بہار سے گراؤنڈ رپورٹ : لاکھوں دَلہن کسان اپنی فصل کولاگت سے کم قیمت پر بیچنے کو مجبور ہیں۔
2014 کے لوک سبھا انتخاب کے دوران نریندر مودی نے کسانوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ملک میں نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) کی حکومت بنتی ہے تو کسانوں کو ملنے والی کم از کم امدادی قیمت(ایم ایس پی) میں تبدیلی کی جائےگی۔اپنی انتخابی تقریر میں انہوں نے کہا تھا، ‘ کسانوں کو کل پیداوار کے خرچ پر 50 فیصد فائدہ بڑھاکر ایم ایس پی طے کی جائےگی۔ اس سے نہ صرف کسانوں کو فائدہ ملےگا بلکہ کوئی بھی کسانوں کو لوٹ نہیں سکےگا۔ ‘
بی جے پی کے انتخابی منشور میں بھی وعدہ کیا گیا تھا کہ کسانوں کو سوامی ناتھن کمیشن کی سفارشوں کے مطابق ایم ایس پی قیمت سے 50 فیصد زیادہ فصل کی قیمت دی جائےگی۔اس سے ملک بھر کے کسانوں کو لگا تھا کہ بی جے پی کی حکومت بن جاتی ہے تو واقعی ان کے اناج کو اچھی قیمت ملےگی۔
مکمل اکثریت کے ساتھ 2014 میں مرکز میں نریندر مودی کی حکومت بنی، تو کسانوں میں نئی امید پیدا ہوئی تھی۔ ‘ دال کا کٹورا ‘ کہے جانے والا بہار کے مکامہ ٹال علاقے کے لاکھوں دَلہن کسان بھی مرکزی حکومت سے کچھ بہتر کی امید کر رہے تھے۔ لیکن، چار سال گزر جانے کے بعد بھی یہاں کے دال کسانوں کے اچھے دن نہیں آئے ہیں۔ الٹے ان کے لئے بازار سے دال کی پیداوار کا خرچ بھی نکالنا مشکل ہو رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں : بہار میں مودی کے جلسہ کے لئے دی تھی 35 ایکڑ فصل کی قربانی، کسانوں کو معاوضے میں چونی بھی نہیں ملی
دال کی مناسب قیمت دینے کی گزارش کرتے ہوئے یہاں کے کسانوں نے دو سال میں وزیر اعظم نریندر مودی کو آدھے درجن سے زیادہ خط بھیجے، لیکن وزیر اعظم کی طرف سے اب تک ایک بھی خط کا جواب نہیں آیا ہے۔مکامہ ٹال علاقہ میں واقع چنتامنی چک کے کسان بھویش کمار کہتے ہیں،مسور کی ایم ایس پی حکومت نے طے کی ہے 4250 روپے فی کوئنٹل، لیکن دال اگانے میں 5000 سے 5500 روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔ ‘
انہوں نے کہا، ‘ ہم لوگ پچھلے دو سال میں کم سے کم چھے خط وزیر اعظم نریندرمودی کو بھیج چکے ہیں، لیکن ایک بھی خط کا جواب انہوں نے نہیں دیا ہے۔ گزشتہ سال ایک پروگرام میں حصہ لینے کے لئے وزیر اعظم مکامہ آئے تھے۔ انہوں نے یہاں تقریر بھی کی، لیکن مکامہ ٹال اور کسان لفظ کا ذکر تک نہیں کیا۔ ‘
غور طلب ہے کہ پورے ہندوستان میں تقریبا 2.5 کروڑ ہیکٹیر میں دال کی زراعت ہوتی ہے۔ ان میں سے 106200 ہیکٹیر صرف مکامہ ٹال علاقے میں ہے۔ یہاں کی مٹی دال پیداوار کے موافق ہے اس لئے زیادہ تر کسان دلہنی فصلوں کی زراعت کرتے ہیں۔یہاں 70 فیصدی سے زیادہ خطےمیں مسور دال کی زراعت کی جاتی ہے۔ چنا اور دوسری دلہن فصلوں کی زراعت بہت کم کی جاتی ہے۔ کسانوں کے مطابق، ایک ہیکٹیر میں اوسطاً ڈیڑھ ٹن دال کی پیداوار ہوتی ہے۔
بھویش کے پاس 50 بیگھہ کھیت ہے۔ انہوں نے کہا کہ دال کی اچھی قیمت نہیں ملنے کی وجہ سے ان کو پچھلے دو سال میں چھے لاکھ روپے سے زیادہ کا نقصان ہو چکا ہے۔دراصل،یہاں کے کسانوں کا مسئلہ صرف ایم ایس پی تک ہی محدود نہیں ہے۔ دقت یہ بھی ہے کہ حکومت کسانوں سے دال خریدتی نہیں ہے۔ کسانوں کو کھلے بازار میں کاروباریوں کو دال بیچنا پڑتا ہے، لیکن کاروباری ایم ایس پی پر دال کی خریداری نہیں کرتے ہیں۔
