سینئر بی جے پی رہنما مرلی منوہر جوشی کی قیادت والی لوک سبھا کی Estimates Committee ہندوستان میں بیڈ لون کی مقدار اور دانستہ طورپر دیوالیہ ہونے کے معاملے کی جانچکر سکتی ہے۔
سینئر بی جے پی رہنما مرلی منوہر جوشی کی قیادت والی لوک سبھا کی Estimates Committee نے سابق چیف اقتصادی صلاح کار اروند سبرامنیم، فنانس سکریٹری ہنس مکھ ادھیا، آر بی آئی کے ڈپٹی گورنر مہیش کمار جین اور اقتصادی معاملات کے سکریٹری سبھاش چاندرگرگ کو بینکنگ نظام میں بڑھتے این پی اے کے لئے سمن جاری کیا ہے۔اس سے پہلے جوشی نے پبلک اکاؤنٹنگ کمیٹی (پی اے سی) کی صدارت کی تھی جس نے 2جی گھوٹالہ پر ایک رپورٹ تیار کی تھی۔غور طلب ہے کہ Estimates Committee حکومت کے ذریعے حاصل کئے گئے رقم کے اخراجات کے تخمینہ کی جانچ پڑتال کرتی ہے۔ اس معاملے میں ذرائع کا کہنا ہے کہ جوشی مالی نظام کو نقصان پہنچانے والے بیڈ لون کی تفتیش کرنے میں ایک غیر جانبدارانہ نظریہ چاہتے ہیں۔
وزارت خزانہ سے استعفیٰ دے چکے چیف اقتصادی صلاح کار اروند سبرامنیم کو سمن بھیجنا اس معنی میں خاص ہے۔ اروند سبرامنیم معیشت کے اپنے تجزیے میں صاف گوئی کے لئے جانے جاتے ہیں۔دی وائر نے اپنی تفتیش میں پایا کہ کمیٹی کے ذریعے سمن بھیجے جانے سے وزارت خزانہ میں افراتفری کا ماحول ہے۔ وزارت خزانہ کی ذمہ داری ابھی پیوش گوئل کے پاس ہے۔ حالانکہ وزیر خزانہ ارون جیٹلی مختلف پالیسی کے مسائل پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔
جوشی کی رہنمائی والی پارلیامانی کمیٹی این پی اے (تقریباً 10 لاکھ کروڑ روپے) کی جانچ ایسے وقت پر کرےگی جب این ڈی اے حکومت اس مسئلہ سے بڑے پیمانے پر جوجھتی نظر آ رہی ہے۔مرکز کی مودی حکومت کے ذریعے اس مسئلہ کے حل کی کوشش میں تاخیر کرنے کی وجہ سے این پی اے بحران کو مینج کرنا مشکل ہو گیا ہے۔غور طلب ہے کہ ہندوستان میں اگلےسال عام انتخابات ہونے ہیں۔ ایسے میں ہم آر بی آئی کی مالی اسٹیبلٹی پر آئی حالیہ رپورٹ دیکھیں تو اس میں کہا گیا ہے کہ مارچ 2019 تک بینکنگ سسٹم میں بیڈ لون کی مقدار مارچ 2018 کے 11.6 فیصد کے مقابلے بڑھکر 12.2 فیصد ہو جائےگی۔
یہ اعداد و شمار دکھاتے ہیں کہ بیڈ لون کا مسئلہ بدتر ہوتا جا رہا ہے اور بی جے پی کشمکش کی حالت میں ہے، کیونکہ کچھ بڑے کارپوریٹ ڈیفالٹر (خاص کر انفراسٹرکچر سیکٹر) انتخابات میں بھاری مقدار میں چندہ دیتے رہے ہیں۔ان حالات سے لگتا ہے کہ 2019 کے لوک سبھا انتخابات تک بڑے کارپوریٹ ڈیفالٹرس کو حکومت راحت دے سکتی ہے۔وزیر خزانہ پیوش گوئل کے ذریعے حال ہی میں بجلی محکمہ کے بیڈ لون (تقریباً 2.5 لاکھ کروڑ) کے حل کے لئے قائم کی گئی special asset management company (اے ایم سی) کو کچھ متاثر کن بزنس گھرانوں کو راحت دینے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ان متاثر کن گھرانوں کا بجلی منصوبہ پہلے سے ہی ڈیفالٹر لسٹ میں ہے اور ان کوسینٹرل بینک کی نئے ہدایات کے مطابق، 1 اکتوبر تک دیوالیہ پن کی کارروائی میں آگے بڑھنا ہوگا۔
حالانکہ کیا نئی تشکیل شدہ اے ایم سی ان تجارتی گھرانوں کو اکتوبر تک دیوالیہ پن کارروائی میں جانے سے بچا سکتی ہے؟ یہ لاکھ ٹکے کا سوال ہے۔چیف اقتصادی صلاح کار اروند سبرامنیم نے پچھلے ہفتے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ یہ واضح نہیں ہے کہ حال ہی میں تشکیل شدہ اے ایم سی دیوالیہ پن کی عدالت میں چل رہی کارروائی کے ساتھ کس طرح سے تال میل بٹھائےگی، جس کو این ڈی اے حکومت اپنی سب سے بڑی اصلاحات میں سے ایک کے طور پر پیش کرتی ہے۔ کیا یہ دونوں ایک دوسرے کے خلاف کام کریںگے یا ساتھ میں ملکر؟
سبرامنیم کے ذریعے ظاہر کئے گئے شبہ سے کئی دیگر ماہرین بھی متفق ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ دیوالہ اور دیوالیہ پن قانون (آئی بی سی) ایک خاص قانونی ڈھانچہ لایا ہے جو لون دینے والے اداروں جیسے بینکوں کو اپنے دیوالیہ ہو چکے پرموٹروں سے کمپنی کو حاصل کرنے کی چھوٹ دیتا ہے۔حالانکہ وزیر خزانہ پیوش گوئل کے ذریعے تشکیل شدہ اے ایم سی پرموٹروں کو کچھ راحت ضرور عطا کرتی ہے۔فی الحال یہ کچھ پیچیدہ مسائل ہیں جن کو پارلیامانی کمیٹی دیکھ سکتی ہے۔ پارلیامانی کمیٹی پرموٹروں کے ذریعے دانستہ طورپر دیوالیہ (ول فل ڈیفالٹرس) اعلان کئے جانے کے مسئلے کی جانچکر سکتی ہے، جو قانونی طور سے ان کی ذاتی جائیداد کو ضبط کرنا ممکن بناتی ہے۔
ابھی تک بہت کم پرموٹروں کو ول فل ڈیفالٹرس اعلان کیا گیا ہے۔ دانستہ طورپر دیوالیہ ہونا تب ہوتا ہے جب کسی مخصوص پروجیکٹ کے لئے اٹھائے گئے قرض کو کسی اور پروجیکٹ میں استعمال کر لیا جاتا ہے۔ یہ خاندانوں کی ملکیت والے بڑے کاروباری گروپوں میں بہت عام ہے۔فی الحال وزارت خزانہ کے ذریعے کئی بجلی کمپنیوں کے خلاف مقدمہ چلایا جا رہا ہے، جنہوں نے مبینہ طور پر در آمد کئے جانے والے بجلی آلات کا اوور انوائسنگ کرکے فنڈ کو بیرون ملک بھیج دیا۔ ان کمپنیوں کے بیڈ لون کے مسئلہ کو حل کرنے کے طریقے پر غور کرتے وقت ان جانچوں کو ضرور دھیان میں رکھا جانا چاہییے۔
Categories: خبریں