خبریں

بھوپال : تاریخی زینت منزل منہدم ،لوگوں میں غم وغصہ

آرکیٹیکٹ ایس ایم  حسین نے دی وائر کو بتایا  کہ یہ  بےحد افسوس کی بات ہے کہ ایک بعد کے ایک  ان محلات کو گرایا جا رہا ہے اور شہر کی تاریخ مٹتی جار ہی ہے۔

فوٹو : شمس الر حمٰن علوی

فوٹو : شمس الر حمٰن علوی

بھوپال:شہر کے مشہور Royal Quadrantکی ایک اور  تاریخی عمارت  زینت منزل سرکاری بے رخی اور آثار قدیمہ کے تیئں بلدیہ کی  بےنیازی کا شکار ہو گئی اور اس کے ‘اسپائر’یا مینارے آخر کار  تاریخ کا حصہ بن گئے۔بلدیہ نے اس عمارت کے بالائی حصہ کو بدھ کی شام کو گرا  دیا۔ یہ  عمارت انہیں محلات کے سلسلے کا حصہ تھیں جوپرانے بھوپال کے اقبال میدان کے چاروں طرف ہیں  اور جو سابق ریاست  کی بیگمات اور نوابین کے سوا دو سو سال سے زیادہ عرصے کےاقتدار کے دوران تعمیر ہویئں تھیں۔

غور طلب ہے کہ بارش کی وجہ سے زینت منزل کا ایک حصہ مخدوش سمجھا گیا اور  کچھ لوگوں کو اندیشہ ہوا کہ اس کی وجہ سے آس پاس کی عمارت اور اس سے متصل ہیرا مسجد کو کچھ نقصان ہو سکتا ہے مگر بغیر آثار قدیمہ کے ماہرین سے مشورہ کئے، بلدیہ نے نہ صرف عمارت کی بالائی منزل پر مشرقی سمت کا  مینار توڑا بلکہ مغربی طرف کا حصہ بھی ڈھا دیا جسکی قطعاً ضرورت نہیں تھی۔بالکل اسی طرح دو سال قبل بارش کے بعد  شوکت محل  کی اوپری منزل کو منہدم کر دیا گیا تھا۔ زینت منزل  در اصل شوکت محل سے متصل عمارت تھی ۔ اس کی خصوصیت یہ تھی کہ یہ انڈو اسلامک اور فرینچ آرکیٹکچر  کا ایک نمونہ تھی-اس کے قریب شیش محل ہے۔ دوسری طرف موتی  محل اور سامنے کی طرف گوہر محل اورایک سمت موتی مسجد ہے۔آثار قدیمہ کے تحفظ کےلیے سرگرداں شہری  اس کارروائی سے افسردہ ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اتنی جلد بازی میں اور بغیر کسی ایکسپرٹ کی موجودگی کے یہ سب کر دیا گیا، جو اور بھی حیرت انگیز ہے۔

آرکیٹیکٹ ایس ایم  حسین نے دی وائر کو بتایا  کہ یہ  بےحد افسوس کی بات ہے کہ ایک بعد کے ایک  ان محلات کو گرایا جا رہا ہے اور شہر کی تاریخ مٹتی جار ہی ہے۔یہ عمارتیں بہت مضبوط ہیں اور چونے کی تعمیرات کی عمر ایک ہزار سال سے بھی زیادہ ہوتی ہے، بس شرط یہ ہے کہ تھوڑی دیکھ ریکھ ہو اور مرممت قاعدے سے کی جائے”۔انہوں نے مزید کہا کہ ؛یہ غلط بات ہے کہ کسی بھی شاہی دور کی عمارت کو مخدوش قرار دے کر گرا دیا جاتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے ایک ذرا سا   دھیان دیا جائے تو یہ  عمارتیں سالہا سال بلکہ صدیوں تک مضبوطی سے کھڑی رہیں۔ در اصل بلدیہ کا ان محلات کے لئے کوئی پلان ہی نہیں ہے۔ نہ کوئی ہیریٹیج شاخ میونسپل کارپوریشن میں کام کر رہی ہے اورنہ ہی حکومت کی توجہ ہے۔ کئی عمارتوں  کو پرائیویٹ پراپرٹی  کہہ کر ان کو بچانے تک کی کوشش نہیں کی جاتی۔

“راجستھان کے شہروں میں بھی کئی ایسی عمارتیں ہیں جن میں لوگ رہ رہے ہیں مگر اس کا بھی طریقہ ہوتا ہے اور  ہیریٹیج بلڈنگزہونے کی وجہ سے ان کا باقاعدہ تحفظ کیا جاتا ہے”۔حسین کہتے ہیں کہ انہوں نے میئر آلوک شرما کو کئئ مرتبہ فون کیا مگر کوئی جواب نہیں ملا۔ “یہ بہت افسوس کی بات ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے شہر کی تاریخی وراثت کو ختم کیا جا رہاہے”-اقبال میدان کے چاروں طرف ان پرشکوہ محلات  کا سلسلہ ہے جو آگےحمید منزل،  صدر منزل، ہمایوں منزل اور  دیگر عمارات  تک جاتا ہے۔ مگر  سرکاری بے حسی کی وجہ سے یہ عظیم ہیریٹیج تباہ ہو رہی  ہے۔

دریں اثنا بلدیاتی محکمہ کے اندرونی ذرائع کا ماننا ہے کہ ان عمارتوں کو مسمار کرنے میں کئی مختلف گروپس  کی دلچسپی  ہے۔ کیوں کہ یہ علاقہ شہر کے وسط میں ہے، بلڈرس کی نظر ان تمام تعمیرات پر ہے۔ خاص طور پر، قدیمی محلات اور دروازے جو بھوپال کے نوابی عہدکی یادگار ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مضبوط اور غیر مخدوش عمارات کو مسمار کرنے کے لئے کسی نہ کسی طریقے سے کوششیں ہوتی رہتی ہیں اور اس  کی وجہ سےبھوپال کی ہیریٹیج کا ناقابل تلافی نقصان ہو رہا ہے۔