جھارکھنڈ میں سماجی کارکنوں کو ان دنوں کئی طرح کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کئی لوگوں پر مقدمہ درج ہوئے ہیں تو کچھ لوگوں کی گرفتاری ہوئی ہے۔ وہیں، سوامی اگنیویش جیسے سماجی کارکن کے ساتھ مارپیٹ کی گئی ہے۔
جھارکھنڈ کے پاکڑ میں سوامی اگنیویش پر مبینہ طور پر بھارتیہ جنتا یووا مورچہ اور وشو ہندو پریشد کے کارکنوں کے ذریعے کئے گئے حملے کے بعد رد عمل کے ساتھ مخالفت اور حمایت کا دور جاری ہے۔ جبکہ اس واقعہ کو لےکر جھارکھنڈ میں ایک ساتھ کئی سوال کھڑے ہونے لگے ہیں۔دوردراز گاؤں تک اور آخری قطار میں شامل لوگوں کے سوالوں پر کام کر رہے کئی سماجی تنظیم اور کارکن مشکل حالات سے انکار نہیں کرتے۔ ظاہر ہے ان حالات پر میٹنگ کرنے کے ساتھ تبادلہ خیال بھی کیا جا رہا ہے۔
دراصل یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ فرق ہے بس تاریخ اور تصویر کا۔ چہرہ اور جگہ کا۔ غصے کا۔پچھلے مہینے 17 جولائی کو سوامی اگنیویش پاکڑ پہنچے تھے۔ پاکڑ کے لٹی پاڑہ میں پہاڑیہ آدیواسیوں کے یوم دامن کے پروگرام میں ان کو بولنا تھا۔ اس سے پہلے گھیرکر بری طرح سے ان کی پٹائی کر دی گئی۔ ان کے کپڑے پھاڑ ڈالے گئے اور مخالفت میں نعرے بازی کی گئی۔
تب پاکڑ سے رانچی لوٹنے پر اگنیویش نے میڈیا سے کہا کہ ‘ حکومت اسپانسرڈیہ حملہ ماب لنچنگ کی شکل میں تھا۔ ‘ بھیڑ سے ان کو بمشکل بچایا گیا۔رانچی میں ہی سابق وزیراعلیٰ بابولال مرانڈی، سابق مرکزی وزیر سبودھکانت سہائے، سابق وزیر بندھو ترکی جیسے رہنماؤں نے اگنیویش سے ملکر پورے واقعہ کی جانکاری لی۔ظاہر ہے اس واقعہ سے سیاست بھی گرمائی۔ معاملےکی مخالفت میں جھارکھنڈ میں جگہ جگہ مظاہرہ کئے گئے۔ اسمبلی کے سیشن میں حزب مخالف نے اس معاملے کو اٹھایا۔ کافی شور شرابہ ہوا۔
تب اسمبلی میں وزیر نیل کنٹھ سنگھ منڈا نے کہا بھی تھا کہ یہ قابل مذمت واقعہ ہے اور اس کو حکومت نے سنجیدگی سے لیا ہے۔ قصورواروں پر کارروائی ہوگی۔اس دوران بی جے پی حکومت کے وزیر سی پی سنگھ نے اس مدعے پر حزب مخالف کے ہنگامہ پر ناراضگی جتائی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ سوامی اگنیویش پرانے فراڈ اور غیر ملکی دلال ہیں۔حالانکہ اگنیویش پر حملے کو لےکر حکومت نے سنتھال پرگنہ کے کمشنر کو تفتیش کی جوابدہی دی ہے۔ تفتیش جاری ہے۔ ویسے اس معاملے میں اب تک کوئی گرفتاری نہیں ہوئی ہے۔
جب جیاں دریج کو روکا گیا
گزشتہ سال جھارکھنڈ کی راجدھانی رانچی میں منعقد ایک پروگرام میں مشہور سماجی کارکن اور ماہر اقتصادیات جیاں دریج کو بولنے سے روکا گیا تھا۔ اسی پروگرام میں موجود جھارکھنڈ حکومت کے زراعتی وزیر رندھیر سنگھ، جیاں دریج پر بھڑک گئے تھے۔وزیر زراعت، جیاں دریج کو پروگرام سے ہٹانے کی بات کہنے کے ساتھ معافی مانگنے پر بھی زور دیتے رہے۔ وزیر زراعت کا ساتھ دیتے ہوئے بی جے پی کے دیگر کئی رہنماؤں اور کارکنوں نے بھی جیاں دریج کے خلاف غصہ ظاہر کیا تھا۔
