مرکزی حکومت کے ذریعے نوٹ بندی کے بعد محض 5 دنوں کے اندر احمد آباد ضلع کوآپریٹیو بینک میں غیر معمولی طریقے سے جمع ہوئی رقم کی جانچ نہ کرانا عجیب ہے، جبکہ ایسا کرنے کے لئے نیا بےنامی لین دین قانون بھی ہے، جس کو بنایا ہی اسی مقصد سے گیا ہے۔
ٹیکس محکمہ کا یہ ماننا رہا ہے کہ ہندوستان میں کالا دھن کو سفید بنانے کے لیے سب سے آسان راستوں میں سے ایک راستہ یہ ہے کہ اس کو کسانوں کی آمدنی کے طور پر دکھا دیا جائے۔ایسے میں مرکزی حکومت کے ذریعے نوٹ بندی کے بعد محض 5 دنوں کے اندر احمد آباد ضلع کوآپریٹیو بینک (اے ڈی سی بی) میں آئی غیر معمولی طریقے سے رقم کی جانچ نہ کرانا بےحد عجیب ہے، جبکہ اس کے پاس ایسا کرنے کے لئے نیا بےنامی لین دین قانون بھی ہے، جس کو بنایا ہی اسی مقصد سے گیا ہے۔
اس حقیقت کے مدنظر کہ بھارتی جنتا پارٹی کے صدر امت شاہ اس بینک کے بورڈ کے فعال ممبر ہیں، اخلاقیات کا تقاضہ بھی یہی کہتا ہے کہ ان بڑی جمع رقم کی جانچ کرائی جائے، جو ہو سکتا ہے کہ کسانوں کے نام پر جمع کرائی گئی ہوں۔آخرٹھیک اسی خدشہ کی وجہ سے ہی تو نوٹ بندی کے ایک ہفتے کے اندر ریزرو بینک آف انڈیا نے ایک آرڈر نکالکر ضلع کوآپریٹیو بینکوں کو پرانے نوٹوں کو منظور کرنے یا ان کو بدلنے سے منع کر دیا تھا۔
جب ایک آر ٹی آئی درخواست سے نوٹ بندی کے بعدکے 5 دنوں میں اے ڈی سی بی میں جمع کی گئی رقم (745 کروڑ) کا پتا چلا، تو نیشنل بینک فار اگریکلچر اینڈ رورل ڈیولپمنٹ (این اے بی اے آر ڈی ) نے اس بینک کے بچاؤ میں اترتے ہوئے اعداد و شمار پیش کیا کہ زیادہ تر گراہکوں نے (98اعشاریہ 6فیصد) نے 2 اعشاریہ 5 لاکھ سے کم رقم جمع کرائی تھی۔حالانکہ این اے بی اے آر ڈی نے یہ نہیں بتایا کہ اس بات کا امکان ہے کہ بچے ہوئے 1 اعشاریہ 4فیصد جمع کرنے والوں نے 745 کروڑ روپے کی کل رقم کا 60 فیصد سے زیادہ جمع کرایا ہو۔
این اے بی اے آرڈی کا ماننا ہے کہ نوٹ بندی کے ٹھیک بعدکے دنو ں میں اے ڈی سی بی کی جمع میں کچھ بھی مشکوک نہیں ہے، کیونکہ فی گراہک جمع 46795 روپے ہی ہے، جو گجرات کے 18 ضلع کوآپریٹیو سینٹرل بینکوں کے تئیں جمع کرنے والے اوسط سے کم ہے۔لیکن، ہمیں پتا ہے کہ جمع کی اوسط ساخت حقیقت کو بیان نہیں کرتی ہے۔ یہ ٹھیک ویسا ہی ہے کہ ملک کی فی شخص آمدنی ملک کے سب سے زیادہ آمدنی والے لوگوں کی اصل جائیداد کے بارے میں نہیں بتاتی ہے۔ مثال کے لئے آکس فیم کے مطابق، 2017 میں ہندوستان کی آبادی کے ٹاپ1 فیصد کے پاس ملک کی کل جائیداد کا 73 فیصد تھا۔
