کمیشن نے نوجوانوں کی زندگی برباد کر دی ہے۔ شاید ہی کسی ریاست میں امتحان کا کلینڈر ہوگا۔ امتحان بھی اس طرح سے منعقد ہوتا ہے کہ کوئی نہ کوئی تنازعہ پیداہو جاتا ہے۔ ان کا کام نوکری دینا نہیں بلکہ نوکری دینے کے نام پر نوجوانوں کو تیاری میں مصروف رکھنا ہے۔
اتر پردیش کے پریشان امتحان دہندگان کے لگاتار ترپیغام موصول ہورہے ہیں۔ سرسری طور پر دیکھکر لگ رہا ہے کہ طالب علموں کی باتوں میں دم ہے۔ یوپی پبلک سروس کمیشن کا مین امتحان 18 جون سے 7 جولائی کے درمیان ہوگا۔ پہلے کہا گیا تھا کہ جولائی میں ہوگا۔ جون میں کر دینے سے طالب علم مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، بہار اور دیگر ریاستوں کے پبلک سروس کمیشن کا امتحان نہیں دے پائیںگے۔ دوڑتے بھاگتے رہیںگے تو پڑھیںگے کب۔
طالب علموں کا کہنا ہے کہ 25 دن کے فرق پر 8 پیپر کی تیاری کوئی کیسے کر پائےگا۔ جبکہ یہ کمیشن خود کوئی بھی امتحان تین سال سے پہلے پورا نہیں کرا پاتا ہے۔ ستمبر 2017 میں پری لمس کا امتحان ہوا تھا جس کا نتیجہ جنوری میں آیا ہے۔ مینس کے امتحان کی تاریخ 4 مئی کو ہونی تھی۔ پھر کن ہی وجہوں سے رد ہو گئی۔ پری لمس کے سوالوں کو لےکر کچھ طالب علم کورٹ چلے گئے۔ ہائی کورٹ سپریم کورٹ ہوتا رہا۔
ہائی کورٹ نے کہا کہ سوالناموں میں جو گڑبڑی ہے، اس کی تفتیش کرکے دوبارہ سے نتیجہ نکالے۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ ایک طالبہ نے بتایا کہ پبلک سروس کمیشن 2016 کا مینس امتحان بھی اسی طرح کرا لیا گیا جس کا آج تک رزلٹ نہیں نکلا ہے۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو کچھ تو ایکشن لینا چاہئے۔
کیا تماشہ ہے۔ رہنماؤں کو بھی سمجھنا چاہئے کہ ان کمیشن کی کاہلی کی وجہ سے نقصان ان کو اٹھانا پڑتا ہے۔ طالب علموں کا تو نقصان ہوتا ہی ہے۔ فی الحال یوگی جی طالب علموں کے اس مسئلہ کا تجزیہ کریں اور راستہ نکالیں۔طالب علموں کی اس بات میں دم ہے کہ وہ دوسری ریاستوں کے کمیشن کےامتحان کی بھی تیاری کر رہے تھے جن کی تاریخ پہلے آ چکی تھی۔ اگر اتنی عقل نہیں ہے کمیشن میں تو کیا کہا جا سکتا ہے۔
کمیشن نے نوجوانوں کی زندگی برباد کر دی ہے۔ شاید ہی کسی ریاست میں امتحان کا کلینڈر ہوگا۔ امتحان بھی اس طرح سے منعقد ہوتا ہے کہ کوئی نہ کوئی تنازعہ پیدا ہو جاتا ہے۔ کئی ریاستوں کے کمیشن کی حرکت دیکھکر لگتا ہے کہ ان کا کوئی پیٹرن ہے۔ سوالناموں میں گڑبڑی ڈال دو تاکہ تنازعہ پیدا ہو، کوئی کورٹ چلا جائے اور پھر امتحان ہونے کے نام پر ہوتا ہی رہے۔ ان کا کام نوکری دینا نہیں بلکہ نوکری دینے کے نام پر نوجوانوں کو تیاری میں مصروف رکھنا ہے۔
یوپی کے نوجوان ٹوئٹر پر وزیراعلیٰ سے لےکر رکن پارلیامان تک کوٹوئٹ کر رہے ہیں۔ اپیل کر رہے ہیں۔ میں لمبی چھٹی پر ہوں۔ اتنی رات کو جگکر لکھ رہا ہوں تاکہ ان بچوں کو ناامید نہیں ہونا پڑے۔ ایک نوجوان تو اتنا پریشان ہیں کہ کہہ رہے ہیں کہ 2 دن کے لئے چھٹی سے آ جائیے اور پرائم ٹائم میں چلا دیجئے تاکہ مسئلہ کا حل ہو جائے۔ بھروسہ رکھئے، اب لکھ دیا ہے تو یوگی جی کچھ کر دیںگے۔ ان کو پتا ہے کہ کہیں چھٹی سے واپس آ گیا تو۔ بنا بات کا دن رات یہی کرےگا اور سب کے سر میں درد ہو جائےگا!
ویسے نوجوانوں بات اس امتحان کی نہیں ہے، ممکن اس امتحان کے معاملے حل ہو جائیں، جاکر دیکھئے کیسے 12460 اساتذہ کی تقرری کا بھروسہ دےکر یوگی جی نے 4000 کو ہی اپوائنٹ منٹ لیٹر دیا اور باقی 8 ہزار استاد پھر سے سڑک پر تحریک کر رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ ہی اپنا وعدہ پورا نہیں کر پا رہے ہیں۔ یہ حالت ہو گئی ہے۔
اقتدار نے آپ کی جوانی برباد کر دی ہے۔ آئے دن شکشا متروں کے مرنے کی خبر آتی رہتی ہے۔ ان کی حالت خراب ہے۔ کچھ نہیں ہوا ان کا بھی۔ وہ بھی کتنی تحریک کریںگے مگر کر رہے ہیں لیکن انتظامیہ پر کوئی اثر نہیں۔ دن بھر گنّا،جنّاح، گنّا،جنّاح، گنّا،جنّاح، گنّا،جنّاح، گنّا،جنّاح، گنّا،جنّاح، گنّا،جنّاح ہو رہا ہے۔
ان رہنماؤں اور افسروں نے دو طرح سے آپ کی جوانی کا انتظام کر دیا ہے۔ گاؤں قصبوں سے لےکر لکھنؤ اور الٰہ آباد تک کے کالجو ں کو ردی بناکر آپ کے مستقبل کو کوڑےدان میں ڈال دیا گیا ہے اور دوسرا، کوئی اپنی محنت، کوچنگ سے کالج کے کوڑےدان سے نکل بھی گیا تو کمیشن کے بنائے پیک دان میں ڈوبنے سے نہیں بچ سکتا۔
کوئی مجھے کئی دنوں سے لکھ رہا ہے کہ الٰہ آباد یونیورسٹی میں رشتہ داروں کو بھر دیا گیا ہے۔ آپ نوجوانوں کو مذہبی جنون کے لئے گھروں سے نکالنے کی تیاری ہو رہی ہے، بہتر ہے آپ اسکول کالج اور نوکری کے لئے پہلے ہی نکل آئیے۔ ورنہ یہ رہنما آپ کو کلکٹر نہیں، فسادی بنانے کے پروجیکٹ پر کام کر رہے ہیں۔
Categories: فکر و نظر