ملک کے اعلیٰ اداروں کے اہم عہدوں پر وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے چہیتے نوکرشاہوں کو جگہ دی ہوئی ہے اور گجرات کے ان ‘ مودی فائیڈ ‘ افسروں کو مرکز میں لانے کے لئے اکثر اصولوں کو طاق پر رکھا گیا ہے۔
گجرات کیڈر کے افسروں کے بھروسے رہنا مودی حکومت کی ایک غور طلب خاصیت ہے۔ یہ افسر اہم مرکزی وزارتوں کے اونچے عہدوں پر جلوہ افروز ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی کا یہ ماننا ہے کہ ان کے ساتھ پہلے کام کر چکے گجرات کیڈر کے یہ افسر کچھ خاص ہیں۔انڈین ایڈمنسٹریشن سروس کے کچھ منتخب افسر ہیں۔ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ گجرات کے وزیراعلیٰ کے طور پر مودی کے ساتھ کام کر چکے ان افسروں کو مرکزی حکومت اور وزیر اعظم دفتر میں اونچا عہدہ ملا ہے۔
اس میں سب سے اوپر مالیاتی سکریٹری ہنس مکھ ادھیا کا نام آتا ہے۔ گزشتہ سات مئی کو پی کے سنہا کو دوسری بار ذمہ داری ملنے سے پہلے تک وہ کابینہ سکریٹری بننے کی دوڑ میں پہلی پسند تھے۔ ادھیا کو لگتا ہے کہ اس کا اندازہ ہو گیا تھا اور وہ اچانک سے لمبی چھٹی (5 سے 20 مئی) پر چلے گئے۔ان کے جانے کے بعد وزارت خزانہ ایک طرح سے بنا کسی قیادت کے رہ گیا ہے کیونکہ وزیر خزانہ ارون جیٹلی کی کڈنی ٹرانسپلانٹ ہونے والا ہے اور وہ ہفتے میں دو بار ڈائلسس پر رہتے ہیں۔ادھیا اس وقت نظر میں آئے تھے جب دی وائر نے رپورٹ کیا کہ ان کے ریونیوسکریٹری رہتے ہوئے ان کو ایک ‘ انجان کاروباری ‘ کی طرف سے دیوالی کے تحفے کے طور پر سونے کے بسکٹ ملے تھے۔ ادھیا نے اس تعلق سے کسی بھی طرح کی جانچ نہیں کرائی تھی کہ ان کو کون متاثر کر رہا ہے اور کیوں؟ اس رپورٹ کے آنے کے بعد ادھیا نے واضح کیا تھا کہ کن حالات میں ان کو وہ بے نام تحفہ ملا تھا۔
وزیر اعظم نے ان پر اپنا بھروسا قائم رکھا اور جب جیٹلی بیمار پڑے تو ان کو ایک طرح سے وزارت خزانہ کی ذمہ داری ہی سونپ ڈالی۔حالانکہ پی کے سنہا کو دوبارہ موقع دینے سے یہ تو طے ہو گیا کہ آئی اے ایس کے دو بیچ سول سروس کے اس سب سے بڑے اور معزز عہدے تک نہیں پہنچ سکتے۔کابینہ سکریٹری کی دوڑ میں شامل ایک دوسرے افسر کا کہنا ہے، ‘ ایسا لگتا ہے کہ مودی اپنے خاص الخاص کو اپنے پاس رکھنے میں یقین کرتے ہیں جو ان کے تئیں پوری طرح سے وفا دار ہو۔ نوکرشاہی ایسے کام نہیں کرتی۔ اپنے خاص افسروں کے معاملے میں اصولوں کو طاق پر رکھ دینے سے تمام افسر غم زدہ ہیں۔ ‘
اب ذرا بات کر لیتے ہیں کچھ دوسرے ‘ گجرات کے مودی فائیڈ افسروں ‘ کی۔ ریتا تیوتیا فی الحال کامرشیل سکریٹری ہیں اور تپن رائے کارپوریٹ معاملوں کے سکریٹری۔ مودی نے وزیر اعظم دفتر (پی ایم او) میں بھی گجرات کیڈر کے افسر بھر دئے ہیں۔ ارویند کمار جوائنٹ سکریٹری کے عہدے پر ہیں۔ راجیو توپنو مودی کے نجی سکریٹری ہیں تو وہیں سنجےبھاوسر اور ہرین جوشی خصوصی افسر ہیں۔ان سب میں سب سے سینئر پی کے مشرا ہیں۔ 1972 آئی اے ایس بیچ کے افسر مشرا پی ایم او میں ایڈیشنل سربراہ سکریٹری ہیں۔ وہ کابینہ کی تقرری کمیٹی (اےسی سی) کا کام دیکھتے ہیں۔مودی حکومت کے سارے فیصلے پی ایم او تک محدود کر دینے کے بعد سے ان کو پی ایم او کے سب سے طاقتور افسر مانا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ سینئر وزیر بھی مشرا سے ڈرتے ہیں۔ ان کو مودی کا ‘ دوت ‘ مانا جاتا ہے۔