اس نے خود قبول کیا ہے کہ اے ڈی سی بی کے 16 لاکھ گراہکوں میں سے صرف 1.60 لاکھ گراہکوں نے 9 سے 14 اکتوبر کے درمیان اپنے کھاتوں میں 1000 اور 500 کے نوٹ جمع کرائے۔ اور 1.6 لاکھ گراہکوں میں سے 98.66 فیصد نے 2.5 لاکھ سے کم کی رقم بینک میں جمع کرائی۔اس کا مطلب ہے کہ صرف 230 گراہکوں نے 2.5 لاکھ روپے سے زیادہ رقم اپنے کھاتوں میں جمع کرایا۔ اگر کل اوسط جمع 46،795 روپے تھی، تو 98اعشاریہ 66 فیصد جمع کرنے والوں کے لئے، جنہوں نے 2اعشاریہ 5 لاکھ روپے کم کی رقم جمع کرائی،یہ اوسط اور بھی کم ہوگا۔ اگر ہم اس98اعشاریہ 55 فیصد کے لئے اوسط جمع کو 10000 روپے مانیں، تو ان کے ذریعے کل جمع رقم 200 کروڑ سے کم ٹھہرتی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ 230 اکاؤنٹ ہولڈرز 745 کروڑ روپے کے ایک بڑے حصے میں شامل ہیں۔ ضرورت انہی جمع رقم کی جانچ کئے جانے کی ہے۔اس لئے این اے بی اے آر ڈی کو نوٹ بندی کے بعد اپنے کھاتوں میں 2اعشاریہ 5 لاکھ سے زیادہ جمع کرانے والے گراہکوں کی پہچان کو بھی اجاگر کرنا چاہیے اور ٹیکس محکمے کو اس کے بارے میں جانکاری مہیا کرانی چاہیے۔ اس سے اس بات کی جانچ کرنے میں مدد ملےگی کہ کیا کچھ غیرسماجی عناصر نے اپنی بلیک منی کو چھپانے کے لئے کسانوں کا استعمال مکھوٹے کے طور پر تو نہیں کیا!
یقینی طور پر یہ بات حیران کرنے والی ہے کہ اے ڈی سی بی میں غیرمعمولی مقدار میں جمع کرائے گئے پرانے نوٹوں میں ٹیکس محکمے کو کچھ بھی مشکوک نہیں لگا۔اپنے بیان میں این اے بی اے آر ڈی نے کہا ہے کہ یہ سارے کھاتے کے وائسی (نو یور کسٹمر)کے اہتماموں کے مطابق ہیں۔ ٹھیک ہے، لیکن ان مٹھی بھر لوگوں کی پہچان کو اجاگر کرنے سے کیا نقصان ہونے والا ہے، جبکہ آر بی آئی کا ماننا ہے کہ نوٹ بندی کے ٹھیک بعد بینک جمع میں آئی ایسی اچھال میں کچھ نہ کچھ مشکوک ہے۔نوٹ بندی کے بعد اپنے کھاتوں میں کافی بڑی رقم، جو کروڑوں میں ہو سکتی ہے، جمع کرانے والے 200 سے زیادہ لوگوں کے پاس دیگر غیرزراعتی آمدنی ذرائع بھی ہو سکتے ہیں۔ اس کی جانچ کئے جانے ضرورت ہے۔
جیسا کہ ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں، ہندوستان میں، زراعتی آمدنی پر ٹیکس نہیں لگایا جا سکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ غیر قانونی طریقے سے جائیداد جمع کرکے رکھنے والے لوگ اس کو زراعتی آمدنی کے طور پر دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔اس لئے بہت ممکن ہے کہ 230 کے قریب اے ڈی سی بی کھاتوں میں 2 اعشاریہ 5 لاکھ سے زیادہ کی کچھ جمع رقم، بےنامی لین دین کے دائرے میں آتی ہوں، اور ٹیکس محکمے کے ذریعے اس کی جانچ کی جانی چاہیے، جو بےنامی لین دین (ممنوعہ) ترمیم قانون، (2016) کو نافذ کرانے کی ذمہ داری نوڈل ایجنسی کی ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ ٹیکس محکمے نے نوٹ بندی کے بعد بڑی مقدار میں نقد جمع کرانے والے مشتبہ بینک کھاتوں پر کارروائی کے لئے ایک ملک گیر مہم شروع کی تھی۔