خبریں

بہار : پان کی زراعت کرنے والے کسانوں کو نتیش حکومت سے کوئی امید کیوں نہیں ہے؟

گراؤنڈ رپورٹ : اس سال جنوری میں مگہی پان کی زراعت کرنے والے کسانوں کی فصل سردی کی وجہ سے برباد ہو گئی۔  حکومت کی طرف سے معاوضہ کی یقین دہانی کے بعد بھی ان کو کوئی مدد نہیں مل سکی ہے۔

زیادہ سردی کی وجہ سے مگدھ علاقے کے 70 فیصد کسانوں کا پان برباد ہو گیا ہے۔  پان سوکھ جانے سے ویران پڑا نوادہ ضلع‎ کا ایک کھیت۔  (فوٹو : امیش کمار رائے)

زیادہ سردی کی وجہ سے مگدھ علاقے کے 70 فیصد کسانوں کا پان برباد ہو گیا ہے۔  پان سوکھ جانے سے ویران پڑا نوادہ ضلع‎ کا ایک کھیت۔  (فوٹو : امیش کمار رائے)

جنوری کے دوسرے ہفتہ میں کڑاکے کی سردی پڑنے سے بہار کے پان کسانوں کی تیارفصل خراب ہوگئی۔یہ خبر سن‌کر بہار حکومت کی زراعت کے وزیر  پریم کمار اور دیہی ترقی کے وزیر شرون کمار پان کسانوں سے ملنے آئے تھے۔  انہوں نے کسانوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کو ایک سے سوا مہینے میں ہی نقصان کا معاوضہ دے دیا جائے‌گا۔اس وعدے کو 6 مہینے ہونے کو آئے ہیں، لیکن پان کسانوں کو اب تک معاوضہ کے طور پر پھوٹی کوڑی بھی نہیں ملی ہے۔

بہار کے وزیراعلی نتیش کمار کے گھر یلوضلع نالندہ کے راجگیر سے قریب 6 کلومیٹر دور واقع گاؤں دہئی سہئی کے پان کسان منا چورسیا کو پریم کمار کی آمد کی یاد اب بھی تازہ ہے۔وہ کہتے ہیں،’زراعت کے  وزیر نے ویران پڑے پان کے کچھ کھیتوں کا دورہ کیا تھا۔  اس کے بعد پان کسانوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ کسانوں کے دکھ کی گھڑی میں ان کے ساتھ ہیں اور کسانوں کو ایک سے سوا مہینے میں معاوضہ دے دیا جائے‌گا۔  ‘منا چورسیا نے کہا، ‘اب تک معاوضہ کی کوئی بات سننے کو نہیں ملی ہے۔ ‘

منا نے ڈھائی لاکھ کا سرمایہ لگاکر 11 کٹھا کھیت میں گزشتہ سال پان کی زراعت کی تھی۔  پان کے پتے تیار ہو گئے تھے۔  جنوری کے آخری ہفتے سے ان کو توڑا جانا تھا، لیکن اس سے پہلے ہی درجۂ حرارت میں گراوٹ آ گئی۔  پارہ لڑھک‌کر 3 ڈگری پر آ گیا، جس سے پان کے پتے بری طرح جھلس گئے۔

شیام سندر پرساد چورسیا نے 4 کٹھا میں پان کی زراعت کی تھی۔  شیت لہری نے پان برباد کر دیا۔  ان کو اب تک معاوضہ نہیں ملا ہے۔  (فوٹو : امیش کمار رائے / دی وائر)

شیام سندر پرساد چورسیا نے 4 کٹھا میں پان کی زراعت کی تھی۔  شیت لہری نے پان برباد کر دیا۔  ان کو اب تک معاوضہ نہیں ملا ہے۔  (فوٹو : امیش کمار رائے / دی وائر)

