حکومت کا کہنا تھا کہ بند کئے گئے نوٹوں میں سے تقریباً 3 لاکھ کروڑ قیمت کے نوٹ بینکوں میں واپس نہیں آئیںگے اور یہ بلیک منی پر سخت وار ہوگا، لیکن ریزرو بینک کے مطابق اب نوٹ بندی کے بعد جمع ہوئے نوٹوں کا فیصد 99 کے پار پہنچ گیا ہے۔ یعنی یا تو ان نوٹوں میں کوئی بلیک منی تھا ہی نہیں یا اس کے ہونے کے باوجود حکومت اس کو نکالنے میں ناکام رہی۔
حالانکہ ریزرو بینک آف انڈیانے اپنے پچھلے سالانہ رپورٹ میں بھی اس بات کو صاف کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں برتی تھی، لیکن اب، 8 نومبر، 2016 کو نوٹ بندی نافذ کئے جانے کے 22 مہینے بعد، اس نے اپنی نئی سالانہ رپورٹ میں 500 اور 1000 روپے کے بند کئے گئے نوٹوں کی گنتی پوری ہونے کی اطلاع کے ساتھ ان کے 99.3 فیصد کے واپس آ جانے کی جو جانکاری دی ہے۔
یہ ایک طرح سے اس بات کا اعلان ہے کہ جس نوٹ بندی کو لےکر نریندر مودی حکومت ایک سے بڑھکر ایک مقصد پالے ہوئے تھی، اس کا نتیجہ’نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم، نہ ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے ‘ جیسا ہوا ہے۔دراصل،حکومت کی سمجھ تھی کہ بند نوٹوں میں سے کوئی تین لاکھ کروڑ قیمت کے نوٹ بینکوں میں واپس نہیں آئیںگے اور یہ بلیک منی کی متوازی معیشت پر فیصلہ کن وار ہوگا۔
اس کی سمجھ کتنی غلط تھی، اس کو اس حقیقت سے جان سکتے ہیں کہ ابھی نیپال اور بھوٹان میں جمع ہوئے بند ہندوستانی نوٹ ریزرو بینک پہنچنے باقی ہیں اور ملک کے کئی حصوں میں مارے گئے چھاپوں میں ان کی برآمدگی بھی جاری ہے، پھر بھی ان کی واپسی کا فیصد 99 کے پار پہنچ گیا ہے۔
اس کا سیدھا مطلب یہی ہے کہ یا تو ان نوٹوں میں کوئی بلیک منی تھا ہی نہیں یا اس کے ہونے کے باوجود حکومت اس کو نکالنے کی اپنی اسکیم میں ناکام رہی۔ اس سے حزب مخالف کے اس الزام کو بھی طاقت ملتی ہی ہے کہ نوٹ بندی دراصل، بلیک منی کو باہر نکالنے کا نہیں، اس کو سفید کرنے کا منصوبہ تھا۔
ایسے میں حکومت یہ کہہکر بھی اپنی ذمہ داری سے چھٹکارا نہیں پا سکتی کہ ایسا بینکوں کے اس کو تعاون نہ کرنے یا ان کا انتظام فیل ہو جانے کی وجہ سے ہوا۔ جیسا کہ مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سکریٹری سیتارام یچوری نے کہا بھی ہے :
‘ نوٹ بندی کو لےکر کئے گئے بڑے بڑے دعووں اور وعدوں کو وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے بھکت بھلےہی بھول گئے ہوں، عام لوگ نہیں بھولے ہیں اور ان کی حکومت کو اس سوال کا جواب دینا ہی پڑےگا کہ نوٹ بندی ایک دم سے تباہ کن قدم میں کیوں اور کیسے بدل گئی؟ ‘
کیوں اس کے چکر میں کئی سو لوگوں کو بینکوں کی لائن میں کھڑے ہوکر جانیں گنوانے کے لئے مجبور کیا اور ساتھ ہی لاکھوں لوگوں کے انڈسٹری کے کاروبار اور نوکریوں کو بحران میں ڈالا گیا؟