اب گجرات کیڈر کے دوسرے طاقت ور افسروں پر بھی ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔ انیتا کاروال سی بی ایس ای کی سربراہ ہیں اور اسیم کھرانا ایس ایس سی کے چیئر مین ہیں۔ انیتا کاروال کے سی بی ایس ای سربراہ رہتے ہوئے 10ویں اور 12ویں کے پیپر لیک ہوئے تو وہیں کھرانا کے چیئر مین رہتے ہوئے ایس ایس سی کے پیپر لیک ہوئے۔ان پیپر لیک ہونے کے خلاف ملک بھر میں غصہ بھڑکنے کے باوجود ان ‘ مودی فائیڈ افسروں ‘ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی کیونکہ ان سے متعلق وزارتوں کو پتا ہے کہ یہ گجرات کیڈر کے ‘ خاص چنے ہوئے ‘ افسر ہیں جن کے سیدھے تعلقات وزیر اعظم مودی سے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے اب تک کی تاریخ میں سب سے متنازعہ رہنے والے اسپیشل الیکشن کمشنر اےکے جوتی بھی گجرات کیڈر کے ہی تھے۔ ان کی تقرری بھی نریندر مودی نے ہی کی تھی۔ اےکے جوتی کی سرگرمی ان کو عدلیہ کی چوکھٹ تک بھی لے گئی۔گجرات کے مہارتھی کی فہرست یہیں ختم نہیں ہوتی۔ اس فہرست میں جی سی مرمو ایڈیشنل، سیکریٹری (مالی خدمات)، انل گوپی شنکر مکیم، سیکریٹری (کان کنی محکمہ)، راج کمار، سی ای او (ملازمین ریاستی بیمہ کارپوریشن)، اتانو چکرورتی، ڈائریکٹر جنرل (ہائیڈروکاربن) جیسے نام بھی شامل ہیں۔
گجرات کیڈر کے آئی پی ایس افسر بھی مودی حکومت کے اندر اپنے خوابوں کو پورا کر رہے ہیں۔ مودی حکومت نے گجرات کیڈر کے ان افسروں کو اپنی آنکھ کان بنایا ہوا ہے۔متنازعہ آئی پی ایس افسر مہ راکیش استھانا کو گزشتہ سال سی بی آئی کا اسپیشل ڈائریکٹر مقرر کیا گیا۔ اےکے پٹنایک کو نیشنل انٹلی جنس گرڈ کا سی ای او بنایا گیا اور پروین سنہا کو سی بی آئی کا جوائنٹ ڈائریکٹر۔مودی مانتے ہیں کہ جو افسر ان کے تئیں وفادار بنکر رہتے ہیں ان پر عوامی خدمات کے عام اصول نافذ نہیں ہوتے۔ سابق خارجہ سیکریٹری ایس جئے شنکر، جنہوں نے امریکی صدر براک اوباما کے دہلی آنے کا سارا انتظام دیکھا تھا اور نیویارک کے میڈسن اسکوائر میں مودی کے شاندار استقبال کا انتظام کیا تھا، کو لازمی طور سے دئے جانے والے ایک سال کے ‘ کولنگ پیریڈ ‘ سے راحت دے دی گئی تاکہ وہ ٹاٹا گروپ جوائن کر سکے۔
معلوم ہو کہ کسی نجی کمپنی سے جڑنے سے پہلے ضروری طور پر ایک سال کی یہ خدمت دینی ہوتی ہے۔ ایس جئے شنکر کو خارجہ سیکریٹری کے طور پر 2017 میں پہلے ہی ایک سال کا ایکسٹینشن دیا جا چکا تھا۔ انہوں نے اپنی یہ مدت مکمل ہونے کے کچھ ہی مہینے کے اندر ٹاٹا گروپ جوائن کر لیا۔کچھ افسر اس کو لےکر کافی مایوس ہیں کہ ایس جئے شنکر کے لئے اصولوں کو طاق پر رکھ دیا گیا۔ خاص طور پر تب جب یہ واضح تھا کہ ان کو ایک سال ایڈیشنل ذمہ داری دینے سے ان کے ماتحت خارجہ سیکریٹری نہیں بن پائیںگے۔ایک خار کھائے ہوئے ہندوستانی غیرملکی خدمات افسر نے کہا، ‘ ان اصولوں اور مدت کا کوئی مطلب نہیں رہ گیا ہے کیا؟ پھر تو مودی کو اعلان کر دینا چاہیے کہ ان کے چہیتے ہی سارے اعلیٰ عہدوں پر بیٹھیںگے۔ ‘