اس سال انہوں نے 10 کٹھا میں پان کی زراعت کی ہے۔  وہ بتاتے ہیں،’معاوضہ کی یقین دہانی پر میں نے پانچ روپے سود پر قرض لےکر کھیتی کر لی، لیکن اب تک معاوضہ نہیں ملا ہے۔  معاوضہ ملنا تو دور ابھی تک یہ بھی نہیں پتا چلا ہے کہ پیسہ حکومت نے دیا بھی ہے کہ نہیں۔  ‘دہئی سہئی گاؤں پتھرورا پنچایت میں پڑتا ہے۔  اس پنچایت میں دو اور گاؤں ہیں۔  پتھرورا پنچایت کے سابق نائب مکھیا پون کمار کہتے ہیں،’تینوں گاؤں کے 75 کسانوں کا پان سردی میں برباد ہو گیا تھا۔  ہم نے زراعتی اہلکار کو ان کسانوں کی فہرست دے دی تھی۔  ‘

بہار کے مگدھ علاقے میں پڑنے والے چار ضلعوں گیا، نوادہ، اورنگ آباد اور نالندہ میں مگہی پان کی زراعت کی جاتی ہے۔  یہاں کے کسان مگہی پان کو بنارس کی منڈی میں بیچتے ہیں۔بنارس کے کاروباری مگہی پان کی پروسیسنگ کرتے ہیں۔  پروسیسنگ کے بعد اسی پان کو بنارسی پان کہا جاتا ہے۔مگہی پان کی زراعت کرنے والا بہار ملک کی واحد ریاست ہے۔  مگدھ علاقے کے ان چار ضلعوں کے علاوہ دیگر ایک درجن ضلعوں میں بھی پان کی زراعت کی جاتی ہے، لیکن وہ مگہی پان نہیں ہوتے ہیں۔

محکمہ زراعت سے ملے اعداد و شمار کے مطابق مگدھ علاقے کے چار ضلع‎ سمیت بہار کے کل 15 ضلعوں کے پان کسانوں کو شیتلہری سے نقصان ہوا ہے۔مگدھ علاقے کی بات کریں تو یہاں کے چار ضلعوں کے 57 گاؤں میں قیاسی ور پر :تین ہزار کسان مگہی پان پیدا کرتے ہیں۔ اس سال سردی کی وجہ سے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ان چار ضلعوں کے 2680 کسانوں کے پان کی فصل برباد ہو گئی۔

سردی کی وجہ سے خراب ہو چکی اپنے پان کی فصل کے ساتھ نوادہ ضلع‎ کے ہسوا بلاک کے ڈپھلپورا گاؤں کے کسان دھیریندر چورسیا۔  (فوٹو : امیش کمار رائے)

سردی کی وجہ سے خراب ہو چکی اپنے پان کی فصل کے ساتھ نوادہ ضلع‎ کے ہسوا بلاک کے ڈپھلپورا گاؤں کے کسان دھیریندر چورسیا۔  (فوٹو : امیش کمار رائے)

سب سے زیادہ نقصان نوادہ میں ہوا ہے۔  یہاں کے 1286 کسانوں کا پان ٹھنڈ سے جل‌کر راکھ ہو گیا۔  وہیں، نالندہ کے 1028 پان کسانوں کو نقصان ہوا ہے۔منا چورسیا کہتے ہیں،’پان پوری طرح تیار تھا۔  توڑ‌کر بس اس کو بنارس کی منڈی میں لے جانا تھا۔  اچانک شیتلہر پڑنے سے پان برباد ہو گیا تو لگا کہ جیسے ہاتھ میں آئی کھانے کی تھالی چھین لی گئی ہو۔  ‘

مگدھ علاقے میں پان کی زراعت کئی پشتوں سے چلی آ رہی ہے۔یہاں کے زیادہ تر کسان پٹہ پر کھیت لےکر پان اگاتے ہیں، جس کی وجہ سے خرچ بڑھ جاتا ہے۔  چونکہ وہ سالوں سے اس کی زراعت کرتے آ رہے ہیں، اس لئے اس کو چھوڑنا نہیں چاہتے ہیں۔ ساتھ ہی دوسری فصل پیدا کرنے میں خرچ بھی زیادہ ہوگا۔  یہ بھی ایک وجہ ہے کہ یہاں کے کسان مگہی پان کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔

