نرمل سنگھ کتنی آسانی سے فوج کے اعتراض کو سیاسی ارادے سے کیا گیا بتا دیتے ہیں۔ فوج پر ہی لوگوں کو پریشان کرنے کے الزام لگا دیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو فوج پر ذرا سا سوال کرنے پر آگ بگولہ ہو اٹھتے ہیں۔ گودی میڈیا کے گھوڑوں کو کھول دیتے ہیں کہ فوج کی بے عزتی ہو رہی ہے۔
جموں و کشمیر بی جے پی کے ٹاپ لیڈروں نے فوج کے گولہ بارود ذخیرے کی سرحد میں آنے والی زمین خرید لی ہے۔ اسمبلی کے اسپیکر اور حال تک نائب وزیر اعلیٰ رہے نرمل سنگھ، ان کی بیوی ممتا سنگھ، موجودہ نائب وزیر اعلیٰ کویندر گپتا نے ایک کمپنی کے ذریعے زمین خریدی ہے۔ یہ زمین جموں کے نگروٹا میں ہے۔ اصول ہے کہ فوج کے ذخیرے کے باہر ہزار گز کے گھیرے میں کوئی تعمیر نہیں ہو سکتی ہے کیونکہ دھماکے کی حالت میں خطرناک ہو سکتا ہے۔
انڈین ایکسپریس کے مزمل جلیل اور ارون شرما اس معاملے پر لگاتار انگریزی میں رپورٹ لکھ رہے ہیں۔ ہندی کے قاری اخبار کا دام ہی دیتے رہ جائیںگے مگر اس طرح کی خبریں کبھی نہیں ملیںگی۔ ایک آدھ مثال کی الگ بات ہے۔ 2014 میں 12 ایکڑ زمین خریدی گئی جس پر اسپیکر نرمل سنگھ گھر بنا رہے ہیں۔ اس کے خلاف فوج 16 کور کے کور کمانڈر لیفٹنٹ جنرل سرنجیت سنگھ نے خط لکھکر شدید اعتراض کیا ہے۔ 19 مارچ 2018 کو یہ خط لکھا گیا ہے۔ تب نرمل سنگھ نائب وزیر اعلیٰ ہی تھے لیفٹنٹ جنرل نے کہا ہے کہ نرمل سنگھ نے غیر قانونی طور پر تعمیر کیا ہے۔ اس سے نقصان پہنچ سکتا ہے۔
مزمل جلیل نے خط کا حصہ بھی چھاپا ہے جس میں لیفٹنٹ جنرل سرنجیت سنگھ لکھتے ہیں کہ کیا میں آپ سے دوبارہ غور و خوض کی گزارش کر سکتا ہوں کیونکہ گولہ بارود ذخیرے کے قریب رہائشی مکان بنانا تحفظ کے لحاظ سے بہت خطرناک ہو سکتا ہے۔ فوج مقامی انتظامیہ سے تعمیر روکنے کے لئے بار بار کہتی رہی مگر دھیان نہیں دیا۔ مجبور ہوکر جنرل سرنجیت سنگھ کو سیدھے نائب وزیر اعلیٰ نرمل سنگھ کو ہی خط لکھ دینا پڑا۔
نرمل سنگھ نے ایکسپریس سے کہا ہے کہ ان کی تعمیر پر سیاسی ارادے سے سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ مجھ پر کوئی قانونی روک نہیں ہے کہ میں وہاں تعمیر نہیں کر سکتا۔ فوج کی اپنی رائے ہے اور میں اس رائے سے مجبور نہیں ہوں۔ 2000 میں ہمگیری انفرا ڈیولپمنٹ پرائیویٹ لمیٹڈ نے یہ زمین خریدی۔ اس کمپنی میں موجودہ نائب وزیر اعلیٰ کویندر گپتا، بی جے پی رکن پارلیامان جگل کشور بھی حصےدار ہیں۔ اس کمپنی کو نرمل سنگھ کے نائب وزیر اعلیٰ اور توانائی وزیر رہتے چمبا میں پاور پروجیکٹ بھی ملا ہے۔ ہے نہ کمال کی بات۔
