انڈین ریزرو بینک کے ذریعے فروری 2018 میں جاری ایک سرکلر اس کے اور نریندر مودی حکومت کے درمیان تکرار کی وجہ بن گئی ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ تمام بڑے کارپوریٹ گروپ،جو بینکوں سے لئے گئے قرض کی دوبارہ دائیگی کرنے میں ناکام رہتے ہیں،ان کو1اکتوبر، 2018 سے دیوالیہ کئے جانے کے پروسس میں شامل ہونا پڑےگا۔
حال ہی میں وزیر خزانہ بنائے گئے پیوش گوئل چاہتے ہیں کہ انڈین ریزرو بینک فروری، 2018 میں جاری اپنے ایک سرکلر میں نرمی لائے۔ نریندر مودی حکومت اور ہندوستان کےسینٹرل بینک کے درمیان تکرار کی وجہ بن گئے اس سرکلر میں خاص طور پر یہ کہا گیا ہے کہ تمام بڑے کارپوریٹ گروپ، جو بینکوں سے لئے گئے قرض کی دوبارہ دائیگی کرنے میں ناکام رہتے ہیں،ان کو 1 اکتوبر، 2018 سے دیوالیہ کئے جانے کے پروسس میں شامل ہونا پڑےگا۔
واضح ہے کہ ان کمپنیوں کو بینکوں کے ساتھ دوبارہ ادائیگی سے متعلق مسائل کو سلجھانے کے لئے 1 مارچ، 2018 سے 6 مہینے کا وقت دیا گیا ہے، جس میں ناکام رہنے پر ان کے متعلقہ کھاتوں کو دیوالیہ کئے جانے کے پروسس میں شامل ہونے کے لئے مجبور کیا جا سکےگا۔اس سرکلر نے ایک خاص طبقے کو پریشان کر دیا ہے، کیونکہ سیاسی طور پر طاقتور کئی کاروباری گروپوں کے سامنے،جو ابھی تک دیوالیہ عدالتوں (بینکرپسی کورٹ) سے بچتے رہے ہیں،اس انجام سے بچنے کی کوئی گنجائش نظر نہیں آ رہی۔ بڑے گروپوں کے لئے دیوالیہ میں شامل ہونے کا امکان بھی نہ نگلنے لائق گولی کے مانند ہے-اس سے ان کی شہرت اور بازار میں ان کا کریڈٹ رینٹنگ کو نقصان پہنچتا ہے۔
ان میں سے اڈانی جیسے کچھ سیاسی طور پر رسوخ دار کارپوریٹ گھرانوں نے عوامی طور پر یہ دعویٰ کیا ہے کہ ان کی کمپنیوں کی مالی صحت کافی مضبوط ہے اور ان کے کھاتوں میں قرضوں کی دوبارہ ادائیگی کو لےکر کسی طرح کی کوئی دقت نہیں ہے۔ ظاہر ی طور پر آر بی آئی کا سرکلر ایسے کئی دعووں کی قلعی کھول دیتا ہے۔تنازعے کا نکتہ یہ ہے کہ کئی بڑے کارپوریٹ گھرانوں کو قریب 2.5 لاکھ کروڑ روپے کے نہ چکائے گئے بجلی شعبے کے قرضوں کا حل کرنے کے لئے بینکرپسی کورٹ میں جانا ہوگا۔ مودی حکومت کے لئے یہ سب سے بڑی فکر ہے۔
سیاسی طور پر یہ کافی اہم ہے کہ آر بی آئی کی طرف سے ایک سخت رخ اپنایا گیا ہے، جس نے مرکز کو کافی پریشان کن حالت میں لا دیا ہے۔آر بی آئی نے ایک طرح سے مرکز کی خودستائی کو چیلنج دیتے ہوئے قرض ادا نہ کرنے والے ڈفالٹروں کے لئے بےحد سخت اہتمام لگا دئے ہیں۔ حالت ایسی ہے کہ نہ تو وزیر اعظم اور نہ ہی وزیر خزانہ عوامی طور پر ریزرو بینک کے اس قدم کو لےکر کوئی شکایت کر سکتے ہیں، کیونکہ ان کی حکومت کی سیاسی جملےبازی بڑے ڈفالٹروں پر سخت کارروائی کرنے کی بات کرتی ہے، جو اس کے مطابق ‘ یو پی اے دورحکومت کی دین ہیں۔ ‘
