے نہیں اکسایا تھا، بلکہ مل انتظامیہ کے نیوٹرل رویے کی وجہ سے وہ خودکشی کرنے کو مجبور ہوئے تھے۔

 بندھوا مکتی مورچہ کے نیشنل ڈائرکٹر  سوامی اگنیویش نے حادثہ کے بعد مزدوروں کے ساتھ نئی دہلی  میں جنتر منتر پر پروٹیسٹ تھا۔ انہوں نے سی بی آئی تفتیش کرانے اور مزدوروں کا بقایا جلد سے جلد دینے کی مانگ رکھی تھی، لیکن مزدوروں کی بقایا ادائیگی کا عمل ابتک شروع نہیں ہو سکا ہے۔حادثہ کے بعد سوامی اگنیویش سمیت پانچ سماجی کارکن نے عوامی سماعت اور معاملے کی چھان بین کی تھی۔عوامی سماعت میں نریش اور سورج کی موت کو لےکر انتظامیہ کی لاپرواہی  اجاگر ہوئی تھی۔ عوامی سماعت کی رپورٹ میں کہا گیا تھا، ‘ احتجاج کے مقام پر کافی تعداد میں پولیس  ، ایمبولینس یا فائر برگیڈ کی تعیناتی نہیں کی گئی تھی۔ اگر تعیناتی ہوئی ہوتی، تو دونوں کی جان بچ جاتی۔ ‘

رپورٹ کے مطابق، خودسوزی کے واقعہ کے تقریباً ایک گھنٹے بعد پولیس  موقع واردات پر پہنچی تھی۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا تھا، ‘ خودسوزی کا نوٹس ڈی ایم اور ایس پی دفتر میں بھی دیا گیا اور وہاٹس  ایپ پرمیسج  بھیج‌کر بھی اطلاع دی گئی تھی لیکن احتیاطی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ اس سے سنگین سازش کا شک پیدا ہو رہا ہے۔ ‘ ان الزامات پر بھی انتظامی سطح پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

موتیہاری کی بند پڑی شری ہنومان چینی مل/فوٹو : امیش کمار رائے

موتیہاری کی بند پڑی شری ہنومان چینی مل/فوٹو : امیش کمار رائے

پورنیما دیوی، مایا دیوی اور دوسرے  مزدوروں نے 7 اپریل سے مون ستیہ گرہ شروع کیا تھا۔ ستیہ گرہ مل کے سامنے واقع مندر کے چبوترہ پر چل رہا تھا۔ چار دنوں تک چلے مون ستیہ گرہ کے دوران نہ تو مل انتظامیہ اور نہ ہی ضلع انتظامیہ کا کوئی افسر ان سے بات چیت کرنے کے لئے آیا۔پورنیما دیوی کہتی ہیں، ‘ ہماری مانگ ہے کہ جتنے بھی مزدور چینی مل میں کام کرتے تھے، ان کا بقایا بلاتاخیر دیا جائے اور کارخانہ کو دوبارہ بحال کیا جائے تاکہ لوگوں کو روزگار مل سکے۔ لیکن انتظامیہ کی طرف سے اس کو لےکر کوئی سگبگاہٹ نہیں ہو رہی ہے۔ ‘

شری ہنومان چینی مل لیبر یونین کےڈائریکٹر  ہرکھیت بیٹھا نے کہا، ‘ مزدوروں کے ساتھ ہی چینی مل کے لئے گنا سپلائی کرنے والے کسانوں کا بھی مل پر اچھاخاصہ بقایا ہے۔ انتظامیہ  سے ان کی ادائیگی جلد کرنے کی مانگ کی گئی ہے، لیکن اس پر پہل ہونی اب بھی باقی ہے۔ ‘ مزدور یونین کے مطابق مزدوروں کا 60 کروڑ اور کسانوں کا 17 کروڑ 41 لاکھ روپے  بقایا ہے۔ مزدور یونین کے سکریٹری پرمانند ٹھاکر نے کہا، ‘ انتظامیہ سے 60 کروڑ روپے  دینے کی مانگ کی گئی ہے۔ ‘ سال 2004 میں مل‌کے بند ہونے کے بعد سے ابتک تقریباً 400 مزدور رٹائر ہو چکے ہیں۔ باقی مزدور اب بھی مل میں آتے ہیں اور رجسٹر پر حاضری لگاکر دن بھر بیٹھے رہتے ہیں۔

جو مزدور ریٹائر ہوئے ہیں، ان کے روپے  بھی نہیں دئے گئے ہیں۔ پرمانند ٹھاکر نے کہا، ‘ کئی مزدوروں کی معاشی حالت بہت خراب ہے۔ وہ روز حاضری لگانے مل میں نہیں آتے ہیں۔ وہ دو تین دن کہیں مزدوری کرکے ہفتہ بھر‌کے راشن پانی کا انتظام کر لیتے ہیں اور اس کے بعد یہاں حاضری لگانے آ جاتے ہیں۔ ‘ وزیر اعظم نریندر مودی 10 اپریل کو جب موتیہاری آئے تھے، تو اس کارخانہ میں کام کرنے والے مزدوروں میں امید جگی تھی کہ شاید وہ کوئی اعلان کر دیں‌گے، لیکن ان کو مایوسی ہی ہوئی۔ہرکھیت بیٹھا نے کہا، ‘ ہمیں امید تھی کہ ہمارے لئے کوئی اعلان ہوگا لیکن وہ کچھ نہیں بولے۔ ہم چاہتے ہیں کہ مل جلد سے جلد کھلے تاکہ موتیہاری کا مستقبل سنور سکے۔’

 بقایا ادائیگی کو لےکر  جمعرات کو مل انتظامیہ  اور مزدوروں کے درمیان میٹنگ ہوئی۔ میٹنگ میں انتظامیہ نے بقایا کا حساب کتاب 10 دنوں میں تیار کرنے کی بات کہی ہے۔ پرمانند ٹھاکر نے کہا، ‘ 10 دن بعد انتظامیہ کیا حل لےکر آتا ہے، اس پر ہماری نگاہ ہے۔ اگر بات نہیں بنتی ہے، تو کلکٹر کو اس کی اطلاع دیں‌گے اور پھر آگے کی کارروائی پر غور کیا جائے‌گا۔ ‘ مایا دیوی اور پورنیما دیوی نے کہا، ہم صرف اپنے لئے نہیں لڑ رہے ہیں۔ ہماری لڑائی مل‌کے تمام مزدوروں اور کسانوں کے لئے ہے۔ ہم تب تک ستیہ گرہ کرتے رہیں‌گے، جب تک تمام مزدوروں اور کسانوں کو ان کی محنت کی کمائی کی پائی پائی نہیں مل جاتی ہے۔ ‘

(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔)