خبریں

عرب نامہ : ترکی میں قبل ازوقت انتخابات اورسیریامیں جنگ کے خاتمہ کے لیےسلامتی کونسل کی پیش قدمی

بازار میں اگرچہ کھانے پینے کی چیزیں دستیاب ہیں لیکن زیادہ  تر یمنی باشندے انہیں خرید نہیں سکتے ہیں ، اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق  اس وقت 22 ملین یمنیوں کو انسانی مدد کی ضرورت ہے۔ غذائی قلت کی وجہ سے ہیضہ اور دیگر متعدی امراض نے آبادی کے ایک بڑے حصہ  کواپنی چپیٹ میں لے لیاہے ۔

الحیاِۃ : ترکی میں قبل ازوقت انتخابات

الحیاِۃ : ترکی میں قبل ازوقت انتخابات

لندن سے نکلنے والے اخبار ” الحیاِۃ”  نے  19 اپریل 2018  کو ترکی میں قبل ازوقت الیکشن کی خبر کواہمیت کے ساتھ شائع کیا ، اخبار کے مطابق ترکی صدر رجب طیب اردوگان نے   آنے والے 24 جون  کو انتخابات  کرانے کا  اعلان کیا ، اس  متوقع الیکشن میں  زیادہ اختیارات کے ساتھ موجودہ صدر  دوبارہ اقتدار میں آنے کی کوشش کریں گے ۔اچانک الیکشن کے اعلان نے سیاسی مبصرین کو حیران کردیاہے ۔تجزیہ نگار ں کی حیرانی کی  ایک وجہ یہ ہے یہ انتخابات مقررہ وقت سے تقریباً ڈیڑھ سال پہلے ہورہے ہیں اور دوسرا یہ کہ ترکی کے سیاسی رہنما  قبل از انتخابات  کے افواہوں کی مسلسل تردید کرتے رہے ہیں۔

22 اپریل   کے مشرق وسطی کےاخباروں  نے  نامعلوم افراد کے ذریعہ ڈرون   ایکسپرٹ فلسطینی انجینئر  کے قتل کو خبر پہلے صفحہ پر جگہ دی۔  الشرق الاوسط کے مطابق   ملیشیائی حکام نے ایک غیر ملکی انٹلی جینس پر   فلسطینی انجینئر   کےقتل  کا الزام عائد کیا ہے، ان کے مطابق بائیک پر سوار دومسلح افراد نے  فادی محمد  البطش  پر پے درپے 10 گولیاں چلائیں اور انہیں قتل کردیا،   فادی محمد  البطش  اس وقت فجر کی نماز کےلیے پڑوس کی ایک مسجد میں جارہے تھے ، کوالالمپور پولیس کے سربراہ مزلان لازم نے واقعہ کی تفتیش کا حکم دے دیا ہے ۔

فلسطینی جماعتوں اور انجینئر کےگھروالوں نے فادی البطش کے قتل کا الزام  اسرائیلی ایجنسی موساد کے سرتھوپا ہے ، جب کہ اسرائیل نے سرکاری طوپر کوئی بیان نہیں جاری کیا ہے ، البتہ  اسرائیلی  میڈیا  میں یہ خبر چل رہی ہے کہ مقتول ڈرون طیارے بنانے میں ماہر تھا اور حماس کےلیے کام کرتا تھا۔

الشرق الاوسط : ملیشا میں فلسطینی انجینئر کے قتل کا الزام حماس نے اسرائیل پر لگایا

الشرق الاوسط : ملیشا میں فلسطینی انجینئر کے قتل کا الزام حماس نے اسرائیل پر لگایا

مشرق وسطی کے بحران میں عربی کردار کے غائب ہونے  اور عربوں سے خود عربوں کے مسائل پر کسی طرح  کی مشاورت  نہ ہونے کی وجہ سےعرب  ایک کشمکش کی کیفیت کے شکار ہیں ۔اخبار الخلیج   میں السید زہرہ  نے ایک کالم   لکھ کر اس کشمکش کی کیفیت  کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے ، و ہ لکھتے ہیں:

