تحفظ کا حوالہ دےکر جامعہ انتظامیہ نے طالبات کے ہاسٹل بند ہونے کا وقت رات 10:30 بجے سے گھٹاکر 9 بجے کر دیا ہے ۔ اس کے خلاف مظاہرے پر بھی پابندی لگا دی ہے۔
نئی دہلی : جامعہ ملیہ اسلامیہ نے اس سیشن سے طالبات کے لئے رات میں ہاسٹل بند ہونے کا وقت گھٹاکر واپس 9 بجے کر دیا ہے۔ 3 مہینے پہلے طالبات کے زبردست مظاہرے کی وجہ سے ہاسٹل کا وقت رات 8 بجے سے بڑھاکر 10:30 بجے کیا گیا تھا۔ اتناہی نہیں یونیورسٹی انتظامیہ نے ہاسٹل بند ہونے کے وقت کو لےکر کسی بھی طرح کے مظاہرہ پر بھی پابندی لگا دی ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ کے اس قدم کو لےکر طالبات میں غصہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک بالغ شہری کے طور پر ان کو اپنی زندگی سے جڑے فیصلہ لینے کا پورا حق ہے۔
ادھر یونیورسٹی انتظامیہ نے اس اصول کے پیچھے ‘ گارجین کی شکایت اور فکر ‘ کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ یونیورسٹی کا کہنا ہے کہ گارجین نے تحفظ کو لےکر تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے وہ نہیں چاہتے کہ ان کی بچیاں رات 10:30 بجے تک کیمپس سے باہر رہیں۔ واضح ہو کہ جامعہ میں لڑکوں کے لئے 7 ہاسٹل ہیں جن میں تقریباً 1200 اسٹوڈنٹس کے رہنے کی گنجائش ہے اور لڑکیوں کے لئے چار ہاسٹل ہیں جن میں تقریباً 830 کی گنجائش ہے۔
یونیورسٹی انتظامیہ کے اس فیصلے پر علمِ نفسیات سے بی اے کر رہی صائمہ کہتی ہیں، ‘ اس ملک کے ایک شہری کے طور پر ووٹ دینے کا ہمیں حق ہے، حکومت کے انتخاب کا حق ہے۔ شادی کرنے اور بچے پیدا کرنے کے لئے بھی ہمیں بالغ سمجھا جاتا ہے پر رات کو 9 بجے کے بعد جامعہ سے باہر نکلنے کے لئے ہمیں اہل نہیں سمجھا جاتا۔ کیوں ہماری زندگی کا یہ فیصلہ گارجین اور یونیورسٹی انتظامیہ اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے۔ کیا تحفظ کا حوالہ دےکر ہمارے بنیادی حقوق چھیننا غلط نہیں ہے۔ ‘
صائمہ کہتی ہیں کہ تین مہینے پہلے یعنی 18 مارچ کی رات کو زبردست مظاہرہ کے بعد ہاسٹل بند ہونے کا وقت بڑھایا گیا تھا یونیورسٹی نے اس فیصلے کو اچانک سے واپس لےکر طالبات کے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔ ہاسٹل بند ہونے کا ٹائم ٹیبل واپس گھٹائے جانے کو لےکر ناراض طالبات نے گزشتہ 4جولائی کو وائس چانسلر طلعت احمد کو خط لکھکر ہاسٹل انچارج کے استعفیٰ یا ان کو عہدے سے ہٹانے کی مانگ کی ہے۔
