کسان تحریک کے دباؤ میں وزیراعلی وسندھرا راجے نے قرض معافی کا اعلان تو کر دیا، لیکن اس پر عمل کرنے کے لئے ضروری 8 ہزار کروڑ روپے کی رقم جٹانے میں حکومت ناکام ہو رہی ہے۔
گزشتہ سال ستمبر میں راجستھان کی وسندھرا راجے حکومت کے لئے گلے کا پھانس بنے کسان تحریک سے نپٹنے کے لئے وزیراعلیٰ نے بجٹ میں کسانوں کا قرض معاف کرنے کا اعلان تو کر دیا، لیکن اس پر عمل کرنے میں حکومت کو پسینہ آ رہا ہے۔ غور طلب ہے کہ وزیراعلیٰ راجے نے 12 فروری کو اپنی حکومت کے آخری بجٹ میں کسانوں کا 50 ہزار روپے تک کا قرض معاف کرنے کا اعلان کیا تھا۔ انتخابی سال میں اس طرح کا اعلان فطری تھا، لیکن اس پر عمل کرنے میں حکومت ناکام ہو رہی ہے۔
دراصل،حکومت کو اعلان پورا کرنے کے لئے کل 8 ہزار کروڑ روپے چاہئے۔ پہلے سے ہی تنگی سے جوجھ رہی ریاستی حکومت کے لئے اتنی بڑی رقم جٹانا ٹیڑھی کھیر ثابت ہو رہی ہے۔ مالیاتی محکمہ نے بمشکل دو ہزار کروڑ روپے کی ذمہ داری اٹھانے کی حامی بھری ہے۔حکومت باقی 6 ہزار کروڑ روپے کا انتظام اپیکس بینک (ریاست کا سب سے بڑا کوآپریٹو بینک) کے ذریعے کرنے کی جدو جہد کر رہی ہے، جس کی خود کی مالی حالت خستہ ہے۔ بینک کے پاس نہ تو اتنی جمع پونجی ہے اور نہ ہی اس کو کہیں سے قرض مل رہا ہے۔
حکومت کو پہلے امید تھی کہ اپیکس بینک کو قومی زراعتی اور دیہی ترقی بینک (نابارڈ) اور نیشنل کوآپریٹیو ڈیولپمینٹ کارپوریشن(این سی ڈی سی) آسانی سے قرض مل جائےگا، لیکن کسانوں کی قرض معافی کے لئے یہ دونوں ایک روپیہ ادھار دینے کو تیار نہیں ہیں۔ جبکہ ریاست کے کوآپریٹو وزیر اجئے سنگھ کلک لگاتار یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ نابارڈ اور این سی ڈی سی سے آسانی سے قرض مل جائےگا۔
اب وہ کہتے ہیں،حکومت طے وقت میں کسانوں کا قرض معاف کر دےگی۔ جلدہی ضروری رقم کا انتظام ہو جائےگا۔ ‘ قابل ذکر ہے کہ حکومت کسانوں کو ایک جون سے قرض معافی کے سرٹیفکیٹ بانٹنے کا اعلان کر چکی ہے۔ ذرائع کے مطابق اس کے لئے گاؤں گاؤں میں جلسے منعقد کئے جائیںگے۔ ایسے میں بڑا سوال یہ ہے کہ جو حکومت تین مہینے سے زیادہ وقت میں کسانوں کی قرض معافی کے لئے ضروری رقم نہیں جٹا پائی وہ چند دنوں میں اس کا انتظام کیسے کر لےگی۔
حیران اور پریشان کرنے والی بات یہ ہے کہ نیشنلائزڈ بینک بھی کسانوں کی قرض معافی کی مدد میں قرض دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اپیکس بینک کے افسر تقریباً تمام بینکوں سے رابطہ کر چکے ہیں، لیکن کہیں سے بھی کامیابی نہیں مل رہی۔اگر اپیکس بینک کو قرض مل بھی جاتا ہے تو اس سے حکومت کا اعلان تو پورا ہو جائےگا، لیکن اس سے بینک کا اقتصادی ڈھانچہ پوری طرح سے چرمرا جائےگا۔ اس کو نہ صرف گزشتہ سال ربی کے لئے نابارڈ سے لئے 6 ہزار کروڑ روپے کے قرض کو اسی سال جون تک چکانا ہے، بلکہ خریف کی بوائی کے لئے کسانوں کو تقریباً 10 ہزار کروڑ روپے کا قرض بھی بانٹنا ہے۔
