فیک نیوز:ملک کی نامی گرامی ہستیوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو فیک نیوز کو پھیلاتے رہتے ہیں، ایسے ہی لوگوں میں مدھو کشور کا نام بھی شامل ہے۔اس کے بر عکس جب جگنیش کو معلوم ہوا کہ ان کا ٹوئٹ ایک فیک تصویر پر مبنی ہے تو انہوں نے معافی مانگ لی۔
اتر پردیش کے کیرانہ میں ابھی ضمنی انتخابات کے نتیجے سامنے آئے ہیں جن میں آر ایل ڈی کی بیگم تبسم حسن کو ممبر آف پارلیامنٹ منتخب کیا گیا ہے۔ کیرانہ میں بیگم تبسم حسن کی کامیابی ہندوستان کی موجودہ سیاست میں بہت اہم ہے کیونکہ اتر پردیش سے موجودہ لوک سبھا میں منتخب ہونے والی وہ پہلی مسلم ایم پی ہیں۔ کیرانہ کے ضمنی انتخابات سے ایک بات اور واضح ہو گئی ہے کہ کیرانہ کے شہریوں نے نفرت کی اس سیاست کو ٹھکرا دیا ہے جس کے دلدل میں بی جے پی نے دو سال قبل انھیں ڈھکیلنے کی کوشش کی تھی۔
کیرانہ میں بی جےپی کی نفرت بھری سیاست کو ملی ہار کے بعد یہ لازمی تھا کہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر بی جے پی ٹرولس کی طرف سے کوئی نہ کوئی فیک نیوز ضرور آئے گی کیونکہ نفرت کی سیاست میں ملوث لوگ اس ہار کوخاموشی سے تسلیم نہیں کریں گے ۔ نتائج کے بعد ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں تبسم حسن کی تصویر تھی اور ان سے منسوب یہ بیان کہ:
کیرانہ میں ہماری کامیابی الله کی فتح ہے اور رام کی شکست ہے !
یہ تصویر سوشل میڈیا پر بی جے پی کے حمایتی پیج اور پروفائلوں پر بہت عام کی جا رہی تھی۔ایک جگہ تو یہ بھی لکھا پایا گیا:
کیرانہ کی شکست پر صبح دکھ تھا لیکن جیسے ہی کیرانہ سے منتخب تبسم بیگم نے کہا کہ یہ اسلام کی فتح ہے اور ہندوؤں کی شکست ہے تو مزا آ گیا۔ یہ ان لوگوں کے منہ پر طمانچہ ہے جو مودی کی مخالفت میں ذات پات کی سیاست کے لئے ووٹ دیکر آے تھے۔
الٹ نیوز نے جب اس تصویر کی حقیقت سے پردہ اٹھایا تو یہ بھگوا فکر کی ایک سازش ثابت ہوئی۔جب الٹ نیوز نے بیگم تبسم حسن سے رابطہ قائم کیا تونومنتخب ایم پی نے بتایا کہ:
ہم تو سبھی مذہب کی قدر کرتے ہیں، ہمارا ایسا کچھ الگ نہیں ہے۔ ہمیشہ سے ہم یہ چاہتے ہیں کہ بھائی سب انسانیت میں رہیں اور سب انسان ایک دوسرے سے پیار محبت سے رہیں۔ ان لوگوں کو جب کوئی راستہ نہیں ملا تو یہ 2019 کے لئے فیک میسج چلا چلا کر 2019 کے لیے راستہ بنانا چاہتے ہیں۔
اس طرح تبسم حسن کے نام سے منسوب کیا جانے والا فوٹو فیک تھا جس کا مقصد فرقہ پرستی کو ہوا دینا تھا۔
جگنیش میوانی گجرات کے نوجوان ایم ایل اے ہیں اور ہندتوا سیاست کے بڑے مخالف ہیں۔ کسی فکر سے اختلاف کرنا یا اسکی مخالفت کرنا ایک الگ بات ہے لیکن کبھی کبھی اس مخالفت میں عقل کو طاق پر رکھ دینا ایک غلط رد عمل ہے،جگنیش کے ساتھ بھی یہی ہوا۔
انہوں نے اپنے ٹوئٹر پر ایک تصویر شائع کی جس کو فلم ‘Oh My God’ کے ایک منظر سے تشبیہ دی گئی تھی اور جگنیش نے یہ کہا تھا کہ جو چیز ہم نے فلموں میں دیکھی تھی وہ آج ہمارے سامنے ہے۔یہ فلم گڑھی ہوئی مذہبی روایتوں کے خلاف تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ کس طرح مذہب کا غلط تصور انسان کو تباہ کرتا ہے اور کس طرح اس تصور کی تشکیل میں جھوٹے مذہبی رہنماؤں اور باباؤں کا ہاتھ ہوتا ہے اور کس طرح انکو سیاسی اداروں اور رہنماؤں سے مدد ملتی ہے۔
