جنوبی ہند کے قدآور سیاسی رہنما اور تمل ناڈو کے سابق وزیر اعلیٰ کی صحت لگاتار بگڑتی جارہی ہے ،وہ لمبے وقت سے زیر علاج ہیں ۔فلم سے سیاست تک کے ان کے سفر پر پڑھیے رشید قدوائی کا جائزہ ۔
پانچ بار تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ رہنے والے ایم کروناندھی ایک دوراندیش، خواب سجانے والے، مصلح، مثبت تبدیلیوں کے حامی اور ماہر سیاستداں ہیں۔بنیادی طور پر ایک فلم اسکرپٹ رائٹر، کروناندھی کی خدمات کئی ضخیم جلدوں کی متقاضی ہیں۔ چاہے وہ اندرا گاندھی کے خلاف ان کی جنگ ہو، اپنے صوبے سمیت جنوبی ہند میں ہندی تھوپے جانے کی سخت مخالفت یا کوئی اور معاملہ ہو، کروناندھی ایک سچے جمہوریت پسند اور فیڈرلزم میں پختہ یقین رکھنے والے لیڈرہیں۔ پرکاش سنگھ بادل کی طرح علاقائی لیڈران میں وہ ایسی بلند پایہ شخصیت کے مالک رہے ہیں جنہوں نے اندرا گاندھی کے ذریعے عائد کردہ ایمرجنسی کی سختی سے مخالفت کی، جس کا نتیجہ انہیں ایک سے زائد مرتبہ اپنی جمہوری سرکار کی برطرفی کی شکل میں جھیلنا پڑا۔
40 کے دہے کے آخری دور سے تمل ناڈو میں فلموں اور سیاست کا چولی دامن کا ساتھ ہو گیا۔ 1967 تک صوبے کے6 وزرائے اعلیٰ میں سے پانچ فلم انڈسٹری سے تھے۔ رابرٹ ہارڈگریو نے اپنے مقالے ‘پولیٹِکس اینڈ د فلم اِن تمل ناڈو’ میں ‘چاپلوسی کی سیاست’ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ جنوبی ہند کی سیاست میں فلم اسٹار اتنے کامیاب کیوں ہوئے۔ اس کے مطابق اندرونی خلفشار کا شکار ایک متلون مزاج معاشرہ، جس میں درجات کی تفریق، ذات پات کی بندشیں، مذہب اور زبان جیسے تمام عناصرمیں تقسیم پید اکر دینے کا مادہ ہو، اس میں فلم ہی ایسا وسیلہ ہو سکتی ہیں، جو لوگوں کو آپس میں جوڑتی ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اوسط سیاستداں کے مقابلے فلم اسٹار زیادہ قابلِ قبول و پسندیدہ شخصیت ہوتی ہے، جو لوگوں کو دوسری طرح سے متوجہ اور متاثر کرتی ہے۔ مثال کے طور پر مُرُدھر گوپالن رامچندرن یا ایم جی آر کے نام سے مشہور جنوبی ہند کے فلم اسٹار کی بات کریں، جس نے آل انڈیا انّا دراوِڑ مُنّیتر کژگھم (اے آئی اے ڈی ایم کے) نامی پارٹی کی بنیاد رکھی اور ہندوستانی سیاست کی تاریخ میں پہلے ایسے فلم اسٹار بن گئے، جنہیں کسی صوبے کی وزارتِ عظمیٰ ملی۔ ایم جی آر نے فلم ‘اینگا ویٹّو پِلّے’ (ہمارے گھروں کے بیٹے، ریلیز 1965) میں ایک گیت گایا تھا۔ اس کا ترجمہ کچھ یوں ہے: ‘اگر تم میرے نقشِ قدم پر چلوگے، غریب کبھی پریشان نہ ہوگا۔ پہلے عیسیٰ آئے اور ہمیں سکھایا؛ پھر گاندھی آئے اور انہوں نے بھی سکھایا؛ ان کے بعد لوگ بھول گئے۔ اب میں (آیا ہوں) سب ٹھیک کر دوں گا۔’