طالبات نے خط میں لکھا ہے، ‘ ہمیں ہاسٹل کے نئے اصولوں کی جانکاری اس سیشن کے لئے جاری ہوئے نئے پراسپیکٹس سے ملی جو کہ ان مانگوں کے خلاف ہیں جن کو انتظامیہ اسی سال 18 مارچ کو ہوئے مظاہرہ میں پہلے ہی مان چکی تھی۔ ان مانگوں میں سب سے اہم ہاسٹل کا ٹائم ٹیبل یعنی کرفیو ٹائم بڑھانے کی بات تھی۔ اس سیشن سے اس کو واپس گھٹاکر رات 10:30 بجے سے نو بجے کر دیا گیا ہے۔ ‘ صائمہ کہتی ہیں کہ اگر کسی کے ماں باپ نے شکایت کی بھی ہے تو یونیورسٹی کو سمجھنا چاہیے کہ ماں باپ کی فکر معقول ہے پر جب ہم ایک بالغ کے طور پر اپنی زندگی کا فیصلہ لینے کے لئے اہل ہیں تو ہمارے بنیادی حقوق کو تحفظ کا حوالہ دےکر کیسے چھینا جا سکتا ہے۔
ماس کمیونیکیشن کی ایک طالبہ نے نام نہ بتانے کی شرط پر کہا، ‘ اس طرح کی کوئی بھی شکایت نہیں کی گئی ہے۔ انتظامیہ جھوٹ بولکر اس بات کی ذمہ داری گارجین پر ڈال رہی ہے۔ ‘ انہوں نے کہا، ‘ انتظامیہ بھلےہی تحفظ کا حوالہ دےکر ہم سے ہماری آزادی چھین رہی ہو اور ہمیں اصولوں میں قید کر رہی ہو لیکن اصل میں وہ ہمارے تحفظ کی پرواہ نہیں کرتی۔ اگر کسی کو واپس آنے میں دیر ہو جائے تو وہ ہمارے داخلے پر روک کیسے لگا سکتے ہیں۔ اتنی رات میں 15 منٹ کی دیری پر اندر ہی آنے نہ دینا کیسا تحفظ ہے۔ ‘
طالبات میں یونیورسٹی انتظامیہ کے اس قدم کے خلاف بھی غصہ ہیں، جس کے تحت اب وہ ہاسٹل بند ہونے کا وقت بڑھانے کو لےکر مظاہرہ بھی نہیں کر سکیںگی۔ طالبات نے ہاسٹل کے فارم پر دستخط کرنے سے انکار دیا ہے جس میں ان کو انتظامیہ کے خلاف کسی بھی طرح کے مظاہرہ اور تحریک میں حصہ نہ لینے کی بات قبول کرنی تھی۔ وائس چانسلر کو لکھے خط میں طالبات نے لکھا ہے، ‘ نئے پراسپیکٹس کے تحت ہمیں یہ فارم 14 جولائی تک جمع کرانے کو کہا گیا ہے۔ ہم ایسے کسی فارم پر دستخط کرنے سے انکار کرتے ہیں جس کے مطابق کسی بھی غیر جمہوری اور من مانے قاعدےقانون کے خلاف ہمارے جمہوری طریقے سے مخالفت کرنے کے بنیادی حق کو چھینا جائے۔ ‘
دی وائر نے جن طالبات سے بات کی ان سبھی نے اس بات پر غصہ ظاہر کیا ہے کہ نئے پراسپیکٹس میں قاعدے-قانون کے تحت انتظامیہ نے ان اصولوں کے خلاف کسی طرح کے مظاہرہ، تحریک یا عرضی پر پابندی لگا دی ہے اور ایسا کرنے پر ہاسٹل سے فوراً نکال دئے جانے کی بات لکھی گئی ہے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ویب سائٹ پر لڑکوں کے لئے بھی میس اور کرفیو ٹائم یعنی ہاسٹل بند ہونے کے وقت کو لےکر قاعدے قانون لکھے ہوئے ہیں لیکن اس بارے میں لڑکیوں کی کچھ اور ہی رائے ہے۔ جامعہ سے اسی سال اپنی پڑھائی پوری کرنے والی ایک دوسری طالبہ نام نہ بتانے کی شرط پر بتاتی ہیں، ‘ لڑکوں کے لئے اصول صرف کاغذ پر لکھے ہوئے ہیں، ان پر عمل نہیں کیا جاتا لیکن لڑکیوں کے لئے ان اصولوں کو سختی سے نافذ کیا جاتا ہے۔ ان کو توڑنے پر ان کے خلاف کڑی کارروائی بھی کی جاتی ہے۔ لڑکے کبھی بھی آجا سکتے ہیں، ان کے لئے کوئی بھی معین وقت نہیں ہے۔ ‘
وہ آگے بتاتی ہیں، ‘ لڑکیوں کو کھانے کا بہت مسئلہ ہوتا ہے، ہم نہ ہی میس میں کچھ بنا سکتے ہیں نہ ہی باہر سے کچھ منگا سکتے ہیں اور نہ الیکٹرک کیٹل یا کوئی بھی بجلی کا سامان رکھ سکتے ہیں۔ اس اصول کا کوئی بھی مطلب نہیں ہے، کیونکہ ہم ہر چیز کی فیس دیتے ہیں پر اس کا استعمال نہیں کر سکتے۔ ‘ بی اے ایل ایل بی کی طالبہ ثانیہ بتاتی ہیں، ‘ لڑکوں کے لئے ہاسٹل میں ایسے کوئی اصول نہیں ہے وہ اگر وقت سے بعد میں بھی آئیں تو کوئی کارروائی نہیں کی جاتی ہے۔ لڑکیاں کرفیو ٹائم کے بعد ہاسٹل میں قید ہوتی ہیں، میس کا کھانا اچھا نہیں ہوتا پھر بھی ان کے لئے میس کی سروس لینا ضروری ہے، وہ باہر سے کھانا نہیں منگا سکتیں ہیں۔ وہیں لڑکوں کے لئے آنے جانے پر کوئی کڑی روک نہیں ہے۔ ‘
لڑکیوں اور لڑکوں کے درمیان امتیازی قاعدے قانون کو لےکر جامعہ سے ایم فل کر رہے ایک طالب علم نے نام نہ بتانے کی شرط پر کہا، ‘ یہ سچ ہے کہ لڑکوں کے لئے آفیشیل طور پر جو وقت رات 10 بجے کا دیا ہوا ہے اس پر عمل نہیں ہوتا لڑکے کبھی بھی آ جا سکتے ہے۔ اصول توڑنے پر ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی ہے۔ ‘ یہ مانتے ہوئے کہ قاعدے قانون امتیاز ی ہے، وہ بتاتے ہیں، ‘ ہم بھی تانیثی تحریک کی حمایت میں ہیں لیکن آئے دن جس طرح کے واقعات ہوتے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے تحفظ کا مدعا بھی اہمیت رکھتا ہے۔
اگر کرفیو ٹائم بڑھانے کے بعد دیر رات کسی لڑکی کے ساتھ کوئی انہونی ہوتی ہے تو انتظامیہ کیسے ذمہ دار ہے۔ کیا کسی لڑکی کے ماں باپ یہ لکھکر دینے کو تیار ہیں کہ ان کی بیٹی کے ساتھ کچھ ہوتا ہے تو اس کے لئے انتظامیہ ذمہ دار نہیں ہوگا۔ ‘ ادھر ثانیہ بتاتی ہیں، ‘ رات 11:30 بجے کے بعد لڑکیاں ایک ہاسٹل سے دوسرے ہاسٹل بھی نہیں جا سکتیں۔ ان اصولوں کے خلاف ایک مدت سے جدو جہد کی گئی تھی اور مظاہرہ کے بعد ہاسٹل بند ہونے کا وقت رات 10:30 بجے کرایا گیا تھا۔ ہم نے کافی وقت سے پدری نظام اور امتیازی قاعدے قانون کے خلاف لڑائی کی ہے۔ 3 مہینے پہلے تھوڑی سی جیت حاصل کی تھی جس سے اب انتظامیہ پلٹ رہا ہے۔ ‘
