عرب نامہ :پچھلے ہفتہ مشرق وسطی کی میڈیا میں لبنان کے انتخابی نتائج، عراق میں الیکشن اور شام میں ایرانی ٹھکانوں پر اسرائیل کا میزائل حملہ بڑی خبریں رہی، جب کہ خلیجی میڈیا میں ایران نیوکلیر معاہدہ سے امریکہ کی علاحدگی اور ایران پر پہلے سے زیادہ سخت پابندیاں عائد کیےجانے چرچا رہا ۔
“اخبار الخلیج ” نے 9 مئی کے شمارہ میں امریکہ کے ایران نیوکلیر معاہدہ سے علاحدگی اور ایران پر پہلے سے زیادہ سخت پابندیاں عائد کیے جانے کی شہ سرخی خبربنایاہے اور امریکی صدر ڈونالڈٹرمپ کا یہ بیان شائع کیا ہےکہ یہ ڈیل ایرانی مفاد کے تحفظ کےلیے تھا ،جس سے کوئی امن نہیں حاصل ہوا ، اور اس ڈیل کی منسوخی سے امریکہ زیادہ محفوظ ہوجائےگا۔
ٹرمپ نے کہا کہ اس معاہدہ کی وجہ سے ایران کو یورانیم افزودگی کی اجازت ملی ہوئی تھی، اور وہ نیوکلیائی ہتھیارحاصل کرنے کے مشن کے قریب پہنچ چکا ہے ۔ اس تباہ کن ڈیل کی وجہ سے دہشت گرد ایرانی حکومت کو لاکھوں ڈالر حاصل ہوئے، اور اگر یہ معاہد ہ جاری رہا تو مشرق وسطی میں نیوکلیر ریس(race) شروع ہوجائے گا، اس معاہدہ کی وجہ سے خطہ میں ایران کے انتشار پھیلانے اور دہشت گردی کے تعاون کی سرگرمیوں پر بھی روک نہیں لگ سکی ۔اخبار کے مطابق صدر ٹرمپ نے یہ وارننگ بھی دی کہ ” جو ملک بھی ایران کو نیوکلیائی ہتھیار کے حصول میں مدد کرے گا ، امریکہ اس ملک پر سخت قسم کی پابندیا ں عائد کرے گا”۔
الاهرام اور دیگر اخبارات نے خلیجی تعاون کونسل (Gulf Cooperation Council) کےامریکی فیصلہ کو خوش آئند قرار دینے کی خبر کو شائع کیا ہے ،اخبار کے مطابق جی سی سی کے جنرل سیکریٹری عبداللطیف زیانی نے 9 مئی 2018 کو امریکہ کے ایران نیوکلیر ڈیل سے الگ ہونے اور پابندیاں بحال کرنے کے فیصلہ پر خوشی کا اظہار کیا ہے، جنرل سیکریٹری نے امریکی صدر کے فیصلہ کو ایک جری قدم (Bold Step) بتاتے ہوئے کہا کہ اس فیصلہ سے صدر ٹرمپ کی یہ خواہش جھلکتی ہے کہ وہ مشرق وسطی کو نیوکلیر اسلحوں سے خالی دیکھنا چاہتے ہیں، انہوں نے انٹرنیشنل کمیونٹی (International Community) کو امریکہ کے اس ہوشمندانہ فیصلہ میں ساتھ دینے کی دعوت دی تاکہ عالمی امن اور سلامتی کا تحفظ ہوسکے۔
بحرین، سعودی عربیہ اورمتحدہ عرب امارات نے بھی امریکی صدر کےفیصلہ کو سراہا اور یہ کہا اس سے ایرانی سیاست کے تعاقب کے تئیں امریکی عزم کا پتہ چلتا ہے، دوسری طرف عرب لیگ نے ایرانی نیوکلیر معاہدہ میں نظرثانی کے فیصلہ کی تائید کی۔ جب کہ یورپی یونین نے امریکی صدر کے اس فیصلہ پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
عراقی الیکشن کا چرچا بھی اخباروں میں خوب ہوا ، متحدہ عرب امارات سے شائع ہونےوالے اخبار ” البیان” کی رپورٹنگ کچھ اس طر ح ہے عراق میں شدت پسند جماعت داعش کی شکست کے بعد پہلے عام انتخابات کے لیے پولنگ جاری ہے۔