بہار کی نتیش کمار حکومت اس معاملے میں خاموش رہی۔ وہیں بہار کا میڈیا اور مظفرپور کا شہری سماج بھی 29 بچیوں کے ساتھ ہوئے ریپ کے اس معاملے کو لےکر خاموش ہے۔
بہار کے مظفرپور میں ایک بالیکاگریہہ ہے۔ اس کو چلاتے ہیں این جی او اور حکومت پیسے دیتی ہے۔ اس بالیکاگریہہ میں بھٹکی ہوئیں لڑکیوں کو لاکر رکھا جاتا ہے، جن کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا ہے، ماں باپ نہیں ہوتے ہیں۔ اس بالیکاگریہہ میں رہنے والی لڑکیوں کی عمر 7 سے 15 سال کے درمیان بتائی جاتی ہے۔ ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سائنسیز جیسے ادارہ نے اس بالیکاگریہہ کا سوشل آڈٹ کیا تھا جس میں کچھ لڑکیوں نے جنسی استحصال کی شکایت کی تھی۔
اس کے بعد سے 28 مئی کو ایف آئی آر درج ہوئی اور کشش نیوز چینل نے اس خبر کو تفصیل سے کور کیا۔ یہاں رہنے والی 42 بچیوں میں سے 29 کے ساتھ ریپ اور لگاتار جنسی استحصال کے معاملے کی تصدیق ہو چکی ہے۔ ایک کیمپس میں 29 بچیوں کے ساتھ ریپ کا نیٹ ورک ایکسپوز ہوا ہو اور ابھی تک اہم ملزم کا چہرہ کسی نے نہیں دیکھا ہے۔ پولیس کی کارروائی چل رہی ہے مگر اسی طرح چل رہی ہے جیسے چلتی ہے۔ مئی سے جولائی آ گیا اور پولیس اہم ملزم برجیش ٹھاکر کو ریمانڈ پر نہیں لے سکی۔
اس معاملے کو شدت سے کورکرنے والے سنتوش سنگھ کو راجدھانی پٹنہ کے میڈیا کی چپی بے چین کر رہی ہے۔ وہ ہر طرح سے سمجھنا چاہتے ہیں کہ ایک کیمپس میں 29 بچیوں کے ساتھ ریپ کا ایک پورا نیٹ ورک سامنے آیا ہے جس میں سیاست، عدلیہ، نوکرشاہی اور صحافت سب دھول مٹی کی طرح لوٹ رہے ہیں پھر بھی میڈیا اپنی طاقت نہیں لگا رہا ہے۔ رپورٹر کام نہیں کر رہے ہیں۔ سنتوش کو لگتا ہے کہ پورا سسٹم ریپ کرنے والوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ اس معاملے کو لےکر اسمبلی اور لوک سبھا میں ہنگامہ ہوا ہے مگر رسم ادائیگی کے بعد سب کچھ وہیں ہے۔ خبر کی جانچ ٹھپ ہے تب بھی جب 11 میں سے 10 لوگ گرفتار کئے جا چکے ہیں۔
‘ جس بالیکاگرہ میں 42 میں سے 29 لڑکیوں کے ساتھ ریپ ہوا ہو، یہ کیسے ممکن ہے کہ وہاں ہر مہینے تفتیش کے لئے جانے والے ایڈیشنل ضلع جج کے دورے کے بعد بھی معاملہ سامنے نہیں آ سکا۔ بالیکاگریہہ کے رجسٹر میں درج ہے کہ عدالتی افسر بھی آتے تھے اور محکمہ سماجی فلاح و بہبود کے افسر کے لئے بھی ہفتہ میں ایک دن آنا ضروری ہے۔ ‘
یہ حصہ سنتوش سنگھ کی پوسٹ کا ہے۔ سنتوش نے لکھا ہے کہ بالیکاگریہہ کی دیکھ ریکھ کے لئے پورا انتظام بنا ہوا ہے۔ محکمہ سماجی فلاح و بہبود کے 5 افسر ہوتے ہیں، وکیل ہوتے ہیں، سماجی کام سے جڑے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک درجن سے زیادہ لوگوں کی نگرانی کے بعد بھی 29 بچیوں کے ساتھ ریپ ہوا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ ہائی کورٹ کے تحت اسٹیٹ لیگل کمیشن ہوتا ہے جس کے مکھیا ہائی کورٹ کے ہی ریٹائر جج ہوتے ہیں ۔
بالیکاگریہہ کی دیکھ ریکھ کی ذمہ داری ان کی بھی ہوتی ہے۔ معاملہ سامنے آتے ہی اسی دن ریاستی لیگل کمیشن کی ٹیم بالیکاگریہہ پہنچی۔ اس کی رپورٹ کے بارے میں جانکاری نہیں ہے۔سنتوش سنگھ نے لکھا ہے کہ بالیکاگریہہ کو چلانے والا برجیش ٹھاکر صحافی بھی رہا ہے اور صحافیوں کے نیٹ ورک میں اس کی رسائی ہے۔ سنتوش سمجھنا چاہتے ہیں کہ کیا اس وجہ سے میڈیا میں خاموشی ہے۔