اخبار کا دعویٰ ہے کہ اس کمپنی میں نرمل سنگھ کی بیوی ممتا سنگھ کے بھی شیئر ہیں۔ وہ اس کمپنی میں ڈائریکٹر ہیں۔ جس کمپنی میں بی جے پی رہنماؤں کے شیئر ہیں اسی کمپنی کو پروجیکٹ ملتا ہے، وہی کمپنی فوج کی زمین کے قریب رہائشی تعمیر کے لئے زمین خریدتی ہے۔ ان سبھی کو جموں و کشمیر بینک نے نوٹس بھیجا ہے۔ کس لئے؟ اس لئے کہ اس کمپنی نے 29 کروڑ 31 لاکھ کا لون ڈیفالٹ کیا ہے۔ این پی اے ہو گیا ہے۔ اصول ہے کہ گولہ بارود ذخیرے کے 1000 گز تک آپ کوئی تعمیر نہیں کر سکتے مگر جنرل سرنجیت سنگھ نے اپنے خط میں نرمل سنگھ کو لکھا ہے کہ آپ نے قریب 580 گز کے اندر گھر بنا لیا ہے۔
نرمل سنگھ کی رائے بھی سامنے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈپو کے بغل میں ایک گاؤں بھی تو ہے۔ فوج نے وہاں دیوار بنا دی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ 1000 میٹر کے اندر نہیں بنا سکتے ہیں، میرا گھر اس کے اندر ہے، جیسے ہی بنانا شروع کیا، مخالفت ہونے لگی۔ یہ سیاسی ارادے سے ہو رہا ہے۔ فوج تو بیت الخلا بنانے نہیں دیتی۔ لوگ پریشان ہیں۔ یہ میری پراپرٹی ہے اور اس پر میرا حق ہے کہ کیسے استعمال کروں۔
نرمل سنگھ کا کہنا ہے کہ فوج مقامی لوگوں کو پریشان کر رہی ہے، اس کی جانکاری وزیردفاع کو بھی دی ہے۔ اس کا مطلب وزیر دفاع اس تنازعے سے آشنا ہیں۔نرمل سنگھ کتنی آسانی سے فوج کے اعتراض کو سیاسی ارادے سے کیا گیا بتا دیتے ہیں۔ فوج پر ہی لوگوں کو پریشان کرنے کے الزام لگا دیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو فوج پر ذرا سا سوال کرنے پر آگ بگولہ ہو اٹھتے ہیں۔ گودی میڈیا کے گھوڑوں کو کھول دیتے ہیں کہ فوج کی بے عزتی ہو رہی ہے۔
وہ یہ نہیں بتا رہے ہیں کہ جس کمپنی کی ڈائریکٹر ان کی بیوی ہے، اس میں موجودہ ڈپٹی سی ایم بھی ڈائریکٹر ہیں، اس کو پاور پروجیکٹ کیسے ملا، کیا کچھ بھی اخلاقیات نہیں بچی ہے۔نرمل سنگھ کا کہنا ہے کہ پاور کمپنی 15 سال پہلے شروع کی تھی۔ بعد میں توانائی وزیر بنا، نائب وزیر اعلیٰ بنا۔ اس میں مفادات کا ٹکراؤ نہیں ہے۔ کمال ہے۔ توانائی وزیر بنکر اس کمپنی کو پروجیکٹ دینے میں ان کو کچھ بھی غلط نہیں لگتا جس کی ڈائریکٹر ان کی بیوی ہیں اور ایک ڈائریکٹر نائب وزیر اعلیٰ۔
اسپیکر نرمل سنگھ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اس علاقے میں فوج کا گولہ بارود ذخیرہ ہی نہیں ہونا چاہیے۔ تو بی جے پی کے رہنما طے کریںگے کہ فوج کو اپنا ذخیرہ کہاں بنانا چاہیے۔ کوئی اور یہ بات کہہ دیتا تو گودی میڈیا دنگا فساد مچا دیتا۔انڈین ایکسپریس کے مزمل جلیل نے اس پر تین رپورٹ کی ہے۔ میں نے ساری باتیں نہیں لکھی ہیں۔ آپ ان تینوں رپورٹ کو پڑھیے۔ فوج کو لےکر ہمیشہ حساس رہنے والے چینل اس معاملے پر خاموش رہیںگے کیونکہ وہ جس آقا کی گود میں ہیں، اس کو چبھنے والی اسٹوری کیسے کر سکتے ہیں۔ اتنا تو آپ عقلمند ہیں ہی۔
Categories: فکر و نظر