ثانیہ کہتی ہیں، ‘ کچھ اصول تو اتنے بےتکے ہیں جن کا کوئی حساب نہیں، اگر مجھے چھٹی پر جانا ہے تو 24 گھنٹے پہلے اس کے لئے اجازت مانگنی پڑتی ہے۔ اس کے بعد ہمیں گیٹ پاس دیا جاتا ہے۔ ہمیں اپنے گارجین کو بھی فون، میسج اور ای میل کر اس بارے میں مطلع کرنا ہوتا ہے۔ ایسے میں اچانک کہیں آنے جانے کا سوال ہی نہیں۔ ‘ ثانیہ کے مطابق، ‘ جب ہاسٹل انچارج اور وارڈن اپنی فیملی (شوہر اور لڑکے) کے ساتھ ہاسٹل میں رہ سکتی ہیں تو سمجھ نہیں آتا آخر کیوں ہمارے ماں باپ ہاسٹل کے اندر بھی نہیں آ سکتے۔ کئی بار تحفظ کا حوالہ دےکر ہمارے بھائی اور والد سے شناختی کارڈ مانگا جاتا ہے جبکہ ہاسٹل کے اندر اور میس میں تقریباً سارے اسٹاف مرد ہیں۔ ‘
گارجین کے اندر آنے کو لےکر جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ہاسٹل انچارج عذرا خورشید نے بتایا، ‘ ہم گارجین کو آفس تک آنے کی اجازت دے سکتے ہیں، وہاں کولر،پانی ہر چیز کا انتظام ہے پر ان کو لڑکیوں کے کمرے میں آنے کی اجازت نہیں دے سکتے اس سے دوسری لڑکیوں کو اعتراض ہو سکتا ہے۔ ‘ ہاسٹل کے اندر وارڈن اور کیئرٹیکر کی فیملی کے مرد ممبروں کے رہنے کو لے کر عذرا نے کہا، ” یہ یونیورسٹی کے اصول میں شامل ہے اور آج سے نہیں وارڈن اور کیئر ٹیکر اپنی فیملی کے ساتھ سالوں سے وہاں رہے ہیں ۔
طالبات نے یونیورسٹی انتظامیہ پر مورل پولیسنگ کا الزام لگایا ہے، صائمہ کا کہنا ہے، ‘اصول کے مطابق طالبات کو میس اور مین گیٹ کے پاس ‘ٹھیک طریقے’ سے کپڑے پہن کر جانے کی ہدایت دی ہے۔ ثانیہ کہتی ہیں، ” اتنا ہی نہیں لڑکیوں کے لیے یہ بھی قانون ہے کہ ان کا لوکل گارجین شادی شدہ ہونا چاہیئے۔ یہ کیسے ضروری ہے کہ دہلی میں کسی کا رشتہ دار ہو ہی اوروہ شادی شدہ بھی ہو۔ جامعہ کی ہاسٹل انچارج عذرا خورشید نے اس بارے میں دی وائر سے اپنی بات چیت میں کہا ” 10:30بجے کا کرفیو ٹائم کو لے کر گارجین نے شکایت نہیں کی بلکہ وہ طالبات کے تحفظ کو لے کر فکرمند ہیں۔ ‘
ہاسٹل کا ٹائم بڑھاکر رات 10:30 بجے کر کے آپ نے طالبات کی ساری بات مان لی تھی، اس سوال پر عذرا کہتی ہے، ‘ تین مہینے پہلے مظاہرہ کے دوران لڑکیوں کی مانگوں پر انتظامیہ کے ذریعے دستخط ضرور کیا گیا تھا لیکن اتنی رات کو مظاہرہ کے درمیان اتنا دباؤ تھا کہ ان کے مطالبہ کو کیسے پورا پڑھا جا سکتا ہے۔ ‘ عذرا آگے کہتی ہیں، ‘ ہم جو کر رہے ہیں وہ صرف لڑکیوں کے تحفظ کو لےکر ہے ، بھلا ہمارا اس سے کیا فائدہ۔ ‘
Categories: فکر و نظر