حالانکہ منچ پر موجود مرکزی وزیر زراعت رادھاموہن سنگھ نے دریج کے ہاتھ سے مائیک لےکر ناراض وزیر اور رہنماؤں کو خاموش کرانے کی کوششیں ضرور کی۔ تب یہ واقعہ ملک بھر میں سرخیوں میں تھا۔گزشتہ سال 11 اگست کو ریاستی حکومت نے اخباروں کے پہلے صفحہ پر تبدیلی مذہب سے جڑے مسئلے پر ایک اشتہار جاری کیا تھا۔ اس میں مہاتما گاندھی کا حوالہ دیا کیا گیا تھا۔اس کے اگلے دن یعنی 12 اگست کو تبدیلی مذہب پر روک سے متعلق بل اسمبلی سے منظور ہوا۔ 13 اگست کو ایک اخبار کے ذریعے منعقد کانکلیو میں بولنے کے لئے جیاں دریج کو بھی بلایا گیا تھا۔
جیاں دریج نے حکومت کے اسی اشتہار کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ لگتا ہے کہ ریاست خودہی مختلف کمیونٹی کے درمیان عداوت پیدا کر رہی ہے۔ یہ سنتے ہی ریاست کے وزیر زراعت بھڑک گئے تھے۔ جبکہ مرکزی وزیر زراعت نے بھی حکومت کے اشتہار کو صحیح بتایا۔اس واقعہ پر مایوس ہوکرجیاں دریج نے بعد میں کہا تھا کہ الگ الگ خیالات کو بھی سننا چاہیے۔ اس واقعہ نے بھی سماجی تنظیموں کو جھنجھوڑا تھا۔ تب جیاں دریج کی حمایت میں لوگ سڑکوں پر اترآئے تھے۔ ‘اس نعرے کے ساتھ کہ” لازم ہے کہ ہم بولیںگے”۔ ‘
اس واقعہ کے برعکس رواداری اور اظہار کو لےکر نئے سرے سے بحث بھی ہوتی رہی۔جیاں دریج جھارکھنڈ کے سوالوں پر زمینی سطح پر کام کرتے رہے ہیں۔ سماجی تحفظ سے جڑی اسکیموں پر نظر رکھنے کے ساتھ خیالات سے حکومت کو واقف کراتے رہے ہیں۔ وہ رانچی یونیورسٹی میں اقتصادیات کے وزٹنگ پروفیسر بھی ہیں۔
پانی، جنگل اور زمین کی حفاظت اور نقل مکانی کے خلاف سالوں سے تحریک چلا رہے جن سنگھرش وکاس سمیتی کے جیروم جیرالڈ کجور کہتے ہیں کہ عوامی سوالوں پر کام کرنے والوں کی زبان اور جان خطرے میں پڑتے دکھے، تو سمجھا جا سکتا ہے کہ کس قسم کا تانابانا بنا جا رہا ہے۔ اور اس سے بننے والے لوگ کون ہیں۔
جیروم کہتے ہیں کہ ڈر اس کا بھی ہے کہ انتخابات کے قریب آنے کے ساتھ ہی ان سماجی کارکنان کو اور پریشان کیا جا سکتا ہے جو ناقص پالیسیوں اور رویے کے خلاف عوام کو صف بندکرتے رہے ہیں۔جیروم کو اس کا دکھ ہے کہ جھارکھنڈ میں آدیواسیوں کے درمیان کام کرنے والوں کواکثر ان الزامات کا سامنا کرنا ہوتا ہے کہ چرچ یا مشنری اداروں کے اشارے پر اس طرح کے قدم اٹھائے جا رہے ہیں۔
جیروم ان دنوں پلامو ٹائیگر ریزرو کے تحفظ کو لےکر کئی گاؤں کو ہٹائے جانے کی تیاری کے خلاف لگاتار جدو جہد کر رہے ہیں۔جیروم کے سوال بھی ہے؛نقل مکانی مخالف عوامی تحریک کے بانی ممبر فادر اسٹین سوامی سمیت کئی کارکنوں پر وطن سے غداری کا مقدمہ کتنا جائز ہے؟
بحث چھڑی
غور طلب ہے کہ جھارکھنڈ میں کھونٹی پولیس نے فادر اسٹین سوامی کے علاوہ سابق وزیر تھیوڈور کیڑو، جئے پرکاش کی تحریک میں فعال رہے اور قلمکار ونود کمار سمیت 20لوگوں پر ایک ساتھ مقدمہ درج کیا ہے۔ان لوگوں پر لگے الزامات میں یہ بھی شامل ہے کہ فیس بک کے ذریعے پتھل گڑی تحریک کرنے والوں کو ملک کے خلاف بھڑکاتے رہے ہیں۔ پولیس نے ان لوگوں کے فیس بک کی اسکرین شاٹ بھی نکالے ہیں۔