بہار کے اخباروں اور چینلوں نے اس خبر کو ترجیح نہیں دی۔ ضلع ایڈیشن میں خبر چھپتی رہی مگر راجدھانی پٹنہ تک نہیں پہنچی اور دہلی کو تو پتا ہی نہیں چلا۔ برجیش ٹھاکر کے کئی رشتہ دار کسی نہ کسی چینل سے جڑے ہیں۔ ان رشتہ داروں کا کردار واضح نہیں ہے۔ برجیش ٹھاکر گرفتار بھی ہوا مگر تیسرے دن بیماری کے نام پر ہاسپٹل پہنچ گیا۔ ہاسپٹل سے ہی فون کرنے لگا تو بات ظاہر ہو گئی۔
پولیس کو واپس جیل بھیجنا پڑا۔ برجیش ٹھاکر کی فیملی والوں کا کہنا ہے کہ رپورٹ میں ان کا نام اس لئے آیا کہ انہوں نے پیسہ نہیں دیا۔ نہ ہی محکمہ سماجی فلاح و بہبود کی ایف آئی آر میں ان کا نام ہے۔ کسی کا بھی نام نہیں ہے۔ پھر ان کو نشانہ کیوں بنایا جا رہا ہے۔ اس بات کی تو تصدیق ہو ہی چکی ہے کہ 29 بچیوں کے ساتھ ریپ ہوا ہے۔ یہ رپورٹ تو جھوٹی نہیں ہے۔ لیکن 29 بچیوں کے ساتھ کن لوگوں نے لگاتار ریپ کیا ہے، یہ کب پتا چلےگا۔
برجیش ٹھاکر مجرم ہے یا نہیں، یہ ایک الگ سوال ہے مگر جانچ نہیں ہوگی تو پتا کیسے چلےگا۔ تفتیش کیسے ہو رہی ہے، اس پر نظر نہیں رکھی جائےگی تو تفتیش کیسی ہوگی، آپ سمجھ سکتے ہیں۔ سب کے مفاد میں ہے کہ جانچ صحیح سے ہو۔ سنتوش سنگھ نے برجیش ٹھاکر کے ریمانڈ نہ ملنے پر بھی حیرانی کا اظہار کیا ہے۔
‘ ایسا پہلا کیس دیکھنے کو ملا ہے جس میں پولیس برجیش ٹھاکر سے پوچھ تاچھ کے لئے ریمانڈ کی درخواست دیتی ہے لیکن کورٹ نے ریمانڈ کی اجازت نہیں دی۔ پولیس نے دوبارہ ریمانڈ کی درخواست کی تو کورٹ نے کہا کہ جیل میں ہی پوچھ تاچھ کیجیے۔ بعد میں پولیس نے کہا کہ جیل میں برجیش ٹھاکر پوچھ تاچھ میں تعاون نہیں کر رہے ہیں، دو مہینہ ہونے کو ہے ابھی تک وہ پولیس کو ریمانڈ پر نہیں ملا ہے۔ ‘
سنتوش کی اس بات پر غور کیجئے۔ بہار حکومت بھی اس معاملے میں چپ رہی۔ ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سائنسیز نے 23 اپریل کو بہار محکمہ سماجی فلاح و بہبود کو اپنی رپورٹ سونپ دی تھی۔ پھر بھی کوئی ایکشن نہیں ہوا۔ کشش نیوز نے اس کا انکشاف نہیں کیا ہوتا تو کسی کو بھنک تک نہیں لگتی اور کیا پتا بچیوں کے ساتھ ریپ ہوتا رہتا۔ ایک مہینےکے بعد محکمہ سماجی فلاح و بہبود ایف آئی آر درج کرتا ہے۔
سنتوش نے یہ بھی لکھا ہے کہ مظفرپور کی ایس ایس پی ہرپریت کور نے اگر سرگرمی نہ دکھائی ہوتی تو اس معاملے میں تھوڑی بہت کارروائی بھی نہیں ہوتی۔ آپ اس کو چاہے جیسے دیکھیں، مگر سسٹم میں اتنا گُھن لگ گیا ہے کہ پیشہ ور طریقے سے کچھ بھی ہونے کی کوئی امید نہیں ہے۔ سالوں مقدمہ چلےگا، کسی کو کچھ نہیں ہوگا۔ آخر بہار کا میڈیا اور مظفرپور کا شہری سماج اس سوال پر چپ کیوں ہے کہ ایک کیمپس میں 29 بچیوں کے ساتھ ریپ ہوا ہے۔
اس کو یہ جاننے میں دلچسپی یا بےچینی کیوں نہیں ہے کہ کن کن لوگوں کے سامنے ان کو ڈرا دھمکاکر پیش کیا گیا۔ کیا یہ ریپ کے لئے باہر لے جائی گئیں یا ریپ کرنے والے بالیکاگریہہ کے اندر آئے؟
(بہ شکریہ رویش کمار فیس بک )
Categories: فکر و نظر