میدانِ سیاست میں ایم جی کے حریف بن کر ایک اسکرپٹ رائٹر ایم کروناندھی ابھرے۔ انہوں نے بھی ایم جی آر کی ہی طرح ایک پارٹی ‘دراوِڑ مُنّیتر کژگھم’ کی بنیاد رکھی اور تمل ناڈو کے چیف منسٹر کے عہدے تک پہنچے۔ یہ کروناندھی کی کرشمائی شخصیت ہی تھی جو انہیں اپنے صوبے کی وزارتِ عظمیٰ ایک دو بار نہیں پانچ بار تفویض کی گئی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آزادی کے بعد کرونا ندھی کی پارٹی ہی ایسی پہلی اور اس وقت کی واحد پارٹی رہی، جس نے سیاسی خیالات کی ترویج و اشاعت کے لیے فلموں کا استعمال کیا۔ 1940 کے اواخر میں ڈی ایم کے نے اپنی وچاردھارا کی ترویج و اشاعت کے لیے فلموں کا بخوبی استعمال کیا۔ مثال کے طور پر خود کروناندھی نے ‘پاراسکتی’ (دیوی) فلم لکھی، جسے تمل سنیما کی متنازع ترین فلموں میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ 1952 میں ریلیز ہونے والی اس فلم کو بے حد کامیابی ملی۔ اس بابت فلم کے اسکرپٹ رائٹر کا کہنا تھا، ‘میری منشا فلموں کے ذریعے معاشرتی اصلاح اور انصاف کے حصول کی حکمت عملی و خیالات کو تمل زبان میں پیش کرنا تھا۔ جس سے انہیں ڈی ایم کے کی پالیسیز کہا جائے۔’
برسوں بعد کلیاگنار (کرونا ندھی کو دیا گیا خطاب) کے شدت پسند رویے میں نرمی آئی۔ منکرِ خدا کے طور پر آغاز کرنے والے نے مذہبی رسوم و روایات اور توہم پرستی کے آگے سپر ڈال دی۔ شمالی ہند میں موجود برہمنوں کی اجارہ داری کے خلاف اس کا غصہ وقت کے ساتھ کم ہوتا گیا۔
رفتہ رفتہ کانگریس کی جانب ان کا بڑھتا جھکاؤاور اپنے اہل خاندان یعنی بیٹے، بیٹیوں اور بھتیجوں کی سیاسی و عوامی زندگی میں اندھی حمایت کے دھبوں کے علاوہ ان کی زندگی پر اور کوئی داغ نظر نہیں آتا۔ کروناندھی سونیا گاندھی سے بہت متاثر نظر آتے ہیں۔ سن 2004 کے اوائل میں انہوں نے سونیا کو آئی کے گجرال کی وزارتِ عظمیٰ والی سرکار گرانے کے معاملے میں معاف کر دیا۔ سونیا اس وقت سیاست میں سرگرم نہیں تھیں، مگر ارجن سنگھ اور جتیندر پرساد جیسے ان کے سپہ سالاروں نے جسٹس ملاپ چند جین کمیشن کا سہارا لے کر گجرال سرکار گرانے میں خاصہ تباہ کن رول ادا کیا تھا۔ راجیو گاندھی کے قتل کی سازش کا راز جاننے کے لیے یہ کمیشن تشکیل دیا گیا تھا۔ سیاسی شطرنج کے ماہر سنگھ اور پرساد نے اس وقت کی گجرال سرکار سے ڈی ایم کے کےوزراء کو باہر کرانے کے لیے سونیا گاندھی کی رہائش گاہ 10 جن پتھ کا شاطرانہ استعمال کیا۔ سن 1997 میں کانگریس گجرال سرکار کی باہر سے حمایت کر رہی تھی۔ اس سازش کے تحت جین کمیشن کی رپورٹ کے ایسے چنندہ حصے میڈیا تک پہنچا دیے گئے، جن سے شک ہوتا تھا کہ ڈی ایم کے اور مبینہ طور پر راجیو گاندھی کے قتل کی ذمہ دار سری لنکا کی شدت پسند تنظیم لبریشن ٹائیگرس آف تمل اِلم (ایل ٹی ٹی ای) میں قربت ہے۔
ان حصوں سے لگتا تھا، جیسے جین کمیشن کی رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ تمل ناڈو کے چیف منسٹر ایم کرونا ندھی اور ان کی پارٹی ڈی ایم کے کو بھی راجیو گاندھی کے قتل کے ذمہ داروں میں شامل کیا جائے۔ حالانکہ کمیشن کی فائنل رپورٹ میں ایسی کوئی بات سامنے نہیں آئی۔