اس کارروائی کو لےکر سماجی و انسانی حقوق کی تنظیموں، سیاسی جماعتوں اور کارکنوں کے رد عمل لگاتار سامنے آ رہے ہیں۔ وہ لوگ پالیسی،مدعا اور عوام کے سوالوں پر اتفاق اور عدم اتفاق کے فرق کو سمجھنے پر زور دے رہے ہیں۔فادر اسٹین سوامی نے دی وائر سے بات چیت میں کہا ہے کہ بےوجہ ان پر سنگین الزام لگائے گئے ہیں۔ اور اس قسم کی کارروائی اور حکمراں طبقے کے غصے کی عام وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ قدرتی وسائل کی حفاظت کے لئے آواز اٹھانے اور حقوق کو لےکر آدیواسی اور غریب عوام کا ساتھ دینے والے سوشل ایکٹیوسٹ کو ان کے راستے سے ہٹایا جائے۔
فادر اسٹین کا کہنا ہے کہ یہاں کے قدرتی وسائل پر کارپوریٹ گھرانوں کی نظر ہے۔ اس کو بچانے کے لئے سالوں سے قبائلی لڑائی لڑ ر ہےہیں ۔ اور ان سوالوں کو وہ لوگ حکومت اور انتظامیہ کے سامنے لاتے رہے ہیں۔ بدلے میں اس طرح کی کارروائی کی جا رہی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ وہ قلمکار اور روشن خیال بھی رہے ہیں اس لئے سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی باتوں سے ہر طبقے کو آگاہ کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔اس واقعہ کو لےکر قبائلی موضوعات کے جان کار سنیل منج نے اپنےفیس بک وال پر لکھا ہے کہ تنقیدیں سنی جانی چاہیے۔ خیالات کا اظہار بنیادی حقوق میں شامل ہے۔فیس بک پر ہی ونود کمار کے ایک پوسٹ پر مشہور رائٹر، ناقد ودیابھوشن نے رد عمل ظاہر کیا ہے کہ اس دباؤ میں دیرسویر بہت لوگ آئیںگے۔ اس خطرے سے لڑائی ضروری ہے۔
جبکہ زیویر ڈائس نے اپنے فیس بک وال پر لکھا ہے کہ 83 سال کے فادر اسٹین سوامی کو جیل بھیجے جانے کی کوشش تکلیف دہ ہے۔ اسٹین تو محروموں کی آواز ہیں۔اس دوران آل انڈیا پیپلس فورم کے مرکزی رہنما سابق ایم ایل اے ونود کمار سنگھ کے علاوہ فورم کے ممبر انل انشومن، ندیم خان، بشیر احمد، مشہور فلم ساز میگھ ناتھ، دیامنی بارلا،زیویر کجور نے سوموار کو مشترکہ بیان جاری کر کے کہا ہے کہ عوام کی جدو جہد کی حمایت میں پوسٹ لکھنا، پالیسیوں پر عدم اتفاق جتانا ملک کے خلاف نہیں ہے۔ اگر بالواستطہ اور بلاواسطہ طور پر ڈر کا ماحول بنایا جائےگا، تو اس سے ریاست کی بہتری متاثر ہوگی۔
سوموار کو ہی رانچی میں اسی مسئلے پر مختلف تنظیموں اور کارکنوں کی میٹنگ ہوئی۔ اس میں اس بات کو لے کر اتفاق بنا ہے کہ حکومت کے سامنے اپنی بات رکھتے ہوئے مقدمہ ہٹانے کی التجا کی جائےگی۔اسی دن سی پی آئی کے سابق رکن پارلیامان بھونیشور مہتہ اور اسی پارٹی کے سابق ریاستی سکریٹری کے ڈی سنگھ نے رانچی میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے ان حالات پر ناراضگی جتائی ہے۔ سابق رکن پارلیامان کا کہنا ہے کہ واقعات پر غور کیجئے تو ایک بات صاف طور پر نشان زد ہوتی ہے کہ بی جے پی اور اس کی حکومتیں ظلم کی پالیسی اپنا رہی ہے۔
