اوما بھارتی نے مدھیہ پردیش میں اپنے وزیراعلیٰ کے دور میں اسمبلی کے اندر آسارام کی تقریر کرائی تھی تو پورے کابینہ کے ساتھ حزب اقتدار کے سارے ایم ایل اے کے لئے اس کو سننا لازمی قرار دیا تھا۔
جودھ پور میں اسپیشل ایس سی ایس ٹی عدالت کے جج کرسن شرما کے ذریعے وہاں کی سینٹرل جیل میں شاہ جہاں پور کی ایک نابالغ لڑکی سے ریپ کے مجرم آسارام کو عمر قید کی سزا سنانے سے خوش متاثرہ کے والد بھلےہی یہ محسوس کرتے ہوں کہ ان کو انصاف مل گیا ہے، اپنی لڑائی میں ساتھ دینے والوں کا شکریہ ادا کر رہے اور امید جتا رہے ہوں کہ اب معاملے کے ان گواہوں کو بھی انصاف ملےگا، جن کا قتل کر دیا گیا یا اغوا کر لیا گیا، لیکن عدلیہ میں اکثر نظر آ جانے والے سوراخوں کے مدنظر ابھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ آسارام واقعی اپنے انجام کو پہنچ گئے ہیں یا ان کو ‘ کرنی کا پھل ‘ مل گیا ہے۔
بے وجہ نہیں کہ متاثرہ کے والد کے برعکس آسارام کو سزا سنائے جاتے وقت نا امید اورمایوس دکھنے کے باوجود ایک بار بھی یہ نہیں جتایا کہ اس سے ان کو اپنے جرم کا ذرابھی احساس ہوا ہے، جبکہ ان کی ترجمان نیلم دوبے نے عدلیہ پر ‘ پورا بھروسہ ‘ جتایا اور کہا ہے کہ اپنی لیگل ٹیم سے بات کرکے آگے کی حکمت عملی طے کی جائے گی۔
صاف ہے کہ آسارام اور ان کے لوگ ابھی بھی ان کو بےقصور ظاہر کرتے ہوئے ہائی کورٹ میں جاکر معاملے کو الجھانے کے لئے کچھ بھی اٹھا نہیں رکھنے والے۔ ہم جانتے ہیں کہ اس کے لئے ان کے ہاتھ تو لمبے ہیں ہی، ان کے پاس نہ پیسے کی کمی ہے، نہ پہنچ کی۔ ان کے بھکتوں کی بڑی تعداد اور سلطنت کی جو تفصیل ذرائع ابلاغ میں کئی بار دیے جا چکے ہیں،ان کو معاملے کے گواہوں کے قتل اور اغوا وغیرہ کے تناظر سے جوڑکر دیکھیں تو اندازہ لگانا مشکل ہے کہ آگے چلکر کب کس موڑ پر وہ اس ‘ ثبوتوں کی کمی ‘ یا شک کے ہاتھوں تحفہ پا جائیں، جس کا فائدہ ہمیشہ ملزمین کو ہی دئے جانے کی عدالتی روایت ہے۔
اسی روایت کے تحت ابھی حال میں ہم نے مکہ مسجد بلاسٹ معاملے میں این آئی اے کی خصوصی عدالت میں اہم ملزم سوامی اسیمانند کو قبل میں دئے گئے اقبالیہ بیان سے مکرکر ‘ کافی ثبوتوں کے فقدان میں ‘ بری ہوتے دیکھا ہے۔پھر کس کو نہیں معلوم کہ آسارام جیسے خود کو مذہب، یوگا، روحانیت اور کئی بار بھگوان تک کی علامت ماننے والے متبرک لوگ اپنے کو ان ساری نصیحتوں، اخلاقیات، عقیدہ اور اعتماد سے اوپر مانتے ہیں، جن کا وہ اپنے بھکتوں کو نصیحت دیا کرتے ہیں۔
ہاں، فیصلے کی ٹائمنگ پر جائیں تو یہ ایسے وقت میں آیا ہے، جب 1989 کے ایس سی ایس ٹی قانون کو لےکر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اس کو لےکر بحث چھڑی ہوئی ہے اور صدر نے بچیوں اور نابالغ لڑکیوں کے ریپ کرنے والے کو سخت سے سخت سزا دلانے کے لئے متعلقہ قانون میں ترمیم کا آرڈیننس جاری کر رکھا ہے۔
