فکر و نظر

منریگاکو بہتر بنانے کے نام پر مزدوروں کے حقوق کی پامالی کی جا رہی ہے

منریگا اب کام کا حق دینے کے بجائے سوچھ بھارت مشن، پردھان منتری آواس یوجنا اور آئی سی ڈی ایس (Integrated Child Development Services) جیسے پروگراموں کی ضروریات پورا کرنے کا ذریعہ زیادہ بن گیا ہے۔

فوٹو : رائٹرس

فوٹو : رائٹرس

1 مئی 2016 کو یوم مزدور کے موقع پر جھارکھنڈ کے مزدوروں نے وزیر اعظم کو 5 روپے  لوٹائے۔ اس سال مہاتما گاندھی راشٹریہ گرامین روزگار گارنٹی قانون (منریگا) میں ان کی مزدوری شرح 5 روپے ہی بڑھائی گئی، جس کی مخالفت کے لئے انہوں نے یہ طریقہ اپنایا۔ اگلے یوم مزدور پر انہوں نے 1 روپیہ لوٹایا کیونکہ سال 2018-2017کے لئے آسام، جھارکھنڈ، بہار، اتر پردیش اور اتراکھنڈ میں اتنی ہی رقم کا اضافہ کیا گیا تھا۔ شکر ہے کہ اس سال ان مزدوروں کو وزیر اعظم کو کچھ لوٹانے کی ضرورت نہیں پڑے‌گی۔

19-2018 کے لئے دس ریاستوں ؛اروناچل پردیش، بہار، جھارکھنڈ، میزورم، ناگالینڈ، راجستھان ،  سکم ،تریپورہ، اتر پردیش اور اتراکھنڈ، کی منریگا مزدوری شرح میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے۔ ان میں سے کچھ ملک کی سب سے غریب ریاستوں میں سے ہیں، جہاں کے لاکھوں مزدور روزگار نہ ملنے  کی حالت میں منریگا کا سہارا لیتے ہیں۔ لیکن بےحد کم مزدوری شرح، وقت پر مزدوری نہ ملنے اور دیری کی حالت میں معاوضے کی ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے کئی مزدوروں کو منریگا سے منھ موڑنا پڑ رہا ہے۔ فی الحال 29 ریاستوں اور مرکز  حکومتی ریاستوں کی منریگا مزدوری ان کی کم از کم مزدوری سے کم ہے۔ ان دونوں مزدوری شرحوں کا فرق سب سے زیادہ تریپورہ اور سکم میں ہے، جہاں منریگا مزدوری ریاست کی کم از کم مزدوری کا صرف 59 فیصد  ہے۔

گجرات میں یہ تناسب 65 % اور آندھر پردیش میں یہ تناسب 68 % ہے۔ منریگا اور کم از کم مزدوری شرحوں میں فرق 2009 سے شروع ہوا جب مرکزی حکومت نے روزگار گارنٹی قانون کے آرٹیکل 6 (1) کو نافذ کر کے منریگا مزدوری شرحوں کو کم از کم مزدوری قانون سے الگ کر دیا۔ تب سے، کئی ریاستوں میں غیر قانونی حالت پیدا ہو گئی ہے جہاں منریگا مزدوروں کو کم از کم مزدوری در سے کم کی ادائیگی ہو رہی ہے۔ چونکہ روزگار گارنٹی قانون کے مطابق مرکزی حکومت کو منریگا مزدوری کی پوری ذمہ داری اٹھانی ہے، اس لئے کوئی ریاست منریگا مزدوری شرح اور کم از کم مزدوری شرح کا فرق ختم کرنے کے لئے اپنی رقم لگانے کے لئے تیار نہیں ہے۔ (صرف بہار ایک ایسی ریاست ہے جو منریگا مزدوری شرح میں 9 روپے  جوڑتا ہے)

2009 میں مرکزی حکومت نے منریگا مزدوری شرح کو 100 روپے  روزانہ پر محدود کر دیا۔ لگاتار مہنگائی بڑھتے رہنے کی وجہ سے منریگا مزدوری کی اصل قیمت گرتی رہی۔ اس گراوٹ کو روکنے کے لئے مرکزی حکومت نے سی ای جی سی(Central employment guarantee council) کے ‘ ورکنگ گروپ آن ویجیز ‘ کی ایمرجنسی  سفارشات کو نافذ کیا۔ یہ سفارش تھی منریگا مزدوری شرح کو کنزیومر پرائس انڈیکس  (کسان مزدور) کے ساتھ جوڑنا۔ لیکن حکومت نے اصل منریگا مزدوری شرح میں کوئی اضافہ نہیں کیا۔