غور طلب ہے کہ 24 جولائی کو بھی جھارکھنڈ اور بہار کے درجنوں سوشل ایکٹیوسٹ کا ایک سیمینار رانچی میں ہوا تھا۔ اس سیمینار میں تبدیلی مذہب، ماب لنچنگ جیسے سوال اور عدم اعتماد کے ماحولیات پر تفصیلی گفتگو ہوئی تھی۔سماجی کارکنان پر کارروائی اور حملے کے تناظر میں بی جے پی کے ریاسی ترجمان دین دیال ورنوال سے پوچھے جانے پر وہ ان الزامات سے صاف انکار کرتے ہیں کہ پاکڑ میں سوامی اگنیویش پر حملے کرنے والوں میں بی جے پی یووا مورچہ کے کارکن شامل تھے۔بی جے پی ترجمان کا کہنا ہے کہ اگنیویش کے پاکڑ جانے کا مقصد ٹھیک نہیں تھا۔ وہ جھارکھنڈ میں آدیواسیوں کو بھڑکانے اور ورغلانے میں لگے ہیں اور اکثر متنازعہ بیان دیتے رہے ہیں۔
بی جے پی رہنما کا دعویٰ ہے کہ ان کی پارٹی یا حکومت کسی طبقہ، کمیونٹی کے ساتھ جانبداری نہیں کرتی اور نہ ہی سماجی تنظیموں اورکارکنوں کو پریشان کیا جاتا ہے۔ اب اگر کسی پر مقدمہ درج ہو رہا ہے ، گرفتاری ہو رہی ہے، تو واضح ہے کہ قانون اپنا کام کر رہا ہے۔بی جے پی رہنما کا زور ان باتوں پر ہے کہ جھارکھنڈ میں مشنری اداروں کی سرگرمیوں کا سچ بھی سامنے آنے لگا ہے۔ اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش میں کئی کہانیاں گڑھی جا رہی ہیں۔ بھولے آدیواسیوں کو اہم دھارے میں جڑنے سے روکا جا رہا ہے۔
غور طلب ہے کہ جھارکھنڈ میں بھوک سے ہوتی مبینہ موت، کھانے کے حقوق، منریگا، روزگار کو لےکر بھی اکثر سوال اٹھتے رہے ہیں۔کھانے کے حقوق اور منریگا پر کام کرتے رہے سماجی کارکن دھیرج کمار کہتے ہیں کہ کئی ایسے مواقع آتے ہیں جب وہ لوگ خود کو پریشانی محسوس کرتے ہیں۔دھیرج بتاتے ہیں کہ بھوک سے ہوتی اموات پر کھانے کے حقوق سے جڑی ٹیم نے کئی جوکھم کے درمیان فیکٹ جٹائے۔ حکومت اور انتظامیہ کو واقف کرایا، لیکن ان کو سچ سننا اچھا نہیں لگتا۔ البتہ اس ٹیم سے منسلک ممبروں پر ہی الزام لگائے گئے۔
انہوں نے آگے کہا کہ سماجی تنظیموں، کارکنوں کے کام یا نظریہ پر سوال کھڑے کرنے کے طریقے شفاف ہونے چاہیے نا کہ ان کو پریشان کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ان کو یہ کہتے ہوئےجھجک نہیں کی کہ جھارکھنڈ میں سماجی کارکنوں کی مشکلیں بڑھی ہے اور حالتیں بھی بدتر بنائی جا رہی ہے۔غور طلب ہے کہ اسی سال فروری مہینے میں نقل مکانی مخالف تحریک کے نیشنل کنوینر دامودر توری کے جھارکھنڈ میں ہوئی گرفتاری پر بھی ملک بھر کے سوشل ایکٹوسٹ نے سوال کھڑے کئے ہیں۔دامودر توری پر الزام ہے کہ وہ غیر قانونی تنظیموں اور پروگراموں اور سرگرمیوں میں شامل ہوتے رہے ہیں۔ ان کے خلاف کریمنل لا ایمینڈمینٹ ایکٹ لگایا گیا ہے۔
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں اور جھارکھنڈ میں رہتے ہیں۔)
Categories: فکر و نظر