اصل میں نریندر مودی نے وزیر اعظم کا حلف لینے کے ساتھ ہی اپنی منشاصاف کر دی تھی۔ انہوں نے نرپیندر مشرا کو سربراہ سکریٹری بنانے کے لئے آرڈیننس لے آیا تھا اور صاف کر دیا تھا کہ کوئی بھی نوکری یافتہ افسر ان کے سربرآوردہ سکریٹری بننے کے قابل نہیں ہے۔اس کے بعد سبکدوش آئی پی ایس افسر اجیت ڈوبھال کو قومی سلامتی صلاح کار بنایا گیا۔ ‘ تاریخی نگا سمجھوتے’ سے لےکر پٹھان کوٹ میں حملے کے بعد پاکستانی انٹلی جنس سروس کو بلانے تک کے فیصلوں میں انہوں نے بہت سی غلطیاں کی۔
نیپال کو دشمن ثابت کرنے، جوہری فراہم کنندہ گروپ سے جڑنے کے لئے خوب شورشرابے کے ساتھ شروع کیا گیا ورلڈ ٹور جو ناکام ثابت ہوا اور جموں و کشمیر میں تحفظ سے متعلق مسئلے کو صحیح سے نہیں سنبھال پانے سے لےکر ابھی حال میں ڈوکلام کے مسئلے پر تکرار ڈوبھال کی ناکامی کی کہانی بیاں کرتے ہیں۔ لیکن اس میں سے کسی کا بھی داغ ان کے سر نہیں گیا۔ مانو ان کی کوئی جوابدہی ہی نہیں ہے۔افسروں کا کہنا ہے کہ چین اور پاکستان کے ساتھ تعلق کھٹاس آنے کے لئے اہم طور پر ڈوبھال ذمہ دار ہیں لیکن اپنی وفاداری کی وجہ سے وہ وزیر اعظم کے خاص بنے ہوئے ہیں۔
پولیس خدمات سے سبکدوش ہونے کے بعد ڈوبھال نے وویکانند فاؤنڈیشن کی ذمہ داری سنبھالی تھی جو کہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سے جڑا ہوا ادارہ ہے۔ منموہن سنگھ کی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے والی انا تحریک کے پیچھے بھی اسی کا ہاتھ مانا جاتا ہے۔مانا جاتا ہے کہ مودی جب گجرات کے وزیراعلیٰ تھے تب سے ڈوبھال کئی اہم معاملوں میں ان کو صلاح دیتے رہے ہیں۔ غیر رسمی طور پر وہ گجرات میں مودی کے ساتھ بھی تھے۔
ان کا بیٹا بہادری ڈوبھال بی جے پی کے قومی جنرل سکریٹری رام مادھو کے ساتھ ساجھے داری میں انڈیا فاؤنڈیشن نام کا ادارہ بھی چلاتا ہے۔ وزیر دفاع نرملا سیتارمن، ریل وزیر پییوش گوئل اور سریش پربھو، جینت سنہا، ایم جے اکبر جیسے وزیر اس ادارہ کے ڈائریکٹر ہیں۔مودی اپنے وفا دار نوکرشاہوں کا ساتھ دینے کے لئے جانے جاتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بھلےہی ادھیا کابینہ سکریٹری بننے سے چوک گئے ہوں، لیکن مودی نے شرد کمار کی طرح ہی ان کے لئے پی ایم او میں پہلے سے ہی جگہ بناکر رکھی ہوئی ہے۔
ایسا ہو سکتا ہے کہ نیشنل جانچ ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل عہدے سے اپنا معاہداتی میعاد پورا کرنے کے بعد شرد کمار کو نیشنل ہیومن رائٹ کمیشن کا ممبر بنا دیا جائے۔ حالانکہ سینئر افسروں کا ماننا ہے کہ ایسے حساس عہدے اس طرح سے معاہداتی بنیاد پر نہیں دئے جانے چاہیے لیکن اس طرح کے اصول اونچے عہدوں پر بیٹھے ‘ مودی فائیڈ ‘ افسروں پر کہاں نافذ ہوتے ہیں۔
Categories: فکر و نظر