اس آرڈیننس کے تحت ریپ کرنے والے کو سنائی گئی سزا کے خلاف دائر اپیل پر سماعت پوری کرنے کی جو معینہ مدت طے کی گئی ہے، اس سے امید کی جا سکتی ہے کہ یہ معاملہ دروپدی کے چیر جیسا کھینچکر لامتناہی نہیں ہوگا اور طے شدہ معینہ مدت میں آخری پائیدان تک پہنچ جائےگا۔لیکن ابھی تو یہی کہہ سکتے ہیں کہ نابالغ متاثرہ اور اس کے رشتہ داروں کے اٹوٹ اور مضبوط ارادوں سے اس پائیدان کی ایک اور سیڑھی طے ہو گئی ہے۔ اس ایک سیڑھی کی راہ میں بھی آسارام کے بھکتوں کی وجہ سے اتنے اندیشے تھے کہ نہ صرف جیل میں عدالت لگانی پڑی، بلکہ فیصلے سے پہلے پابندی نافذ کرنی پڑی۔
ساتھ ہی مرکز کو راجستھان، گجرات اور ہریانہ جیسی ریاستوں سے حفاظت کے سخت بندوبست کرنے کو کہنا پڑا۔ اس لئے کہ ان ریاستوں میں بڑی تعداد میں آسارام کے بھکت ہیں اور وہ عام لوگوں کی زندگی کے ساتھ متاثرہ کے لیےبھی خطرہ بڑھا سکتے ہیں۔2013 میں آسارام پکڑے گئے تو جنتر منتر پہنچے ان کے ‘ بھکتوں ‘ نے صحافیوں سے مارپیٹ کرکے ان کے کیمرے تک توڑ دئے تھے۔ پھر وہ مہینوں تک جنتر منتر پر مظاہرہ کرکے آسارام کی رہائی کی مانگ کرتے رہے تھے۔ابھی گزشتہ سال ہریانہ کے ایسے ہی ایک معاملے میں گرمیت رام رحیم کو سزا ہوئی، تو ان کے حامیوں کے مچائے ہوئےکہرام کے درمیان درجنوں جانیں چلی گئی تھیں اور سرکاری غیرسرکاری جائیداد کا بھاری نقصان ہوا تھا۔
یہ بھی پڑھیں : لوگ ڈیروں میں کیوں جاتے ہیں؟
اتناہی نہیں، سینکڑوں گاڑیاں پھونک دی گئیں تھیں اور ہزاروں لوگ کرفیو اور لاکھوں ریل انتظام ٹھپ ہونے سے متاثر ہوئے تھے۔ اس سے پہلے اسی ریاست میں قتل کے ملزم سنت رام پال کی گرفتاری ہوئی تو ان کےحامی بھی ایسے ہی دنگا فساد پر اترے تھے۔ آسارام کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 342، 376، 504 اور 509 کے علاوہ پاکسو کی دفعہ 8 اوربچوں سے متعلق دفعہ 23 اور 26 کے تحت معاملے درج ہیں۔
جیسے وہ اس طرح کے معاملے میں کٹہرے میں کھڑے ہونے والے اکلوتی مذہبی یا روحانی ‘ رہنما ‘ یا ‘ بھگوان ‘ نہیں ہیں، ویسے ہی یہ ان کے خلاف اکیلا معاملہ نہیں ہے۔ گجرات کے سورت میں بھی دو لڑکیوں نے آسارام اور ان کے بیٹے نارائن سائیں کے خلاف ریپ اور یرغمال بناکر رکھنے کا الزام لگایا ہے، جس میں سپریم کورٹ نے استغاثہ کو پانچ ہفتے کے اندر سماعت پوری کرنے کی ہدایت دی ہے۔ایسے معاملوں میں بار بار بےحس اور پیچیدہ ثابت ہونے والی عدالتی اور قانونی کارروائیوں کو چھوڑ بھی دیں تو ملک میں سائنسی علوم اور شعور کی تشہیر کے بہت دعووں کے باوجود آسارام جیسے خودساختہ باباؤں اور قانون کے ذریعے اعلان شدہ مجرموں کے لئے ان کے بھکتوں کے پاگل پن کی حد تک ضعیف الا عتقادی جتنا حیران کرتی ہے، اتنا ہی پریشان بھی۔