بھویش کمار بتاتے ہیں،سرکاری خریداری سینٹرنہیں ہونے سے ہمیں مقامی کاروباریوں کو دال بیچنا پڑتا ہے۔ کاروباری 3200 روپے فی کوئنٹل کی قیمت سے دال لیتے ہیں اور ادائیگی دو تین مہینے کے بعد کرتے ہیں، جب دال بک جاتی ہے۔ ‘ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت ایم ایس پی 10 ہزار روپے بھی کر دے، توبھی ان کو زیادہ فائدہ نہیں ہونے والا، کیونکہ کھلے بازار میں دال خریدنے والے کاروباری ایم ایس پی دیتے ہی نہیں ہیں۔
مکامہ کے کسان راکیش کمار 50 بیگھہ میں زراعت کرتے ہیں۔ ان کو دو سال کی دال اس سال مجبور ہوکر کم قیمت پر بیچنی پڑی۔راکیش کمار کہتے ہیں، ‘ کاروباریوں سے اتفاق کرنا پڑا، تب جاکر 3500 روپے فی کوئنٹل کی قیمت سے انہوں نے دال خریدی۔ اس سال دال کی فروخت مجبوری تھی۔ اگر نہیں بیچتے تو گھر میں رکھی رکھی خراب ہو جاتی۔ اگر خراب نہیں بھی ہوتی، تو اس سال نئی دال کو رکھنے کے لئے جگہ نہیں ملتی۔ ‘وہ آگے بتاتے ہیں،لوک سبھا انتخاب کے وقت نریندر مودی نے کسانوں سے بڑے بڑے وعدے کئے تھے، لیکن زمینی سطح پر ان وعدوں کا کوئی اثر نہیں دکھ رہا ہے۔
راکیش کمار نے کہا، ‘ کوئی کمپنی اگر سوئی بھی بناتی ہے تو اس کی قیمت کمپنی خود طے کرتی ہے، لیکن محنت کرکے اناج پیداکرنے والے کسانوں کو اناج کی قیمت طے کرنے کا حق نہیں ہے۔ یہ حق حکومت اور بازار کو ملا ہوا ہے۔ اس سے ہی پتا چلتا ہے کہ کسانوں کی خبرلینے والا کوئی نہیں ہے۔ ‘ہاتھ دہ پنچایت کے مہیندرپور گاؤں کے کسان شیو کمار سنگھ نے کہا، ‘ گزشتہ سال سوچا تھا کہ دال کی اچھی قیمت ملنے پر ہی بیچوںگا، لیکن کچھ دن دال رکھنے پر کیڑا لگنے لگے، تو آناً فاناً میں 3200 روپے کوئنٹل کی قیمت سے مسور بیچنی پڑی۔ کیڑا لگنے سے کافی مسور برباد بھی ہو گئی۔ ‘
کسانوں کا کہنا ہے کہ 2015 تک ان کو دال کی ٹھیک ٹھاک قیمت ملی تھی۔ شیو کمار سنگھ کہتے ہیں، ‘ 2015 میں ہم نے کھلے بازار میں 5600 روپے فی کوئنٹل کی قیمت سے دال بیچی تھی، لیکن اس کے بعد دال کی قیمت جو گری، تو پھر نہیں اٹھی۔ اب تو حالت یہ ہو گئی ہے کہ دال خریدنے کے لئے کاروباریوں کے آگے ہاتھ پیر جوڑنا پڑتا ہے۔ پتہ نہیں مودی جی نے کیا کر دیا! ‘سرکاری خریداری مرکز کھولنے کو لےکر بھی یہاں کے کسان ریاست کے وزیراعلیٰ نتیش کمار سے لےکر تمام محکمہ کے وزیر اور افسروں کو کئی بار خط لکھ چکے ہیں۔ یہی نہیں، یہاں کے کسانوں نے کئی بار وزرا سے بھی ملاقات کی ہے، لیکن اب تک اس سمت میں کوئی فیصلہ نہیں لیا گیا ہے۔
لمبے وقت سے لگاتار مرکز اور ریاستی حکومت سے دہائی لگاتےلگاتے کسانوں کی مایوسی اب غصے میں تبدیل ہو گئی ہے اور وہ تحریک اورمظاہرہ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔مکامہ ٹالکے دلہنی کسانوں نے 28 مئی کو ریل کی پٹریوں اور روڈ پر دھرنا دینے کا فیصلہ لیا ہے۔ ساتھ ہی کسان بازار اور دکان بھی بند رکھیںگے۔ٹال وکاس کمیٹی کے کنوینر آنند مراری نے کہا، ‘ یہاں کے دال کسان کاروباریوں کے ہاتھوں حلال ہو رہے ہیں۔ دال کسانوں کے بچوں کے مستقبل کا قتل ہو رہا ہے، لیکن کسانوں کی چیخ پکار نہ تو بہار کے سی ایم نتیش کمار سن رہے ہیں اور نہ ہی وزیر اعظم نریندر مودی۔ ‘
انہوں نے کہا، ‘ 28 مئی کو دھرنا کے بعد بھی اگر حکومت ہماری مانگوں پر غور نہیں کرتی ہے، تو دلہنی کسان غیرمعینہ مدت تک کالا بلالگاکر مخالفت کریںگے۔ ‘
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔)
Categories: گراؤنڈ رپورٹ