اپریل 2009 میں کرناندھی نے نیوز چینل این ڈی ٹی وی پر ایک انٹرویو میں یہ متنازعہ بات کہی کہ “پربھا کرن میرے اچھے دوست ہیں”ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ “راجیو گاندھی کے قتل کے ضمن میں ہندوستان ایل ٹی ٹی ای کو کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔”
اس وقت کانگریس کے صدر سیتارام کیسری کی ہمدردی گجرال کے ساتھ تھی اور وہ ان کی سرکار کو گرانا نہیں چاہتے تھے۔ اس کے باوجود جب گجرال سرکار گرائی گئی تو کیسری خاموش تماشائی بنے رہے۔ اس طرح انھوں نے اٹل بہاری واجپئی کی قیادت میں بننے والی سرکار کا راستہ صاف کر دیا، جو بعد میں 6 سال تک چلی۔
اس موقعہ پر کروناندھی نے کانگریس اور سونیا گاندھی کے بارے میں کچھ سخت باتیں کہیں اور کمال ہوشیاری سے واجپئی کی قیادت والی این ڈی اے سرکار میں اپنے لیے جگہ بنا لی۔ اس طرح اگلے پانچ سالوں تک وہ اپنی شرطوں پر سرکار میں شامل رہے اور واجپئی حکومت میں بھتیجے مراسُلی مارن اور دیگر لوگوں کو وزارتی عہدے دلانے میں کامیاب رہے۔ اس دور میں کرناندھی کے اثرورسوخ کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ اٹل کابینہ کے وزرا کا اعلان دہلی میں راشٹرپتی بھون یا وزیرِ اعظم کے دفتر سے کیے جانے کے بجائے چنئی میں ڈی ایم کے کے دفتر سے کیا گیا تھا۔
سونیا کو کروناندھی کے قریب لانے میں سابق وزیر اعظم وی پی سنگھ کا بڑا رول رہا۔ شاید وی پی سنگھ اور کروناندھی سری پیرمبُدور میں ہوئے راجیو گاندھی کے قتل کی وجہ سے شرمندہ تھے۔ کیونکہ کروناندھی نے ایل ٹی ٹی ای کی خوب مدد کی اور راجیو گاندھی کے خلاف نفرت کا ماحول بنایا تھا۔ وی پی سنگھ بھی بوفورس معاملے کے وقت راجیو گاندھی سے الگ ہو کر وزیر اعظم بن گئے تھے۔ یہ ضرور ہے کہ راجیو گاندھی کی حفاظت میں لاپرواہی چندرشیکھر کے دورِ اقتدار میں ہوئی، جبکہ تمل ناڈو میں کروناندھی کی سرکار تھی۔
کم لوگوں کے علم میں ہے کہ انّا دُرائی کی موت کے بعد ایم جی رامچندرن کو تمل ناڈو کا وزیرِ اعلیٰ بنانے میں کروناندھی کی بڑی مدد رہی، جو اس وقت تک 77 فلموں کی اسکرپٹ لکھ چکے تھے۔ انا دُرائی کروناندھی کی صلاحیتوں کے بڑے قائل تھے۔ 1967 کے الیکشن میں کروناندھی نے ڈی ایم کے کے لیے 11 لاکھ روپے جمع کیے تھے۔ اس پر انا دُرائی انہیں سب جگہ مسٹر 11 لاکھ کے نام سے مخاطب کرتے تھے۔
اپنی صلاحیتوں کے ساتھ کروناندھی کی شخصیت کا ایک منفی پہلو یہ تھا کہ وہ زبان کے بڑے کڑوے رہے ہیں۔ 1989 میں تمل ناڈو اسمبلی میں ایک شرمناک واقعہ جے للیتا کی ساڑی کھینچنے کا ہوا۔ اس وقت ڈی ایم کے برسراقتدار تھی۔ اس واقعے کو لوگ مہابھارت میں ہوئے دروپدی کے چیر ہرن سے تعبیر کرتے ہیں۔لیکن کروناندھی نے اس واقعے کی کبھی مذمت نہیں کی۔
(صحافی اور کالم نگار رشید قدوائی اوآرایف کے وزیٹنگ فیلو ہیں۔)
Categories: فکر و نظر