دہئی سہئی کے کسان سنجیت کمار چورسیا نے 8 کٹھا زمین پٹہ پر لےکر پان کی زراعت کی تھی۔  انہوں نے بتایا،’پان کی زراعت کے لئے جب کھیت پٹہ پر لیتے ہیں، تو اس کا حساب کتاب الگ ہی ہوتا ہے۔  ایک کٹھا میں جتنا اترا (پان کے پودے کی لائنیں) ہوتا ہے، اس کے حساب سے مال گزاری دینی پڑتی ہے۔  ‘

انہوں نے کہا، ‘لمبی ساخت کے کھیت میں ایک کٹھا میں چار اترا ہوتا ہے۔  فی اترا ایک ہزار روپے مال گزاری دینی ہوتی ہے۔اس حساب سے ایک سال میں ایک کٹھا کی مال گزاری چار ہزار روپے آتی ہے۔  مجھے 8 کٹھا کھیت کی مال گزاری 32 ہزار روپے چکانی پڑی۔  ‘سنجیت بتاتے ہیں،’نقصان ہونے پر کھانے کے لالے پڑ جاتے ہیں تو دوسروں کے کھیت میں مزدوری کر کے  پیٹ پالنا پڑتا ہے۔پان کی زراعت بھی قرض لےکر کرتے ہیں، اس کا بوجھ تو سر پر رہتا ہی ہے۔  حکومت کچھ مدد دے دیتی، تو بوجھ کچھ کم ہو جاتا۔  ‘

منا چورسیا نے 11 کٹھا میں پان لگایا تھا۔  پان کی پوری فصل خراب ہو گئی۔  اس سال قرض لےکر انہوں نے 10 کٹھا میں دوبارہ پان اگایا ہے۔  (فوٹو : امیش کمار رائے / دی وائر)

منا چورسیا نے 11 کٹھا میں پان لگایا تھا۔  پان کی پوری فصل خراب ہو گئی۔  اس سال قرض لےکر انہوں نے 10 کٹھا میں دوبارہ پان اگایا ہے۔  (فوٹو : امیش کمار رائے / دی وائر)

انہوں نے کہا، ‘حکومت کی طرف سے کوئی یقین دہانی نہیں ہوتی، تو ہم دوبارہ پان لگانے کا جوکھم نہیں اٹھاتے بلکہ دو وقت کی روٹی کے لئے کسی کارخانہ میں ہی کام کر لیتے۔  ‘دہئی سہئی گاؤں کے ہی پان کسان شیام سندر چورسیا نے گزشتہ سال 4 کٹھا میں پان کی زراعت کی تھی، جس میں قریب ایک لاکھ روپے خرچ ہوئے تھے، لیکن موسم کی مار نے ان کی امیدوں کو ختم کر دیا اور رہی سہی کسر سرکاری بے حسی نے پوری کر دی۔

وہ کہتے ہیں،’پان کی زراعت میں بہت محنت ہے۔  دن رات کھیت میں لگا رہنا پڑتا ہے۔  زیادہ گرمی پڑ جائے، تو نقصان۔  زیادہ سردی پڑ جائے، تو نقصان۔  زیادہ بارش ہو، توبھی نقصان۔  ‘شیام سندر کہتے ہیں،’پان کسان سال بھراتناسا (ہاتھ کی انگلیوں سے گول بناتے ہوئے) کلیجہ کئے رہتے ہیں۔  پان برباد ہو جاتا ہے، تو سرمایہ بھی جاتا ہے اور ایک سال کی محنت بھی۔ ایسے میں اگر حکومت بھی دھیان نہیں دے‌گی، تو کیا کریں‌گے ہم۔  ‘

