جس طرح زراعتی شعبے میں قرض سے بڑھتی کشیدگی نے کسان خودکشی کا مسئلہ پیدا کیا، اسکولی تعلیم میں امتحانات اور میرٹ کے دباؤ نے اسکولی طالب علموں میں خودکشی کے رجحان کو جنم دیا، ذہنی دباؤ کی اسی کڑی میں حکومت نے کالج اور یونیورسٹی کے طالب علموں اور اساتذہ کو جھونکنے کی تیاری کر لی ہے۔
پچھلے کچھ وقت سے ملک بھر میں استاد اور طالب علم تعلیم کے شعبے میں معیار کے نام پر Privatization کی طرف ہو رہے جھکاؤ کی مخالفت میں سڑکوں پر ہیں۔ ایسی آواز دہلی یونیورسٹی، جےاین یو، کیرل، تمل ناڈو، اڑیسہ، آندھر پردیش، مہاراشٹر جیسی ریاستوں کی الگ الگ یونیورسٹی میں بھی ابھر رہے ہیں۔نوجون طلبہ و طالبات کا غصہ ملک بھر میں اپنی انتہا پر ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے، اور وہ کیا ہے جس کے خلاف اتنے سارے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مخالفت کی لہر دوڑ گئی ہے؟
جس طرح زراعتی شعبے میں قرض سے بڑھتی کشیدگی نے کسان خودکشی کے رجحان کو جنم دیا، اسکولی تعلیم میں امتحانات اور میرٹ کے دباؤ نے اسکول کے طالب علموں میں خودکشی کے اسی رجحان کو پیدا کیاہے، ابھی ذہنی تناؤ کی اسی کڑی میں کالج اور یونیورسٹی کے طالب علموں اور اساتذہ کو جھونکنے کی تیاری حکومت کی ہے۔جس طرح کی نئی پالیسیاں حکومت نافذ کر رہی ہیں اس کا نتیجہ ہوگا کہ جلد ہی اعلیٰ تعلیمی ادارے علم حاصل کرنے کی جگہ نہیں رہ جائیں گے اور پریشر کوکر کی طرح کام کریںگے۔
غور طلب ہے کہ ہندوستان میں ہرایک گھنٹے میں ایک طالب علم خودکشی کرتا ہے، اور ایسے کشیدگی بھرے ماحول میں یونیورسٹی اور کالج میں بھی ذہنی تناؤ کی صورتِ حال بےحد تباہ کن ہو سکتی ہے۔ حال ہی میں نافذ تین پالیسیاں اسی سمت میں اٹھایا گیا قدم ہے۔پہلے پے کمیشن میں 70:30 کا فارمولا جس کے مطابق تنخواہ میں اضافے کا تیس فیصد خرچ یونیورسٹی اپنے بجٹ سے برداشت کریںگی۔ دوسراگریڈیڈ آٹونومی اور تیسری یونیورسٹی کو اب امداد کے بجائے حکومت کے قرض دینے کی اسکیم۔
ان تینوں پالیسی کی بنیاد میں ایک اور اہم پالیسی ہے جو کچھ سال پہلے نافذ کی گئی اور اس کو اسکولی تعلیم میں میرٹ لسٹ کی طرح دیکھا جا سکتا ہے اور وہ ہے کالج اور یونیورسٹی کی رینکنگ۔ان سب پالیسیوں کی بنیاد میں دو اصول ہیں : پہلا، سرکاری تعلیمی نظام نجی شعبے کی طرح ہونی چاہیے، مہنگی اور محدود۔ اور دوسرا سرکاری تعلیمی اداروں کو بازار کی کمپنی کی طرح ہونا چاہیے جس میں مقابلہ ہو۔پہلی تینوں پالیسیاں، جس میں 70:30 فارمولا، گریڈیڈ آٹونومی اور امداد کے بجائے قرض کی اسکیم اور اعلیٰ تعلیمی قرض ایجنسی کی تشکیل وغیرہ شامل ہیں، پہلے اصول سے پیدا ہوئے ہیں۔ رینکنگ اور گریڈنگ کا نظام دوسرے اصول سے جڑا ہے۔
اس کے ساتھ ہی اہم حقیقت یہ بھی ہے کہ پالیسیوں کے ذریعے حکومت آہستہ آہستہ اعلیٰ تعلیم سے اپنا ہاتھ کھینچ رہی ہے۔ پچھلے چار سالوں میں تعلیم پر بجٹ اور اس میں بھی اعلیٰ تعلیم پر خرچ لگاتار کم ہوتا گیا ہے۔اسکالر شپ سے بھی بجٹ آہستہ آہستہ کھسک رہا ہے۔ یونیورسٹی کو طالب علموں سے لئے گئے پیسوں سے ہی نئے نصاب شروع کرنے کو کہا جا رہا ہے۔ اسی طرح بنیادی سہولیات کے لئے بھی حکومت کا خرچ لگاتار کم ہو رہا ہے۔استاد کی تقرری کو لےکر بھی حکومت کے ذریعے اب یونیورسٹی اور کالجوں کو کانٹریکٹ اسٹاف کو بڑھاوا دینے کو کہا جا رہا ہے۔ گریڈیڈ آٹونامی کے نام پر اس ٹھیکے کے نظام کو مستقل بنا دیا گیا ہے۔