جاننا چاہیے کہ اس بابت حکومت ابھی بھی ملک کو پورا سچ بتانے سے بچتی آ رہی ہے اور عوام جو کچھ بھی جان پائے ہیں، وہ ریزرو بینک آف انڈیا کی رپورٹوں یا اطلاع پانے کے اپنے حق کے استعمال کی معرفت ہی جان پائے ہیں۔اطلاع کے حق کے استعمال سے ہی ان کو معلوم ہوا ہے کہ حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر امت شاہ گجرات کے جس کوآپریٹیو بینک کے ڈائریکٹر ہیں، اس میں بند کئے گئے نوٹوں کا بےحد غیر متوقع لین دین ہوا اور معاملے کے انکشاف کے باوجود اس کی تفتیش نہیں کرائی جا رہی۔
اس سے فطری طورپر ہی یہ شک اور گہرا ہوتا ہے کہ مختلف ریاستوں میں اقتدار کے ساہوکاروں نے نوٹ بندی کا غلط فائدہ اٹھایا۔بہر حال، وزیر اعظم نے نوٹ بندی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے بلیک منی تو باہر آئےگی ہی،جعلی نوٹوں کی معرفت دہشت گردوں کو سرحدپار سے ملنے والی مدد رک جانے سے ان کی کمر بھی ٹوٹ جائےگی۔
تھوڑے ہی دنوں بعد جب ان کو لگا کہ ایسا کچھ بھی ممکن نہیں ہو پا رہا تو انہوں نے نوٹ بندی کو ڈیجیٹل لین دین سے جوڑ دیا۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ جیسے نہ اس سے بلیک منی باہر آئی، نہ دہشت گردوں کی کمر ٹوٹی اور نہ ہی جعلی نوٹوں کےچلن پر لگام لگ سکی، ویسے ہی ڈیجیٹل لین دین کو حوصلہ بھی نہیں ملا۔دو ہزار کے نئے نوٹوں کی نقل تو ان کے جاری کئے جانے کے چند دنوں بعد ہی ممکن ہو گئی تھی، جس کا انکشاف جموں و کشمیر میں گرفتار اور مارے گئے دہشت گردوں کے پاس سے ان کی برآمدگی سے ہوا تھا۔
ماہرین کی مانیں تو نئے نوٹوں کی چھپائی اور کاغذ کی کوالٹی اتنی خراب ہے کہ بند کئے گئے نوٹوں کے مقابلے ان کی نقل کہیں زیادہ آسان ہے۔ ریزرو بینک کے ہی اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 17-2016 میں جہاں دو ہزار کے 638 جعلی نوٹ گرفت میں آئے تھے،18-2017 میں ان کی تعداد بڑھکر17938 ہو گئی۔جس پر اب پچاس اور ایک سو کے نوٹوں کو بھی جعلی کرنسی کے کاروباریوں کی نظر لگ گئی ہے۔ ایک سو کے جعلی نوٹوں میں پینتیس، تو پچاس کے جعلی نوٹوں میں تقریباً 154 فیصد کا اضافہ اسی کی گواہی دیتا ہے۔
جہاں تک ڈیجیٹل لین دین کی بات ہے، اس کو کتنا حوصلہ ملا ہے، اس کا جواب ریزرو بینک یہ بتاکر پہلے ہی دے چکا ہے کہ نوٹ بندی کے دوران جتنی قیمت کے نوٹ بند کئے گئے، اس کے بعد اس کو ان سے زیادہ قیمت کے نوٹ جاری کرنے پڑے ہیں۔نوٹ بندی کے ان منفی پہلوؤں کے سامنے آنے کے بعد وزیر اعظم کے علاوہ حزب اقتدار کے بڑے رہنما اس کی بابت بات کرنے سے بچنے لگے ہیں، جبکہ 2017 میں ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کے اسمبلی انتخابات کے وقت اس کو مدعا بناتے ہوئے وہ دو بڑی باتیں کہہ رہے تھے۔
