فکر و نظر

رویش کا بلاگ: بینکوں کا این پی اے 1 لاکھ 40 ہزار کروڑ بڑھا، بینکر اور دیہی ڈاک ملازمین ہڑتال پر

 چھوٹے فنانس  بینک کا این پی اے بھی6-5 فیصد بڑھ گیا ہے۔ نوٹ بندی کے پہلے یہ ایک فیصد تھا۔ اس رپورٹ میں آہستہ سے نوٹ بندی اور قرض معافی کو وجہ بتایا گیا ہے۔ بڑے بینک ہوں یا چھوٹے بینک سب کے سب ڈوب رہے ہیں۔

Photo:Reuters

علامتی تصویر : رائٹرز

بزنس اسٹینڈرڈ کی پہلی خبر کہتی ہے کہ ریزرو بینک کے نئے اصولوں اور سختی کی وجہ سے چوتھی سہ ماہی میں 37 بینکوں کے این پی اے میں 1 لاکھ 40 ہزار کروڑ کا اضافہ ہو گیا ہے۔ اسی کے ساتھ مجموعی طور پر  این پی اے 9 لاکھ 80 ہزار کروڑ ہو گیا ہے۔ یہ رقم ابھی اور بڑھ سکتی ہے کیونکہ جموں و کشمیر بینک اور اوورسیز بینک نے چوتھی سہ ماہی کے نتیجے کا اعلان نہیں کیا ہے۔

تمام بڑے بینک کئی سو سے لےکر کئی ہزار کروڑ کے نقصان میں چل رہے ہیں۔ آج فنانشیل   ایکسپریس کے مدیر سنیل جین نے ٹوئٹ کیا ہے کہ ایک طرف سرکاری بینک ڈوب رہے ہیں اور بینکر سیلری میں اضافہ کی مانگ‌کر رہے ہیں۔ کاش، تمام سیاسی پارٹیاں مل‌کر بینکوں سے بےکار اور زیادہ ملازمین‎ کی چھٹی کر دیتے۔ کیا 10 لاکھ کروڑ کا این پی اے بینک ملازمین‎ کی وجہ سے ہو رہا ہے؟ یہ سب پالیسی کے فیصلے ہوتے ہیں جہاں 100 کروڑ یا ہزار کروڑ کے لون دینے ہوتے ہیں۔ بینکروں نے سیریز کے دوران بتایا کہ ان کو کرنسی لون دینے کے لئے مجبور کیا جا رہا ہے تاکہ حکومت اپنے اعداد و شمار دکھا سکے۔ وہ جان رہے ہیں کہ یہ لون نہیں چکا پائے‌گا پھر بھی ٹارگیٹ آتا ہے کہ اتنے لون دینے ہی ہیں۔ کرنسی لون بھی تیزی سے این پی اے میں بدل رہا ہے۔

اس کی سزا عام بینکر کیوں بھگتیں؟ کس بڑے بینک کے سی ای او کو برخاست کیا گیا ہے، کیا سنیل جین سے ماہراقتصادیات لکھیں‌گے کہ سارے سی ای او کو برخاست کر دینا چاہئے؟ آج سے پورے ہندوستان کے بینکر دو دنوں کی ہڑتال پر ہیں۔ ان کی تنخواہ 5 سال سے نہیں بڑھی ہے۔ اس دوران انہوں نے طے وقت سے کئی گنا زیادہ کام کیا ہے۔ بنا چھٹیوں کے کام کیا ہے۔ اس لئے سنیل جین کی یہ بات صحیح نہیں ہے کہ بینکر نٹھلے ہیں، بےکار ہیں۔ بینکروں کی تنخواہ میں اضافہ کی حمایت کی جانی چاہئے۔ دیہی ڈاک لازمین کو 5000 روپے ملتے ہیں، مودی حکومت کی بنائی کمیٹی نے ہی بڑھانے کا مشورہ دیا ہے مگر نہیں بڑھائی جا رہی ہے۔ دیہی ڈاک ملازمین دو ہفتے سے ہڑتال پر ہیں۔ پوری ڈاک خدمات ٹھپ پڑی ہے، کسی کو فرق نہیں پڑ رہا ہے۔

اگر سرکاری بینک کے ملازمین نٹھلے ہیں تو پھر پرائیویٹ بینکوں کا نقصان کیوں بڑھ رہا ہے۔ ٹائمس آف انڈیا کا بزنس پیج دیکھئے۔ اس سہ ماہی میں سرکاری بینکوں نے 79071 کروڑ کا نقصان دکھایا ہے جبکہ پرائیویٹ بینکوں نے 42000 کروڑ کا نقصان۔ وہاں تو لوگ کم ہوں‌گے، قابل ہوں‌گے پھر بھی 42000 کروڑ کا نقصان ہے۔ اس کا مطلب ہے ،وجہ  بینک میں جتنی نہیں ہے، اس سے کہیں زیادہ باہر معیشت میں ہے۔

نوٹ بندی کے دوران کہا گیا کہ ابھی تکلیف ہوگی مگر آنے والے وقت میں راحت ہوگی۔ دو سال ہو گئے مگر نوٹ بندی کے بعد آنے والی وہ خیالی راحت ابھی تک میسر نہیں ہے۔ آپ عوام یا قارئین خبروں کو کھوج‌کر پڑھیں تبھی پتہ  چلے‌گا کہ کہاں کیا ہو رہا ہے۔ بزنس اسٹینڈرڈ کے 4 پر ایک خبر ہے۔ چھوٹے فنانس  بینک کا این پی اے بھی6-5 فیصد بڑھ گیا ہے۔ نوٹ بندی کے پہلے یہ ایک فیصد تھا۔ اس رپورٹ میں آہستہ سے نوٹ بندی اور قرض معافی کو وجہ بتایا گیا ہے۔ بڑے بینک ہوں یا چھوٹے بینک سب کے سب ڈوب رہے ہیں۔

برآمدکاروں کا اہم ادارہ FIEO نے کہا ہے کہ جی ایس ٹی کے تحت ملنے والے ری فنڈ میں دیر ہو رہی ہے۔ حکومت کے پاس ان کا 20000 کروڑ پڑا ہوا ہے۔ اس کی وجہ سے دقتیں بڑھ رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 31 مارچ تک ری فنڈ ٹھیک رفتار سے مل رہا تھا لیکن اس کے بعد سے ٹھہراؤ آ گیا ہے۔ اس کے بعد بھی برآمد سیکٹر نے اچھی کارکردگی کی ہے۔ کیونکہ پیٹرول کے دام بڑھے ہیں اور روپے  کے دام گرے ہیں۔ حکومت نے کہا کہ جلد ہی 20ہزار  کروڑ کی ادائیگی کر دی جائے‌گی۔ ہندی کے اخباروں میں اقتصادی خبروں کی تنقیدی پڑتال  کم ہی ہوتی ہے۔ جو وزیر اعظم بول دیتے ہیں یا وزیر خزانہ بول دیتے ہیں، ہوبہ ہو چھپ جاتا ہے۔ چینلوں کا بھی وہی حال ہے۔

(یہ تبصرہ بنیادی طور پر رویش کمار کے فیس بک پیج پر شائع ہوا ہے)