جگنیش نے جو تصویر ٹوئٹر پر اپلوڈ کی تھی فلم کے اس منظر سے ملتی ہے جس میں ایک مذہبی گرو اپنے شاگرد اور ایک خاتون کے ساتھ ہے۔ اس تصویر میں گرو کی جگہ سری سری روی شنکر ہیں، شاگرد کی جگہ یوگی آدتیہ ناتھ اور خاتون کی جگہ پر شیفالی ویدیہ ہیں۔سوشل میڈیا ہوَش سلیر کے مطابق یہ تصویر سب سے پہلے Indian Atheist نامی فیس بک پیج پر اپلوڈ کی گئی تھی۔ اس پیج کے تقریباً ڈھائی لاکھ فالوور ہیں جہاں اس تصویر کو1500 بار شیئر کیا گیا ہے۔ تصویر کو فوٹو شاپ کر کے اس میں خاتون کو جوڑا گیا ہے اور تصویر میں سری سری روی شنکر کے پیچھے جو افراد موجود ہیں وہ وہی لوگ ہیں جو یوگی کے پیچھے بھی ہے، یعنی ان لوگوں کو کاپی کرکے پیسٹ کر دیا گیا ہے تاکہ تصویر بڑی نظر آئے ! جب جگنیش کو معلوم ہوا کہ انکا ٹوئٹ ایک فیک تصویر پر مبنی ہے تو انہوں نے معافی مانگی اور اپنا ٹوئٹ ڈیلیٹ کر دیا۔
یہ بھی پڑھیں : فیک نیوز پھیلانے کا الزام لگاتے ہوئے پرشانت بھوشن نے مدھو کشور کے خلاف کیس درج کرایا
رویش کمار اپنی بیباک صحافت کی وجہ سے عوام کے ایک حصے میں بڑے ادب اور قدر سے دیکھے جاتے ہیں اور عوام کے دوسرے حصے میں ان کو بےپناہ نفرت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نفرت کا مظاہرہ اکثر بھگوا تنظیموں سے جڑے نوجوان کرتے ہیں جو نریندر مودی اور بی جے پی کی تنقید سننا گوارا نہیں کرتے۔رویش کے تعلق سے عوام میں دوطرح کے لوگ موجود ہیں جن کی ترجمانی گزشتہ ہفتے سوشل میڈیا میں دو تصویروں سے ہوئی۔ایک تصویر رویش کی حمایت میں نظر آئی تو دوسری تصویر ان کی مخالفت میں تھی جس کا انداز یہ تھا کہ وہ ثابت کرنا چاہتی تھی کہ رویش ملک میں ہو رہی ترقی سے خوش نہیں ہیں!
جس تصویر میں رویش کی حمایت کی گی تھی اس میں رویش کا چہرہ موجود ہے اور ایک موبائل نمبر بھی ہے، تصویر میں لکھا ہے کہ اگر آپ رویش کمار کو سپورٹ کرتے ہیں تو اس نمبر پر مسڈ کال دیں۔دوسری تصویر میں رویش کی طرف منسوب کر کے کہا گیا ہے کہ :
14 لین کا ہائی وے بننے سے چوری بڑھےگی، ہزاروں درخت کاٹے جائیں گے اور فضائی آلودگی بڑھےگی !یہ تصویر اس بات کو ثابت کرنا چاہتی تھی کہ رویش جیسے صحافی صحافت کے نام پر بدنما داغ ہیں جنہیں ملک کی ترقی سے کوئی مسرت نہیں ہے اور ہر وقت تنقید ہی انکا مشغلہ رہتا ہے!سوشل میڈیا ہوَش سلیر نے رویش سے بات کی تو رویش نے بتایا کہ یہ دونوں تصویریں جعلی ہیں۔
ملک کی نامی گرامی ہستیوں میں کچھ لوگ ایسے موجود ہیں جو وقتاً فوقتاً فیک نیوز کی اشاعت میں پکڑے جاتے ہیں لیکن باز نہیں آتے۔ ایسے لوگوں کی ایک طویل فہرست ہے اور اس فہرست میں مدھو کشور بھی موجود ہیں۔
برہان وانی معاملے میں انہوں نے ٹوئٹ کیا کہ جس ایس پی نے برہان کو مارا تھا ان کو برخاست کر دیا گیا ہے۔ مدھو کشور نے جموں و کشمیر پولیس اور وہاں کے ڈائریکٹر جنرل ایس پی وید کو اس کے لئے ذمہ دار بتایا۔ انہوں نے محبوبہ مفتی پر بھی الزام لگایا کہ وہ برہان کے مارے جانے سے بہت پریشان تھیں جس کی وجہ سے ایس پی کو برخاست کیا گیا۔
جمو ں و کشمیر پولیس نے ان کے دعوے کو جھوٹا قرار دیا اور کہا کہ یہ بات با لکل غلط ہے کہ کسی ایس پی کو برخاست کیا گیا ہے ! پولیس نے ہدایت دی کہ وہ اپنی جانکاری درست کریں۔اس پر مدھو کشور نے سشیل پنڈت نامی شخص کا حوالہ دیا۔ سشیل پنڈت پہلے سے ہی فیک نیوز پھیلانے میں ماہر ہیں اور قابل اعتماد شخص نہیں ہیں۔ مدھو کشور کے ٹوئٹ میں مینشن کرنے کے بعد بھی سشیل پنڈت نے کوئی جواب نہیں دیا ہے۔ لہذا مدھو کشور کے دعوے جھوٹے ثابت ہوئے۔
Categories: فکر و نظر