ریزرو بینک نے اور کچھ نہیں، بس اس مضبوط سیاسی جملے کو زمین پر اصل کارروائی کی شکل دے دیا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ انتخاب سے پہلے کے سال میں این ڈی اے حکومت نے ایسے سخت جھٹکے کی امید نہیں کی ہوگی۔اس ہفتے سینٹرل بینک کے نمائندوں کے ساتھ بیٹھک میں گوئل نے اس امکان پر گفتگو کی کہ کیا این پی اے سے متعلق اصول و ضوابط کو نرم کرنے کی کوئی گنجائش ہے؟ایسی کسی نرمی کا معنی ڈفالٹنگ کمپنیوں کو اپنے نہ چکائے گئے قرضوں کا حل کرنے کے لئے زیادہ وقت دینا ہی ہو سکتا ہے۔
بند کمروں میں وزیر خزانہ نے کافی چالاکی سے اپنی دلیلوں کو بجلی شعبے میں نازک پالیسی مسائل کے اردگرد کھڑا کیا جن کی وجہ سے پرائیویٹ سیکٹر کے بجلی کارخانوں کے مظاہرے پر منفی اثر پڑا ہوگا۔لیکن جانکاری کے مطابق ریزرو بینک اپنے فیصلے پر قائم رہا اور اس نے صاف کر دیا کہ 12 فروری کے سرکلر کو صرف بجلی شعبے کی کمپنیوں کو رعایت دینے کے لئے کمزور نہیں کیا جا سکتا۔کیونکہ ایسا کرنا، ان لوگوں کی طرف سے قانونی دعووں کو جنم دے سکتا ہے، جو اس کو اپنے ساتھ جانبداری کئے جانے کے طور پر دیکھیںگے۔
ایسا ممکن ہے کہ بجلی شعبے کے دیوہیکل این پی اے اور بینکنگ نظام کی اس سے نمٹنے سے قاصر گوئل کو ایک بار پھر نئے سرے سے ‘بیڈ بینک ‘ کے قیام کے خیال کے لئے راغب کیا ہو، جس پر گفتگو تو اکثر ہوتی ہے، مگر اس کو کبھی حقیقت کی سطح پر اتارا نہیں جا سکا ہے۔حالیہ مثال تب دیکھنے کو ملی تھی، جب ارون جیٹلی نے بھی اس خیال پر گفتگو کی تھی، لیکن بعد میں اس کو کنارے رکھ دیا۔
صنعتی دنیا کے ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر مجوزہ ‘ بیڈ بینک ‘ کے خیال کو زمین پر اتارا جاتا ہے، تو بجلی شعبے کی دیوہیکل این پی اے کا ہی اس میں بول بالا ہوگا۔نظریہ کی کسوٹی پر بات کریں، تو ایک بیڈ بینک، سرکاری سرمایہ کے ذریعے امداد یافتہ نیشنل اسیٹ ری کنسٹرکشن کمپنی کی ہی طرح ہے، جس کا استعمال بینکنگ نظام کے این پی اے کو الگ کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔اس کے بعد یہ کمپنی پیشہ وروں کی مدد سے ان اثاثوں کا انتظام وانصرام کرنے یا ان کو بیچنے کی کوشش کرتی ہے۔اس بوجھ کو بیڈ بینک کے سر پر ڈالنے کے پیچھے کا خیال یہ ہے کہ اس سے باقی کے بینکنگ نظام این پی اے کے بوجھ سے آزاد رہکر آسانی سے کام کر سکے۔