2015 میں مرکزی حکومت کے ذریعے تشکیل دی گئی  مہیندر دیو کمیٹی نے کہا کہ اصل منریگا مزدوری شرح کم سے کم 2014 کی کم از کم مزدوری شرح یا منریگا مزدوری شرح ہونی چاہئے، ان دونوں میں سے جو بھی زیادہ ہو۔ اس کمیٹی نے یہ بھی آئیڈیا  دیا کہ منریگا مزدوری شرح کی ترمیم کے لئے صارفین قیمت اشاریہ (کسان مزدور) کے بجائے صارفین قیمت اشاریہ (دیہی مزدور) ہونا چاہئے چونکہ یہ منریگا مزدوروں کی کھپت کی ایک زیادہ درست نمائندگی ہے۔ ناگیش سنگھ کمیٹی نے بھی یہ سفارش دوہرائی۔ لیکن وزارت خزانہ نے ان دونوں کمیٹیوں کی سفارشات منظور نہیں کی، غالباً چونکہ پھر مرکزی حکومت کو اپنا منریگا بجٹ بڑھانا پڑے‌گا۔13-2012 سے 17-2016کے درمیان ملک بھر کی اوسطاً منریگا مزدوری شرح 135 روپے  سے بڑھ‌کر 176 روپے  ہوئی، لیکن اس دوران اوسطاً منریگا مزدوری کی اصل قیمت میں صرف 1 روپیہ ہی بڑھا۔

ادائیگی میں لمبی تاخیر  کی وجہ سے منریگا مزدوری شرح کی اصل قیمت اور کم ہو جاتی ہے۔ منریگا مزدوری کی ادائیگی کام کرنے کے 15 دنوں کے اندر ہونی ہے۔14  -2013 سے 17-2016 تک مزدوری ادائیگی کے لئے بنے آدھے سے کم فنڈ ٹرانسفر آرڈر (ایف ٹی او) پر وقت سے دستخط ہوئے۔ حکومت ایف ٹی او پر دستخط ہو جانے کو ہی مزدوری ادائیگی مانتی ہے، جبکہ یہ عمل ہونے کے بعد بھی مزدوری ادائیگی میں مہینوں لگ سکتے ہیں۔ بلکہ حکومت کے پاس مزدوروں کے کھاتوں میں منریگا مزدوری منتقل ہونے تک لگنے والے وقت کا کوئی حساب ہی نہیں ہے۔

آزاد محققین نے کچھ مزدوری ادائیگی کے لئے اس وقت کا حساب کیا ہے۔17-2016 میں 10 ریاستوں میں ہوئے 90 لاکھ مزدوری ادائیگی کا مطالعہ کرنے پر انہوں نے پایا کہ اصل میں صرف 21 فیصدی  معاملوں میں ہی کام کرنے کے 15 دنوں کے اندر مزدور کے کھاتے میں مزدوری منتقل ہوئی ہے۔ انہوں نے اپنا مطالعہ اپریل سے ستمبر 2017 میں ہوئی مزدوری ادائیگی کے لئے دوہرایا۔ اس بار انہوں نے پایا کہ صرف 32 فیصدی  مزدوروں کو ہی وقت پر مزدوری ملی، جبکہ حکومت کا دعویٰ تھا کہ اس دوران 85 فیصدی  ادائیگی وقت پر ہوئی ہیں۔

کچھ مزدوروں کو تو انتظامی لاپروائی اور کھاتے سے فرضی نکاسی کی وجہ سے اپنی مزدوری ملتی ہی نہیں ہے۔ منریگا کے عمل کو لازمی طور سے آدھار اور پروگرام کے مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم (ایم آئی ایس) کے ساتھ جوڑنے کی وجہ سے بھی مزدوری ادائیگی نہ ہونے کی نئی وجہ کھڑی ہو رہی ہے۔ آدھار سیڈنگ میں غلطیوں کی وجہ سے مزدوری دوسرے  کھاتوں میں جا رہی ہے۔ صاف شفاف  اور جوابدہی کے اہتماموں کے غیر جانب دار عمل کی وجہ سے زیادہ تر مزدور مزدوری نہ پانے کی شکایت بھی نہیں کر پاتے۔ کچھ مزدور جو شکایت کر پاتے ہیں، ان کے مسائل کا شاید ہی کبھی ازالہ ہوتا ہے۔