اگرچہ عربوں کے موقف پر بڑی بڑی باتیں ہوتی ہیں  اور مختلف علاقائی  مسائل پر مختلف عرب ممالک کے دارالحکومتوں سے  مختلف اعلانات ہوتے ہیں اور بیانات شائع ہوتے ہیں ، لیکن افسوس کہ   ان بیانات کی حیثیت  ہنگاموں اور شوروغل کے علاوہ  کوئی بھی اہمیت نہیں ہوتی ہے۔

اس پر سب سے تازہ   مثال امریکہ کی قیادت میں برطانیہ اور فرانس  کا شام پر حملہ ہے ، حملہ کے بعد جو سوالات سامنے آئے ان میں سے ایک یہ تھا  کہ کن ممالک  کو ان حملوں کی پیشگی اطلاع دی گئی ، خبروں سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ حملوں کی پیشگی اطلاع روس، ترکی،اور اسرائیل کو تھی، مطلب صاف ہے کہ امریکی انتظامیہ نے  کسی بھی عرب ملک کو ان حملوں کی پیشگی اطلا ع دینی ضروری نہیں سمجھی ،  ایسا نہ کرنے کے وجوہات صاف ہیں، کیو نکہ  شام کے مسئلہ میں عرب ممالک کا  کوئی کردار نہیں   ہے جس کی وجہ سے اس کی رائے لینا یا اسے پیشگی اطلاع دیناضروری سمجھا جائے”۔

اور یہی وجہ ہے کہ  دنیا میں کسی نے یہ سوال نہیں پوچھا کہ ان حملوں پر عربوں کا ممکنہ کیا جواب ہوسکتا ہے، اس سے ایک بات بالکل صاف ہوجاتی ہے کہ عرب، دنیا کے ذہن سے  نکل چکے ہیں  حتیٰ کہ خالص عربوں کے مسائل جیسے کہ شام اور اس متعلق واقعات  اور یہ صرف شام تک محدود نہیں ہے بلکہ عربوں کے دیگر امورومسائل  میں بھی صورت حال مختلف نہیں ہے۔

ایسا اس لیے ہورہا ہے کہ کیوں کہ  صرف بیان جاری  کرنے اورچیخنے اورچلانے سے کام نہیں چلتا ہے کہ  بلکہ جو اپنا  اثرورسوخ طاقت کے ذریعہ قائم کرتا ہے اس کا خیال کیا جاتاہے”

متحدہ عرب امارات سے شائع ہونے والے روزنامہ ” الامارات الیوم” نے اطلاع دی ہے کہ سلامتی کونسل  کا اجلاس سویڈن کے ایک فارم میں ہوگا  جس میں شام  میں جنگ بندی  پر غوروخوض ہوگا۔سیکوریٹی کونسل عام طور پر سالانہ برین اسٹورمینگ سیشن (brain storming session)نیویارک میں منعقد کرتی  ہے  لیکن  سویڈن نے اس بار سلامتی کونسل کے 15مندوبین اور جنرل سیکریٹری انطونیوگوتیریس   کو ایک غیر سرکاری  پروگرام کے انعقاد کےلیے اس سال “باکاکرا” بلایا ، جس میں سلامتی کونسل کے ممبران اور اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری سویڈن کے ایک فارم میں  شام میں جنگ ختم کرنے کے طریقہ پرگہرے اختلافات ختم  کرنے پر تبادلہ خیال کریں گے۔