پہلی یہ کہ اس سے امیروں کی بڑی-بڑی سلطنت خم ہو گئی ہیں اور غریبوں نے بینکوں کی لائنوں میں جو تکلیف برداشت کی ہے، اس کا وہ کئی گنا فائدہ اٹھائیںگے۔ ان کی دوسری بات یہ تھی کہ ان کی کئی سیاسی پارٹیاں (خاص کر سماجوادی اوربہوجن سماج پارٹی)راتوں رات کنگال ہو گئی ہیں،جس سے سیاست میں پاکیزگی آئی ہے۔اب وقت کے ساتھ یہ دونوں ہی باتیں غلط ثابت ہو گئی ہیں اور غریب خود کو ٹھگا ہوا محسوسکر رہے ہیں، تو کہنے لگے ہیں کہ نوٹ بندی کا صرف ایک بڑا فائدہ ہوا ہے، سو بھی ملک کو نہیں، بی جے پی کو، کہ اس کو ملک کی سب سے بڑی ریاست کا اقتدار حاصل ہو گیا ہے۔
لیکن نقصانات کی بات کریں تو اس کا دائرہ ان خاتون خانہ تک بھی پہنچتا ہے، جن کو شوہر یا رشتہ داروں سے چھپاکر رکھے اپنے روپے سب کی جانکاری میں لاکر بینکوں اور متوازی طور سے شوہر یا رشتہ داروں کے حوالے کرنا پڑا۔اس طرح ڈھیر ساری رقم بینکوں میں پہنچ گئی تو ان کو یکبارگی تو بحران سے نکلنے میں مدد ملی لیکن زیادہ جمع پر زیادہ سود کی ادائیگی سے وہ جلد ہی پھر وہیں جا پہنچے، جہاں سے چلے تھے اور سرکاری پیکیج کے حرف گیر ہو گئے۔
یہاں یہ حقیقت بھی بھولی نہیں جا سکتی کہ نوٹ بندی کے بعد 2016-17 میں ریزرو بینک آف انڈیانے 500، 2000 اور دیگر قیمتوں کے نئے نوٹوں کی چھپائی پر 7965 کروڑ روپے خرچ کئے، جو اس سے گزشتہ سال خرچ کی گئی 3421 کروڑ روپے کی رقم سے دو گنا سے بھی زیادہ ہے۔اسی طرح18-2017 میں جولائی 2017 سے جون 2018 تک بینک نے نوٹوں کی چھپائی پر 4912 کروڑ روپے اور خرچ کئے۔ اب جب نوٹ بندی کا کوئی ماحصل سامنے نہیں آ رہا اور کہا جا رہا ہے کہ دو ہزار کے نئے نوٹوں میں بلیک منی جمع کرنا پہلے سے دوگنا آسان ہو گیا ہے، تو لگتا ہے کہ کسی نے یہ رقم ملک کی کلائی مروڑکر چھین لی۔
دوسری طرف کانگریسی رہنما ویرپا موئلی کی صدارت والی وزارت خزانہ سے وابستہ قانون سازمجلس کی مستقل کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ نوٹ بندی کی وجہ سے جی ڈی پی میں کم سے کم ایک فیصد کی کمی آئی اوران آرگنائزڈ میں بےروزگاری بڑھی۔مستقل کمیٹی میں شامل بی جے پی رکن پارلیامان اس کا منطقی مزاحمت نہیں کر پا رہے تو انہوں نے رپورٹ کو قبول کرنے سے ہی منع کر دیا ہے۔
وہ کہہ رہے ہیں کہ’نوٹ بندی سب سے بڑی اصلاح ہے اور وزیر اعظم مودی کے اس قدم کا قومی مفاد میں ملک کے تمام شہریوں نے حمایت کی ہے لیکن کیا اس طرح کے رویے سے اس مانگ کو نظراندز کیا جا سکتا ہے کہ حکومت نوٹ بندی کے مقاصد اور اس کے اقتصادی اثرات کو لےکر ایک مطالعہ کرائے اور عوام کو اس کا ماحصل بتائے؟یہ مطالعہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ ریزرو بینک کے سابق گورنر رگھو رام راجن تک کہہ چکے ہیں کہ نوٹ بندی کا فیصلہ بغیر سوچے سمجھے لیا گیا تھا۔
Categories: فکر و نظر