تکنیکی طور پر کہا جائے، تو ایک بیڈ بینک بجلی شعبے کے این پی اے کے مسئلہ سے نمٹنے کے لئے مرکزی حکومت کو تھوڑی جگہ مہیا کرائےگا اور وہ ان پر اپنے ہوشمندی سے فیصلہ کر سکےگی۔کمپنیوں کو نیشنل کمپنی لا ٹریبونل (این سی ایل ٹی) میں جانے کے لئے مجبور کئے جانے کی صورت میں اس کے پاس کم اختیاری حق بچتے ہیں، کیونکہ یہاں طےشدہ اصولوں پر کاربند ہونا پڑتاہے۔یہاں یہ ڈر بھی نظر آ رہا ہے کہ این سی ایل ٹی میں بھیجے جانے کے بعد ہو سکتا ہے کہ ان قرض میں ڈوبی بجلی پیدا کار کمپنیوں کا کوئی خریدار نہ ملے۔ جبکہ دوسری طرف ایک بیڈ بینک، سیدھے طور پر کمپنیوں سے، مثال کے لئے مانیں، این ٹی پی سی یا کسی نئے سرمایہ کار سے مسئلہ کا جلدی حل کرنے کے لئے سودے بازی کر سکتا ہے۔ لیکن، یہ سب این سی ایل ٹی کے مقابلے میں کم شفاف ہوگا۔
اصل میں اگر بجلی شعبے کے این پی اے کو آنے والے کچھ مہینوں میں کسی بیڈ بینک کو منتقل کر دیا جاتا ہے، تو ان کمپنیوں کے پرموٹروں کو 1 اکتوبر سے بینکرپسی کورٹ میں جانے کی جگہ صرف حکومت سے بات چیت کرنے کی ضرورت رہ جائےگی۔مصیبت میں پڑی بجلی کمپنیوں کے پرموٹر اس حل کو ترجیح دے سکتے ہیں-دیوالیہ پروسس کافی عوامی اور شرمندگی بھری ہوتی ہے-لیکن یہ مودی حکومت کے لئے آسان نہیں ہوگی۔وزیر خزانہ کو بجلی منصوبوں (جن میں سے زیادہ تر فعال نہیں ہیں) کی ادائیگی نہ کئے جا رہے 2 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کے بقایے کے مسئلہ کا حل تلاش کرناہوگا۔اور اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ ایسا حل سیاسی تنازعے سے آزاد ہوگا۔
اس حقیقت کی روشنی میں اگر ایسا کوئی تنازعہ مزید گہرا ہو جائےگا کہ اس منصوبہ کو گوئل آگے بڑھا رہے ہیں، جن کو انتخاب سے پہلے کے سال میں بی جے پی کے غیراعلانیہ خزانچی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔آخر ہندوستان کے سیاسی طور پر رسوخ دار کارپوریٹ گروپ ہی بجلی شعبے کے ان دشوار کن اثاثہ کے مالک ہیں اور ان میں سے کچھ مودی حکومت کے کافی قریبی مانے جاتے ہیں۔یہ گڑبڑجھالا اس حقیقت کی وجہ سے اور زیادہ الجھ گیا ہے بجلی سیکٹر کے اوزاروں کے در آمد میں بڑے پیمانے پر کی گئی اوور-انوائسنگ کے الزامات کو لےکر ان میں سے کچھ کارپوریٹ گروپوں کی تفتیش گوئل کی وزارت کے ذریعے ہی کی جا رہی ہے۔
اگر یہ الزام صحیح ثابت ہوتے ہیں، تو ممکن ہے کہ ان کمپنیوں کو ‘ جان بوجھ کر قرض نہ چکانے والوں ‘ کے زمرہ میں رکھا جا سکتا ہے، جو زیادہ سخت سزا کو دعوت دےگا۔
Categories: فکر و نظر