الامارات الیوم : مسئلہ شام پر غوروخوض کے لیے سویڈن میں سلامتی کونسل کا اجلاس

الامارات الیوم : مسئلہ شام پر غوروخوض کے لیے سویڈن میں سلامتی کونسل کا اجلاس

سویڈن کی وزیر خارجہ مارگوٹ فالسٹروم  نے سویڈن میں اس اجلاس کے انعقاد کو خوش کن بتایا لیکن اس ہفتہ کے آخر میں ہونے والی میٹنگ سے مسئلہ شام کے حل کے سلسلے میں بہت امیدیں  باندھنے سے خبردار کیا ،انہوں نے مزید کہا  ہم  پرامید  ہیں  کہ   میٹنگ میں نئے افکار سامنے آئیں گے  اور میرے حساب سے مجموعی طورپر انسانی صورت حال اور کیمیائی اسلحہ پر بات چیت مرکوز ہوگی۔ دوسری طرف  بعض غیر مستقل ممبران  نے سویڈن میں اس اجلاس کے انعقاد پر تنقید کی ہے  اور یہ کہا اس کام کےلیے اتنی لمبی مسافت طے کرنے کی کیا ضرورت ہے۔

روزنامہ “الحیاِۃ” نے یمن کی بگڑتی معیشت پر عالمی بینک کے حوالہ سے خبردی ہے کہ  یمن کی معیشت آدھے سے زیادہ سکڑچکی ہے۔2015  سے  تنازع  میں شدت آنے کے بعد سے یمن کے گھریلو پیدوار میں 50 فیصدی  سے زیادہ گرواٹ درج کی گئی ہے۔عالمی بینک کے مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کے اقتصادی آبزرویٹری رپورٹ  میں بتایا گیا ہے کہ  یمنی معیشت بہت تیزی سے خراب ہوگئی ہے  ،  نجی شعبہ  میں روزگار کے مواقع اورنوکریاں کافی کم ہوگئی ہیں اور تنازع جاری رہنے  کی وجہ سے زرعی خدمات ، تیل اور گیس کی پیدوار ،جو کے جی ڈی پی  کا بڑا حصہ ہے،  کافی حدتک محدود ہوچکی ہے ۔

 رپورٹ  میں کہا گیا ہے کہ حکومتی آمدنی ، خاص طور پر تیل اور گیس کی پیدوار سےہونے والی آمدنی  میں تیزی سے کمی  نے سرکاری سوشل سیفٹی  کی اسکیم  کو ناکام  بنادیا ہے  اور حکومت سرکاری ملازمین  کو تنخواہ نہیں ادا کرپارہی ہے ، تنازع کی وجہ سے زرمبادلہ کی شرح  پر دباؤ بڑھا ہے اور مہنگائی بھی۔ خاندانوں  کے آمدنی  مہنگائی کی نذر ہوجارہی ہے،جب کہ چالیس فیصدی خاندانوں  کا  بنیادی  ذریعہ معاش ختم ہوچکا ہے۔

اس صورت حال میں  کسی مسلح گروپ میں شمولیت یا تنازع سے متعلق کسی اقتصادی سرگرمی میں شمولیت  ہی ایک  سنہرا موقع دے سکتا ہے  ، غربت کی شرح 2014 میں 30 ٖفیصدی تھی جو آج بڑھ کر 80 فیصد ہوچکی ہے، رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ موجودہ حالات میں معاشی استحکام حاصل کرنا ممکن ہے کیونکہ معاشی ادارے عدن کی حکومت اور صنعا میں حوثی حکومت کے درمیان منقسم ہیں ۔

بازار میں اگرچہ کھانے پینے کی چیزیں دستیاب ہیں لیکن زیادہ  تر یمنی باشندے انہیں خرید نہیں سکتے ہیں ، اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق  اس وقت 22 ملین یمنیوں کو انسانی مدد کی ضرورت ہے جن میں سے 9   ملین  افراد کو فاقے سے بچنے اور زندہ رہنے کے لیے  انسانی مدد کی سخت ضرورت ہے ۔غذائی قلت اور صحت کے حالات کے بگاڑ کی وجہ سے ہیضہ اور دیگر متعدی امراض کے پھیلاؤ نے آبادی کے ایک بڑے حصہ  کو کام کرنے اور ایک پیدواری زندگی گذارنے کی صلاحیت سے محروم کردیا ہے ۔