جتنی فکر ان خود ساختہ باباؤں کے گھناؤنے جرائم میں ملوث سے ہوتی ہے، اتنی ہی اس سے بھی کہ ان کے طلسم کے شکار نہ ان کے لئے جانیں لینے سے ہچکچاتے ہیں، نہ ہی جان دینے سے۔ وہ ان کے خلاف کچھ سننے سمجھنے کو بھی تیار نہیں ہوتے کیونکہ ذہنی طور پر ان کے غلام بن جاتے ہیں۔ ان کے آگے وہ ملک کے قانون یا نظام عدل کی بھی کوئی اہمیت نہیں سمجھتے۔
سوال ہے کہ چمتکار کو نمسکار کی ملک کی پرانی روایت آخر کب تک اتنی طاقتور بنی رہےگی کہ لوگ اپنے عقیدےکے ماخذ تلاش کرنے کے سلسلے میں اس طرح ٹھگے جاتے رہیںگے؟ کب تک ایسے لوگوں کی پول کھولنے کے لئے نریندر دابھولکر جیسے لوگوں کو اپنی جانیں دینی پڑیںگی؟جوابوں کی تلاش میں بھی اس دشمنی سے ہی سامنا ہوتا ہے کہ ہماری جمہوریت میں عام لوگ ابھی کتنے سالوں تک عدم تحفظ کے جذبے سے دہشت زدہ رہیںگے؟ کیا یہ عدم تحفظ کا احساس ہی ان کو ان لوگوں تک نہیں لے جاتا؟
جن لوگوں میں کچھ کھونے کا احساس ہوتا ہے، ایسے لوگوں پر ان کا ہی انحصار سب سے زیادہ کیوں ہوتا ہے؟ اس میں ٹیلی ویژن سے لےکر انٹرنیٹ تک پھیلے مکالمہ، اخبار اور تشہیر کےذرائع کے کتنے کردار ہیں؟جو رہنما مبینہ ووٹ بینک کے چکر میں خود ان لوگوں کے پناہ گزیں ہوکر ان کو کئی طرح کے فائدے پہنچاتے رہتے ہیں، وہ ان سے نپٹنے میں کیوں کر مددگار ہو سکتے ہیں؟
اوما بھارتی نے مدھیہ پردیش میں اپنے وزیر اعلیٰ کے دور میں اسمبلی کے اندر آسارام کی تقریر کرائی تھی تو پورے کابینہ کے ساتھ حزب اقتدار کے سارے ایم ایل اے کے لئے اس کو سننا لازمی قرار دیا تھا۔ اس تقریر کو یاد کرتے ہوئے ایسے لوگوں کے لئے بھکتوں کے پاگل پن کو سمجھنا نسبتاً آسان ہو جاتا ہے۔آخرکار جس ملک کے وزیر اعظم میڈیکل سائنس کی ‘ تاریخ ‘ بتاتے ہوئے پورے اعتماد سے کہیںگے کہ ہمارے یہاں گنیش کو پلاسٹک سرجری کے ذریعے ہاتھی کا سر لگایا گیا تھا، اس میں بھکتوں کی تقدیر اس پاگل پن کے علاوہ کچھ اور کیسے ہو سکتی ہے؟
البتہ، اس پاگل پن کو قابو نہیں کیا گیا تو تعجب نہیں کہ کسی دن رام پالوں، رام رحیموں اور آساراموں سے نپٹنا خون ریزی سے نپٹنے جتنا مشکل ہو جائے۔ پھر؟ بہتر ہوگا کہ ویسے حالات بننے سے پہلے ہی ان حالات اور وجہوں سے نجات پانے کی سوچ لی جائے جن کی وجہ سے کوئی ڈھونگی آسارام جیسی سلطنت کو کھڑا کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور اندھی عقیدت کے نام پر بےقصور لوگ اس کی غلامی کی زنجیریں پہننے کو تیار ہو جاتے ہیں۔
اس کے لئے جس سماجی ثقافتی تحریک کی ضرورت ہے، اس میں جتنی دیر ہوگی، اس سے جڑی مصیبتیں اتنی ہی بڑھتی جائیںگی۔ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس معاملے میں نابالغ متاثرہ کو اتنی تکلیفیں جھیلنی پڑیں تو اس کی سب سے بڑی وجہ اس کے والد کے آسارام کو پہچاننے میں غلطی کرنا اور فیملی سمیت ان کے فریب کا شکار ہو جانا ہی تھا۔ ورنہ نہ ہوتا بانس اور نہ بجتی بانسری۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں اور فیض آباد میں رہتے ہیں۔)
Categories: فکر و نظر