عشروں پر محیط آمرانہ ادوار کے بعد پاکستان میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ ایک کامیاب انتخابی عمل کے بعد ایک جمہوری حکومت دوسری جمہوری حکومت کو دوسری بار اقتدار منتقل کر رہی ہے۔
پاکستان میں پچیس جولائی کو ہوئے عام انتخابات کے تیس گھنٹوں بعد بھی سرکاری نتائج کا انتظار کیا جارہا ہے۔ تاہم غیرسرکاری جزوی نتائج کی روشنی میں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اپنی جیت کا اعلان کرتے ہوئے انتقامی سیاست کو مسترد کرتے ہوئے پاکستان کو بدعنوانی سے پاک بنانے پر زور دیا ہے۔
جیل میں قید عمران خان کے مرکزی حریف سیاستدان نواز شریف سمیت اس الیکشن میں حصہ لینے والی تقریبا سبھی سیاسی جماعتوں نے انتخابی عمل کی شفافیت پر سوال اٹھاتے ہوئے اس الیکشن کو ’شرمناک‘ قرار دے دیا ہے۔ یوں پاکستان میں منعقد ہوئے یہ الیکشن بھی متنازعہ بن گئے ہیں۔ اس الیکشن میں ناکام ہونے والی سیاسی پارٹیوں نے الزام عائد کیا ہے کہ فوج نے الیکشن کے عمل میں مداخلت کی ہے۔ تاہم ملکی الیکشن کمیشن نے ان الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔
’خفیہ منصوبہ کامیاب ہو گیا‘
عمران خان کے سیاسی حریفوں کا یہ الزام بھی ہے کہ ملکی فوج نے آصف علی زرداری اور نواز شریف جیسے مقبول سیاستدانوں سے مقابلہ کرنے کی خاطر عمران خان کی حمایت کی ہے، جس کی وجہ سے ان کی سیاسی جماعت کو کامیابی ملی ہے۔ سیاسی مبصر گل بخاری نے ڈی پی اے سے گفتگو میں کہا، ’’یوں معلوم ہوتا ہے کہ خفیہ منصوبہ کامیاب ہو گیا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ اس الیکشن سے زیادہ اہم یہ بات کے کہ مستقبل میں حالات کس سمت جاتے ہیں۔
متعدد سیاسی مبصرین اور قانونی ماہرین کو یقین ہے کہ ملک کی طاقتور فوج اور عدلیہ نے نواز شریف کو ایک خفیہ منصوبے کے تحت پاکستانی سیاست سے الگ کیا، جس کی وجہ سے ان کی پارٹی مسلم لیگ نون کی عوامی مقبولیت کم ہو گئی اور نتیجہ یہ نکلا کہ عمران خان نے اپنی انتخابی مہم کامیاب طریقے سے چلا کر عوامی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ دوسری طرف عمران خان اور فوج دونوں ہی اس مفروضے کو رد کرتے ہیں۔
بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات
لاہور سسے تعلق رکھنے والی خاتون تجزیہ نگار گل بخاری نے اس شک کا اظہار بھی کیا کہ اقتدار سنبھالنے کے بعد عمران خان ملکی فوج کے اشاروں پر چلیں گے۔ انہوں نے کہا، ’’مجھے یقین نہیں کہ وہ (عمران خان) آزادانہ طور پر فیصلے کر سکیں گے، بالخصوص خارجہ پالیسی اور داخلی سکیورٹی کے حوالے سے۔‘‘
اسی طرح سے سیکورٹی تجزیہ نگار فدا خان کا بھی کہنا ہے کہ عمران خان کوشش کر سکتے ہیں کہ وہ بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات کے حوالے اپنے طور پر فیصلے کریں لیکن ملکی فوج غالبا یہ بات تسلیم نہیں کرے گی۔ اسلام آباد میں مقیم فدا خان کے بقول عمران خان کی ماضی کے بیانات کے حوالے سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کریں گے۔فدا خان کا مزید کہنا تھا کہ یہی وہ مقام تھا، جہاں فوج اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کے مابین اختلاف پیدا ہوا تھا۔ فدا کے مطابق پاکستان کی نئی حکومت کے لیے بھی یہ معاملہ ایک مشکل چیلنج ہو گا۔
انتہا پسندوں کے خلاف عسکری کارروائی
گل بخاری نے کہا کہ دوسرا اہم معاملہ انتہا پسندوں سے نمٹنے کی حکمت عملی ہو گا۔ عمران خان پاکستانی قبائلی علاقہ جات میں فوجی کارروائی کے خلاف تھے اور ان کا اصرار تھا کہ پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔بخاری نے کہا کہ پاکستانی فوج پاکستان اور افغانستان میں جنگجوؤں سے نمٹنے کی اپنی حکمت عملی میں کسی متبادل سیاسی بیانیے کو تسلیم نہیں کرتی اور اگر اقتدار میں آنے کے بعد عمران خان نے اس معاملے پر فوج پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تو ان کے لیے مشکلات زیادہ ہو جائیں گی۔
پاک چائنہ اقتصادی راہداری کا مستقبل
پاکستان کی موجودہ ابتر اقتصادی صورتحال کے تناظر میں یہ بات سب سے اہم ہے کہ چین عمران خان کی حکومت کے ساتھ خود کو کتنا آرام دہ تصور کرتا ہے۔ چین پاکستان میں باسٹھ بلین ڈالر مالیت کے ایک منصوبے پر کام کر رہا ہے، جسے پاکستانی معیشت کے لیے انتہائی اہم قرار دیا جاتا ہے۔پاک چین اقتصادی راہداری نامی اس منصوبے کی تیاری میں نواز شریف کی حکومت نے بنیادی کام کیا تھا۔ اب مسلم لیگ نون کی جگہ ایک نئی سیاسی پارٹی کے ساتھ بیجنگ حکومت کیا توقعات رکھے گی؟ اس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔فدا خان کے مطابق پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال کے تناظر میں ’چین اپنا مؤقف ظاہر کرنے میں کچھ وقت لے گا تاہم چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے چین کو پاکستان میں ہونے والی نئی سیاسی تبدیلی کے ساتھ مطابقت پیدا کرنا ہی پڑے گی‘۔
Categories: خبریں