دھننجئے کمار چورسیا نے 6 کٹھا میں پان کی زراعت کی تھی۔انہوں نے کہا، ‘نقصان ہونے کے باوجود اگر حکومت معاوضہ دیتی، تو کچھ ہمت بڑھتی، لیکن حکومت کے رویے نے ہمیں مایوس کر دیا ہے۔  ‘نالندہ کے پان کسانوں کی طرح ہی دیگر 14 ضلعوں کے پان کسان بھی حکومت سے ناامید ہو چکے ہیں۔نوادہ ضلع‎ کے ہسوا بلاک کے ڈپھلپورا گاؤں کے پان کسان دھیریندر چورسیا نے 27 کٹھا میں پان کی کھیتی  کی تھی۔  شیتلہر نے ان کے کھیتوں کو ویران کر دیا۔دھیریندر چورسیا نے بتایا،’شیتلہر سے 7سے8 لاکھ روپے کا نقصان ہو گیا، لیکن حکومت نے ابھی تک چونی بھی نہیں دی ہے۔ ریاستی زراعتی وزیر نے معاوضہ کی یقین دہانی کرائی تھی، تو میں نے اس سال 30 کٹھا میں پان کی زراعت کر دی تھی۔  اب لگتا ہے کہ غلطی کر دی۔ ‘

سنجیت کے پان کی زراعت بھی شیتلہر کی نذر ہو گئی تھی۔  زراعتی وزیر سے معاوضہ کی یقین دہانی ملنے کی وجہ سے انہوں نے پٹہ پر 8 کٹھا کھیت لےکر دوبارہ پان کی زراعت کی ہے، لیکن معاوضہ ملتا نہیں دکھ رہا ہے۔  (فوٹو : امیش کمار رائے / دی وائر)

سنجیت کے پان کی زراعت بھی شیتلہر کی نذر ہو گئی تھی۔  زراعتی وزیر سے معاوضہ کی یقین دہانی ملنے کی وجہ سے انہوں نے پٹہ پر 8 کٹھا کھیت لےکر دوبارہ پان کی زراعت کی ہے، لیکن معاوضہ ملتا نہیں دکھ رہا ہے۔  (فوٹو : امیش کمار رائے / دی وائر)

یہاں کے کسان کئی بار قرض اتارنے کے لئے اپنا کھیت بھی گروی رکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔  دھیریندر چورسیا نے بتایا کہ انہوں نے 10 کٹھا کھیت گروی رکھا ہے۔انہوں نے کہا،’10 کٹھا کھیت تین سال کے لئے گروی رکھا ہے۔اس کے عوض میں مجھے 30 ہزار روپے ملے ہیں۔  اگر میں تین سال میں روپے واپس کر دوں‌گا، تو کھیت مل جائے‌گا، ورنہ نہیں۔  ‘پان کو نقصان پہنچنے کی وجہ سے کئی کسانوں نے اس بار پان کی زراعت چھوڑ دی ہے۔  گیا ضلع‎ کے پپرا گاؤں کے رہنے والے شیوپوجن چورسیا نے کہا، ‘شیتلہر سے پان کو نقصان ہونے اور حکومت کے معاوضہ نہیں ملنے کی وجہ سے میرے گاؤں کے ہی 4-5 کسان اس بار پان کی زراعت نہیں کر رہے ہیں۔  ‘

شیوپوجن نے پچھلی بار 7 کٹھا میں پان کی زراعت کی تھی۔  انہوں نے کہا، ‘مجھے ڈیڑھ لاکھ روپے کا نقصان ہوا ہے۔معاوضہ کے لئے سرکاری افسر تفتیش کرنے آئے تھے۔  کھیت کی ناپی کرکے چلے گئے، لیکن معاوضہ اب تک نہیں ملا ہے۔  ‘معاوضہ کو لےکر نالندہ ضلع‎ کے ضلعی زراعت اہلکار وبھو ودیارتھی سے بات کی گئی، تو انہوں نے کسانوں کی باتوں کی حمایت کرتے ہوئے مانا کہ ان کو ابھی تک معاوضہ نہیں ملا ہے۔انہوں نے کہا،’معاوضہ کی رقم متعلقہ محکمہ کی طرف سے دی جائے‌گی۔ رقم بی ڈی او کے پاس آئے‌گی اور وہاں سے کسانوں تک پہنچے‌گی، لیکن ابھی تک روپے آنے کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔  ‘

اورنگ آباد ضلع‎ کےضلعی زراعت اہلکار راجیش پرساد سنگھ نے بھی معاوضہ نہیں ملنے کی بات قبول کی۔ انہوں نے کہا، ‘معاوضہ کو لےکر محکمہ کی طرف سے کچھ جانکاریاں مانگی گئی ہیں، لیکن، ہاں، کسانوں کو اب تک کوئی معاوضہ نہیں ملا ہے۔  ‘

پان کا کھیت (فوٹو : امیش کمار رائے / دی وائر)

پان کا کھیت (فوٹو : امیش کمار رائے / دی وائر)

دیگر ضلعوں کے زراعتی اہلکاروں کے رد عمل بھی کم وبیش ایسے ہی رہے، لیکن کسی نے بھی یہ یقین  نہیں دلایا کہ کب تک کسانوں کو معاوضہ ملے‌گا۔دوسری طرف، ذرائع سے پتا چلا ہے کہ  محکمہ کی طرف سے ایک ہیکٹیر کے لئے 18000 روپے مختص کرنے کی اسکیم ہے۔لیکن،یہ رقم نقصان کے مقابلے بےحد کم ہے اور کسان اتنا کم معاوضہ لینے کو تیار ہوں‌گے، اس میں شک ہے۔ایک ہیکٹیر میں 79 کٹھا ہوتا ہے۔  ایک ہیکٹیرکے لئے حکومت 18000 روپے دے‌گی۔ اس کا مطلب ہے کہ ایک کٹھا کے نقصان کا عوض میں 250 روپے سے بھی کم معاوضہ ملے‌گا۔

مگہی پان پروڈکشن کمیٹی کے سکریٹری رنجیت چورسیا کہتے ہیں،’ایک کٹھا کھیت میں پان پیدا کرنے  پر 25 سے 30 ہزار روپے خرچ آتا ہے۔ایک کٹھا کھیت پٹہ پر لینے پر ہی 2500 سے 3000 روپے دینے پڑتے ہیں۔ایسے میں حکومت کیا سوچ‌کر 250 روپے سے بھی کم معاوضہ دے رہی ہے،سمجھ سے پرے ہے۔  ‘رنجیت چورسیا نے کہا، ‘زراعت وزیر کی یقین دہانی سے پان کسانوں کے ناامید چہرے کھل گئے تھے، لیکن اب تک معاوضہ نہیں ملنے سے وہ بہت مایوس ہیں۔  ‘

معاوضہ دینے کے وزیر کے اعلان کے بعد سے لےکر اب تک رنجیت چورسیا کئی بار زراعتی وزیر اور دیگر اہلکاروں سے ملاقات کر چکے ہیں، لیکن نتیجہ’ڈھاک کے تین پات ‘جیسا ہی رہا۔انہوں نے حکومت کی منشاء پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا،’اسی مہینے 17 جولائی کو بھاگلپور میں ایک پروگرام میں زراعتی وزیر پریم کمار سے ملاقات ہوئی تھی۔  میں نے ان سے پان کسانوں کو معاوضہ دینے کی بات اٹھائی، تو انہوں نے یقین تک نہیں دلایا۔  اس سے تو یہی لگتا ہے کہ حکومت پان کسانوں کو لےکر سنجیدہ ہے ہی نہیں۔  ‘

(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں اور پٹنہ میں رہتے ہیں۔)