70:30 فارمولا کا سیدھا نتیجہ ہوگا کہ تعلیمی ادارہ اپنا خرچ سیدھے طالب علموں سی اونچی فیس وصولکر نکالیںگی۔ اسی طرح گریڈیڈ آٹونومی میں سرکاری تعلیمی اداروں کو اپنی مرضی کے مطابق فیس رکھنے کا حق ہوگا۔خاص بات یہ ہے کہ یہ پالیسیاں تعلیمی نظام میں معیار کے نام پر نافذ کی جا رہی ہیں۔ اس طرح کی نظام سے جہاں غریب دیہی کسان ماحول سے آنے والے طالب علموں اور ان کے ماں باپ کو قرض سے دبانے کی تیاری ہے، وہیں شہری متوسط طبقہ کو بھی معیار کے لالچ میں پرائیویٹ فائننس کمپنیوں کے ہاتھوں بیچنے کی تیاری ہے۔
یعنی قرض والی اقتصادی تناؤ میں اگر کوئی کسر برباد ہوتی زراعت اور بچے کی کوچنگ کے بعد بھی باقی ہو تو اس کو بھی نئی اعلیٰ تعلیمی پالیسی نے پورا کرنے کی ٹھان لی ہے اور وہ بھی معیار کے پردے کے پیچھے۔ پرائیویٹ شعبے کے تعلیمی ادارہ جہاں ایک طبقہ خاص کے طالب علم پڑھ سکتے ہیں، سرکاری تعلیمی ادارہ معیار اور تنوع کو ایک ساتھ رکھکر چلتی ہیں۔آخر ملک کے وزیر اعظم سے لےکر وزیر خزانہ تک بہترین علاج کے لئے ایمس جیسے سرکاری میڈیکل ادارے میں ہی جاتے ہیں۔ اسی طرح ملک کے بہترین تعلیمی اداروں میں سرکاری کالجوں اور یونیورسٹیوں کا ہی نام ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی معیار کی مثال پرائیویٹ شعبے کے طور پر ہی دی جاتی ہے۔
ان سب تبدیلیوں کے ذریعے لگاتار اساتذہ اور طالب علموں پر ایک ذہنی دباؤ کی حالت بنائی جا رہی ہے۔ ان پالیسی عدم استحکام کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں کے ایڈمنسٹریشن کے کام کرنے کا ڈھنگ بےحد خطرناک ہے۔ اس کا اہم مقصد یونیورسٹی کمیونٹی میں آپسی اعتماد، عزت اور مساوات کی حوصلہ افزا ئی کرنا نہیں بلکہ پھوٹ، عدم اعتماد، جانبداری اور آپسی شکوک کو بڑھاوا دینا ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے یونیورسٹی انتظامیہ کسی جلدی میں ہو کہ فوراً کچھ نیا کر ڈالیں۔ اس میں اگر تعلیمی اداروں کا سماجی کردار بدل جائے یعنی اگر اس میں غریبوں، دلتوں، آدیواسیوں یا خواتین کو کوئی مقام نہ بھی ملے توبھی ٹھیک ہے۔ اور اگر اس پر کوئی آواز اٹھائے تو اس کو تادیبی کاروائی کے تحت موٹی فیس سے لےکر عدالت اور پولیس اسٹیشن تک بھیجنے کی تیاری ہے۔
ہندوستان میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کو بےشمار سماجی اوراقتصادی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کالج تک پہنچتے-پہنچتے اور یونیورسٹی تک تو یقینی طور پر ہی فیملی میں اقتصادی مدد کی بھی توقعات ہوتی ہیں۔ طالب علم نوکری کرتے ہیں اور تعلیم بھی لیتے ہیں اور اپنے چھوٹے بھائی-بہنوں کی پڑھائی اور مریض ماں باپ کا خرچ اٹھاتے ہیں۔یہ نجی تعلیمی اداروں کے طالب علموں کی طرح نہیں ہو سکتے، جہاں ایک طالب علم کا جیب خرچ سرکاری تعلیمی ادارے کے کسی طالب علم کے مہینے کے خاندانی خرچ سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔ نئی تعلیم پالیسی جس طرح کی کشیدگی کو پیدا کر رہی ہے، اس کا ذہنی خمیازہ طالب علموں اور اساتذہ کو ہی نہیں ان کے اہل خانہ کو بھی بھگتنا ہوگا۔
(سدھیر کمار ستھار جے این یو ٹیچرس ایسوسی ایشن کے سکریٹری ہیں۔)
Categories: فکر و نظر