ماضی میں این ڈی اے-2 حکومت نے خود بھی ٹیکس چوری کرنے والے ‘ کسانوں ‘ کی پہچان کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔2016 میں وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے راجیہ سبھا کو یہ بتایا تھا کہ حکومت کسان بنکر ٹیکس چوری کرنے والوں پر کارروائی کر رہی ہے۔ جیٹلی نے کہا کہ ٹیکس محکمہ اپنی غیرمنقول / غیراعلانیہ آمدنی کو زراعتی آمدنی کے طور پر دکھانے والے ٹیکس چوروں پر کارروائی کر رہی ہے۔
2007-08 سے 16-2015کے درمیان بنگلور علاقے میں 321 لوگ، دہلی میں 275، کولکاتہ میں 239، ممبئی میں 212، پونے میں 192، چنئی میں181،حیدرآباد میں 162، تروآننت پورم میں 157 اور کوچی میں 109 لوگوں نے اپنی زراعتی آمدنی کم سے کم 1 کروڑ دکھائی تھی۔نیوز ایجنسی پی ٹی آئی نے سرکاری اعداد و شمار کے حوالے سے یہ جانکاری دی تھی۔ یعنی اس مدت میں 2746 اکائیوں اور افراد نے 1 کروڑ روپے سے زیادہ کی زراعتی آمدنی کی اعلان کیا تھا۔
جیٹلی نے کہا تھا، زراعتی شعبے کی حالت کو دیکھتے ہوئے کسانوں کی زراعتی آمدنی پر محصول لگانے کی کوئی تجویز نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی آدمی اس اہتمام کا غلط استعمال کرتا ہے اور غیرزراعتی آمدنی کو زراعتی آمدنی کے طور پر دکھانے کی کوشش کرتا ہے، تو ہم اس نجی معاملے کی تفتیش کریںگے۔انہوں نے یہ بھی جوڑا، ‘ کئی اہم لوگوں نے ایسا کرنے کی کوشش کی ہے اور ان کے خلاف جانچ چل رہی ہے۔ جب جانچ پوری ہوتی ہے اور کچھ نام سامنے آتے ہیں، تو میری گزارش ہے کہ اس پر سیاسی کارروائی ہونے کا الزام نہ لگایا جائے۔ ‘
جیٹلی تب جنتا دل (یونائٹیڈ) رہنما شرد یادو اور بہوجن سماجوادی پارٹی رہنما مایاوتی کے سوالوں کا جواب دے رہے تھے۔ دونوں رہنماؤں نے اس جانب دھیان دلایا تھا کہ کچھ لوگ اپنا کالا دھن کو چھپانے کے لئے زراعتی آمدنی کے راستے کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔نوٹ بندی کے بعد ٹیکس محکمے نے اشتہار دےکر لوگوں کو بتا دیا تھا کہ وہ اپنی غیراعلانیہ آمدنی دوسروں کے کھاتوں میں جمع نہ کرائیں اور یہ کہا تھا کہ ایسا کرنے والوں کے خلاف بےنامی ایکٹ کے تحت کارروائی کی جا سکتی ہے۔
بےنامی لین دین (ممنوعہ) ترمیم قانون، 2016 نومبر سے اثر میں آیا۔ اس قانون کے مطابق بےنامی جائیداد کے تحت منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد، براہ راست یا بلاواسطہ جائیداد، طبعی یا غیرطبعی جائیداد شامل ہیں۔اس قانون میں بےنامی جائیدادوں کی عارضی قرقی اور ضبطی کا اہتمام ہے۔ یہ بےنامی لین دین کے مستفید مالک، بےنام دار، اکسانے اور لالچ دینے والوں کے خلاف مقدمہ چلانے کی بھی اجازت دیتا ہے، جس میں 7 سال کی با مشقت قید اور اس جائیداد کی مناسب بازار قیمت کے 25 فیصد تک کے جرمانے کا بھی اہتمام ہے۔
Categories: فکر و نظر