MNREGA 2

روزگار گارنٹی قانون کے مطابق اگر مزدوروں کو کام کرنے کے 15 دنوں کے اندر مزدوری نہیں ملتی، تو وہ معاوضے کے حقدار بنتے ہیں۔ معاوضے کی رقم ان ملازمین‎ سے وصولی جانی ہے جن کی لاپروائی کی وجہ سے ادائیگی میں دیر ہوئی ہے۔ شروع میں معاوضے کی رقم مزدوری ادائیگی قانون کے مطابق طے ہونی تھی۔ بعد میں معاوضے کی شرح زیر التوا مزدوری کا 0.05 فیصد، فی تاخیر کا دن ہو گیا۔ چونکہ حکومت ایف ٹی او پر دستخط کو مزدوری ادائیگی مانتی ہے، اس عمل کے بعد ہونے والی تاخیر کے لئے معاوضے کا حساب بھی نہیں ہوتا۔ ایف ٹی او پر دستخط کے بعد ادائیگی کا عمل مرکزی حکومت، بینک یا ڈاکخانہ کی ذمہ داری ہے۔ چونکہ ان عوامل میں ہونے والی تاخیر کے لئے مزدوروں کو معاوضہ نہیں ملتا، مرکزی حکومت اکثر رقم کی کمی یا دوسری  وجوہا ت سے ان عوامل کو روک‌کر رکھتی ہے۔

معاوضے کی رقم کا حساب خودبخود ایم آئی ایس کے ذریعے کیا جاتا ہے، جس کو پروگرام اہلکار منظور کرتے ہیں۔ وہ زیادہ تر معاوضے کی رقم کو اجازت نہیں دیتے کیونکہ ایسا کرنے سے ان کے شریک کاروں سے ہی وصولی ہوگی۔ منظور شدہ معاوضے کے بھی پورے حصے کی ادائیگی نہیں ہوتی۔ 14-2013 سے 18-2017 تک ایم آئی ایس کے ذریعے ریاضی معاوضے کے صرف 4 فیصد  کو اجازت ملی اور منظور شدہ رقم کے صرف 61 فیصدی  حصے کی ہی مزدوروں کو ادائیگی ہوئی۔

منریگا مزدوری میں بحران کی اہم وجہ ہے حکومت کے ذریعے منریگا کے لئے کافی بجٹ کا بٹوارا نہ کرنا۔ اس حقیقت کاانکشاف  شاید سب سے صاف وزارت خزانہ کے ایک  دستاویز سے ہوتا ہے جس میں لکھا ہے کہ اگر مزدوروں کو مزدوری کی پوری مدت کے لئے معاوضہ دیا جائے، تو حکومت پر مالی ذمہ داری کافی بڑھ جائے‌گی۔11-2010 سے لےکر14-2013 تک مرکزی حکومت کے منریگا پر خرچ میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ اس کے بعد حالانکہ ہرسال منریگا بجٹ میں اضافہ ہوا ہے، وہ ملک کی آمدنی کا تقریباً 0.3 فیصدی  ہی رہا ہے۔

گزشتہ  اگست میں منسٹری آف رورل ڈیولپمنٹ  نے منریگا کے لئے 17000 کروڑ روپے  کی اضافی رقم مانگی، پر وزارت خزانہ نے جنوری 2018 میں صرف 7000 کروڑ روپے ہی منظور کیا۔ کم رقم کی وجہ سے منسٹری آف رورل ڈیولپمنٹ  وقتاً فوقتاً ایف ٹی او کی اجازت روکتی رہی ہے، جس سے مزدوروں کو مزدوری پانے میں مہینوں لگ جاتے ہیں۔ اس سال کا منریگا بجٹ 55000 کروڑ روپے  ہے، موٹے طور پر یہ گزشتہ سال کے بجٹ کے برابر ہی ہے۔

15-2014 میں مرکزی حکومت نے منریگا کو ملک کے 200 سب سے غریب ضلعوں تک محدود کرنے اور مزدوری اورسامان کے تناسب کو کم کرنے کی کوشش کی تھی۔ وہ ان کوششوں میں کامیاب نہیں ہوئی، پر تب سے سال در سال منریگا کے لئے کم رقم مختص کرکے اس کا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔ منریگا اب ایک کام کا حق کم اور سوچھ بھارت مشن، پردھان منتری آواس یوجنا اور آئی سی ڈی ایس جیسے پروگراموں کی ضروریات کو پورا کرنے کا ذریعہ بن گیا ہے۔اسکیموں کے  معیار کو بہتر بنانے اور چوری کم کرنے کے نام پر مزدوروں کے حقوق کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ امید ہے کہ اگلےسال کے انتخاب تک حزب مخالف جماعت، میڈیا اور سماج حکومت کے سب سے غیر محفوظ دیہی مزدوروں کی طرف سے بے حسی کو اجاگر کرنے میں کامیاب ہو پائیں‌گے۔

(انکتا اگروال رائٹ ٹو فوڈ کیمپین   سے وابستہ  ہیں۔)