حالانکہ کسانوں کی قرض معافی کے لئے جو قرض لیا جائےگا اس کو چکانے کا وعدہ حکومت کر رہی ہے۔ اگر حکومت ایسا نہیں کر پائے تو ریاست کی کوآپریٹو بینکوں کی حالت پست ہونا طے ہے۔سابق وزیراعلیٰ اشوک گہلوت اس پوری حالت کے لئے ریاستی حکومت کو ذمہ دار مانتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں،وسندھرا راجے جب جب اقتدار میں ہوتی ہیں وہ یہ لگاتار کہتی ہیں کہ کانگریس نے ریاست کا سرکاری خزانہ خالی کر دیا جبکہ خزانے کو ان سے زیادہ برباد ریاست میں آج تک کسی نے نہیں کیا۔ واہ واہی لوٹنے کے لئے انہوں نے کسانوں کا قرض معاف کرنے کا اعلان تو کر دیا، لیکن اب حکومت کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ کسی بھی حکومت کی امیج اس سے زیادہ خراب کیا ہوگی کہ مالیاتی محکمہ کی طرف سے گارنٹی دینے کے بعد بھی اپیکس بینک کو کوئی قرض نہیں دے رہا۔ ‘
حالانکہ صوبے کے کوآپریٹو وزیر اجئے سنگھ کلک گہلوت کے الزامات سے اتفاق نہیں رکھتے۔ وہ کہتے ہیں،اعداد و شمار اس بات کے گواہ ہیں کہ اشوک گہلوت حکومت نے سرکاری خزانے کو خالی کر کے ہمیں اقتدار سونپی تھی۔ ہمارے دورحکومت میں ریاست کی اقتصادی حالت پہلے سے بہت بہتر ہوئی ہے۔ ‘کسانوں کی قرض معافی کے لئے رقم کے انتظام میں آ رہی دقتوں پر کلک کہتے ہیں،یہ دقت نہیں، بلکہ نارمل پروسس ہے۔ ایسا ہونا عام بات ہے۔ مناسب راستے کا انتخاب کرنے میں وقت لگتا ہی ہے۔ جلدہی پوری رقم کا انتظام ہو جائےگا۔ ‘
ماہر اقتصادیات لکشمی نارائن ناتھورامکا سرکار کے کوآپریٹو وزیر کے دعووں سے متفق نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں،2013 میں حکومت کے ریزرو بینک کھاتے میں 13 ہزار کروڑ روپے تھے، جو فی الحال 24 کروڑ روپے رہ گئے ہیں۔ ریاست کی نان ٹیکس ریونیو تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ حکومت پر 3 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کا قرض ہو چکا ہے۔ اس حساب سے جائیدادیں نہیں بڑھی ہیں۔ حکومت کے قرض لینے کی ایک حد ہوتی ہے۔ اس مالی سال میں حکومت 25 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ قرض نہیں لے سکتی۔ اپیکس بینک جو قرض لینا چاہتا ہے اس میں حکومت گارنٹی دے رہی ہے۔ پھر بھی دقت آ رہی ہے۔ ‘
اس حالت سے کسان رہنما بھی تذبذب میں ہیں۔ گزشتہ سال ستمبر میں سیکر میں کسان تحریک کی رہنمائی کرنے والے امرارام کہتے ہیں،یہ تو پیاس لگنے پر کنواں کھودنے جیسی حالت ہے۔ حکومت کو کسانوں کو قرض معاف کرنے کا اعلان کرتے وقت سوچنا چاہئے تھا کہ اس کے لئے کتنی رقم کی ضرورت ہوگی اور اس کا انتظام کہاں سے ہوگا۔ حکومت کا خزانہ خالی ہونے کا بہانہ بناکر قرض معافی کو ٹالنا چاہتی ہے۔ اس خدشہ کی وجہ یہ ہے کہ حکومت نے ستمبر میں جو سمجھوتہ کیا تھا، اس سے وہ مکر چکی ہے۔ کسی بھی پوائنٹ پر قابل ذکر کام نہیں ہوا ہے۔ ‘
کسان رہنما رام پال جاٹ کو خدشہ ہے کہ کسانوں کی قرض معافی کے لئے خزانہ خالی ہونے کا بہانہ بنا رہی حکومت اس سال خریف کی فصل کے لئے ملنے والے قرض میں بھی کٹوتی کرےگی۔وہ کہتے ہیں،کیرل میں مانسون دستک دے چکا ہے۔ ریاست کے کسانوں نے خریف کی فصل کے لئے تیاری شروع کر دی ہے، لیکن حکومت قرض دینے میں آناکانی کر رہی ہے۔ گزشتہ سال اپریل تک کسانوں کو تقریباً 3 ہزار کروڑ روپے کا فصلی قرض ملا تھا، لیکن اس بار اب تک صرف 500 کروڑ روپے کا قرض بانٹا گیا ہے۔ ‘
(مضمون نگار جئے پور میں مقیم آزاد صحافی ہیں۔)
Categories: خبریں, گراؤنڈ رپورٹ