لاکھوں عراقیوں نے 12 مئی بروز سنیچر ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لیا، 2003 میں امریکی قبضہ کے بعد سے یہ یہ چوتھا الیکشن ہے اس الیکشن میں پہلی بار الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال ہورہا ہے جس میں گڑبڑی کے شکایتیں جگہ جگہ سے موصول ہوئی، صبح ساتھ بجے پولنگ کے مراکز کھل چکے تھے اوراس بار الیکشن میں ووٹ دینے کے اہل عراقیوں کی تعداد 2 کڑور 43 لاکھ تھی، 18 صوبوں میں 7919 پولنگ بوتھ بنائے گئے تھے، اس الیکشن میں 87 سیاسی گروپوں اور اتحاد نے 329 نشستوں کے لیے 6898 امیدواروں کو میدان میں اتارا۔ انتخابات میں عراق کے وزیراعظم حیدر العبادی اور سابق وزیراعظم نوری المالکی کے علاوہ 2008 میں سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش پر جوتا پھینکنے والے صحافی منتظر الزیدی بھی حصہ لے رہے ہیں۔
اخبار کے مطابق سیاسی مبصرین موجودہ وزیر اعظم حیدر العبادی کو ان کے حریفوں کے مقابلے میں سبقت دے رہے ہیں ، لیکن ان کی کامیابی بھی پکی نہیں مانی جارہی ہے۔ یورپین تنظیم برائے آزادی عراق نے الیکشن میں ایرانی مداخلت سے باخبر رہنے کےلیے کہا ہے کہیں ایران اپنے پسندیدہ نمائندوں کی کامیابی پیسے کے بل پر نہ حاصل کرلے، تنظیم نے مزید کہا کہ صافو و شفاف اورجمہوری الیکشن کے لیے ایرانیوں کی عراق سے واپس اور تمام سیاسی، اقتصادی اور امنی اداروں سے ایرانی تسلط کا خاتمہ ضروری ہے ۔
5 تا 12 مئی 2018 کے دوران استنبول بلدیہ نے پہلا عرب صحافتی فورم کا انعقاد کیا ، جس میں 18 عرب ملکوں سے پچاس سے زائد صحافیوں نے شرکت کی ، اسی فورم پرگفتگو کرتے ہوئے ترکی کے وزیر خارجہ مولود جاویش اوغلونے کسی ملک کا نام لیے بغیر کہا ایک عرب ملک ہے جو ترکی مخالف فضا ہموارکرنے میں بنیاد ی کردار ادا کررہا ہے اور ترکی اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات خراب کرنے میں مصرو ف ہے، انہوں یہ بھی کہا یہ ملک تعلقات عامہ(Public Relations) کمپنیوں اور یورپین میڈیا تنظیموں کو ترکی کے خلاف کام کرنے کےلیے پیسے دیتا ہے اور 2016 کے درمیان میں جس ناکام انقلاب کی کوشش ہوئی تھی ، اسی ملک نے اس کے لیے ادائیگی کی تھی۔ترک وزیرخارجہ نے عرب صحافیوں سےگفتگو کے دوران کہا ایک سابق فلسطینی رہنما محمد دحلان کے ذریعہ فتح اللہ گولن جماعت کے انقلابیوں تک پیسے پہنچائے گئے۔ واضح رہے کہ محمد دحلان 207 سے غزہ سے نکلنے کے بعد سے ابوظبی کے ولی عہد شیخ محمد بن زاید کے مشیر کے طور پر کام کرررہےہیں اور ان کا نام بہت سے متنازع فیہ مسئلوں کے ضمن میں آچکا ہے ۔
الجزیرہ کے مطابق ترک وزیر نے سوالیہ انداز میں کہا کہ دوبارہ دحلان کا نام کس نے فلسطینی سیاست کے لیے آگے بڑھایا جب کہ ان کی تاریخ اوران کےکاموں کا علم سب کو ہے ، انہو نے کہا کہ ترکی کی خواہش ہے کہ حماس اورفتح میں اتحاد ہو جب کہ ایک خاص عرب ملک اختلافات کو بڑھاوا دے رہا ہے اور اپنے آدمی کو صدارات کےلیے آگے کررہا ہے۔ ترک وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ ان کے ملک کی خارجہ پالیسی بنیادی اصولوں پر مبنی ہے اور جو ان کے ملک کو صحیح یا غلط لگتا ہے اس پر ان کا ملک صاف گوئی سے کام لیتا ہے اور اسی صاف گوئی سے بعض لوگوں کو پریشانی ہوتی ہے، اسی صاف گوئی اصول کے تحت ہم نے قطر کے محاصرہ کو غلط قرار دیا تھا لیکن یہ محاصرہ اگر کسی اور عرب ملک کے خلاف بھی ہوتا توہمارا موقف وہی ہوتا ۔
Categories: خبریں