اسپیشل رپورٹ :آر ٹی آئی کے ذریعے یہ سامنے آیا ہے کہ سال 2016 میں 615 کھاتوں کو اوسطاً 95 کروڑ سے زیادہ کا زراعتی لون دیا گیا ہے۔ ماہرین زراعت کا کہنا ہے کہ سستی شرح اور آسان اصولوں کے تحت کسانوں کے نام پر بڑی بڑی کمپنیوں کو بھاری بھرکم لون دیا جا رہا ہے۔
نئی دہلی:سال 2016 میں سرکاری بینکوں کے ذریعے 615 کھاتوں کو 58 ہزار 561 کروڑ روپے کازراعتی قرض دیا گیا۔ اس حساب سے ہرایک کھاتے میں اوسطاً 95 کروڑ سے زیادہ کا زراعت لون ڈالا گیا ہے۔دی وائر کے ذریعے دائر کی گئی آر ٹی آئی درخواست پر ریزرو بینک آف انڈیا(آر بی آئی)نے یہ جانکاری دی ہے۔زراعت کے لئے ملنے والے قرض پر عام لون کے مقابلے کم سود کی شرح لگتی ہے اور لون کے اصولوں میں بھی عام کے مقابلے کم شرطیں ہوتی ہیں۔چھوٹے اور حاشیائی کسانوں کو آسانی سے لون دینے کے لئے یہ تبدیلی کی گئی تھی۔ موجودہ وقت میں4 فیصد کی در سے کسانوں کو فصلی قرض دیا جاتا ہے ۔
اس پر کسان تنظیم رایتو سوراجیہ ویدیکا کے بانی کرن کمار ویسا نے کہا، ‘کئی زراعتی کاروبار (ایگری-بزنس)کرنے والی بڑی کمپنیاں زراعتی قرض کے زمرہ کے تحت لون لے رہی ہیں۔ ریلائنس فریش جیسی کمپنیاں ایگری-بزنس کمپنی کے دائرے میں آتی ہے۔ یہ تمام زراعتی مصنوعات کی خرید و فرخت کا کام کرتی ہیں اور گودام بنانے یا اس سے جڑی دیگر چیزوں کی تعمیر کے لئے زراعتی قرض کے زمرہ کے تحت لون لیتی ہیں۔ ‘آر بی آئی نے ملک میں کچھ اقتصادی شعبوں کو ترجیح دینے اور ان کی ترقی کے لئے بینکوں کو یہ حکم جاری کیا ہے کہ وہ اپنے کل لون کا ایک طےشدہ حصہ زراعت، چھوٹی اور درمیانی صنعت، ایکسپورٹ کریڈٹ، تعلیم، رہائش گاہ، سوشل انفراسٹرکچر، لائق تجدید توانائی جیسے شعبوں میں خرچ کریں۔ اس کو ترجیحی سیکٹر قرضہ (پی ایس ایل یا پرائیورٹی سیکٹر لینڈنگ) کہتے ہیں۔
اس کے تحت بینکوں کو اپنے پورے لون کا 18 فیصد حصہ زراعت کے لئے دینا ہوتا ہے، جو کہ چھوٹے اور حاشیائی کسانوں کے پاس جانا چاہیے۔ اس پر کرن کمار ویسا کہتے ہیں،’مسئلہ یہ ہے کہ اس کا بہت بڑا حصہ بینک کارپوریٹ اور بڑی کمپنیوں کو دے رہے ہیں جس کی وجہ سے یہ لون کسانوں کو نہیں مل پا رہا ہے۔ ‘کرن نے آگے کہا، ‘دراصل پرائیورٹی سیکٹر لینڈنگ کے تحت بڑی کمپنیوں کو لون لینا کافی آسان ہے کیونکہ لون دینے کے قاعدے قانون کافی ہلکے ہوتے ہیں اور سود کی شرح بھی عام کے مقابلے کافی کم ہیں۔ بینک بڑے بڑے لون اس لئے دیتے ہیں تاکہ ان کے وسائل بچےرہیں۔ ‘
دی وائر نے صوبہ وار اعداد و شمار کے لئے اسٹیٹ بینک آف انڈیاکے تمام زونل برانچوں میں آر ٹی آئی دائر کیا تھا لیکن ممبئی زون کو چھوڑکر کسی بھی دیگر شاخ نے جانکاری نہیں دی۔ ایس بی آئی ممبئی زون نے بتایا کہ ممبئی سٹی برانچ، جو کہ ممبئی کے سب سے مہنگے علاقوں میں سے ہے، سے تین کھاتوں میں تقریباً 29.95 کروڑ کا لون دیا گیا ہے۔اس حساب سے دیکھیں تو فی کھاتے میں تقریباً 10 کروڑ کا لون دیا گیا۔ وہیں اسی برانچ سے 9کھاتوں میں تقریباً 27 کروڑ سے زیادہ کا لون دیا گیا ہے۔ حالانکہ بینک نے اس بات کی جانکاری نہیں دی کہ کس کے نام پر یہ سارے لون جاری کئے گئے ہیں۔
اس پرماہر زراعت دیویندر شرما کا کہنا ہے کہ کسانوں کے نام پر لون دینے کا اعلان کرکے سستی شرح پر بڑی بڑی کمپنیوں کو لون دیا جا رہا ہے۔ یہ کسانوں کے مسائل حل کرنے کا دکھاوا ہے۔ انہوں نے کہا، ‘یہ کہاں کے کسان ہیں کہ جن کو 100 کروڑ کے لون دئے جا رہے ہیں۔ یہ سارا دکھاوا ہے۔ کسان کے نام پر کیوں انڈسٹری کو لون دیا جا رہا ہے؟ ‘شرما کہتے ہیں کہ اس پورے عمل میں بینکوں کا بھی فائدہ ہے اس لئے اتنے بھاری بھرکم لون زراعتی لون کے نام پر دئے جا رہے ہیں۔ یہاں 100 کروڑ آسانی سے ایک کمپنی کو دے دیا گیا۔ اگر یہی 100 کروڑ کسانوں کو دینا ہوتا تو کم سے کم 200 لوگوں کی ضرورت ہوگی۔ بینک اتنے زیادہ لون اس لئے دے رہے ہیں تاکہ ان کے وسائل کم خرچ ہوں اور 18 فیصد کا ٹارگیٹ جلدی سے پورا ہو جائے۔
بتا دیں کہ این ڈی اے حکومت کے ذریعے سال 2014-15 میں 8.5 لاکھ کروڑ کا زراعتی لون دینے کا اہتمام رکھا گیا تھا وہیں سال 2018-19 کے لئے اس کو بڑھاکر 11 لاکھ کروڑ کر دیا گیا ہے۔ حالانکہ دی وائر کو آر بی آئی سے ملے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس کا کافی زیادہ حصہ بڑے بڑے لون کا ہے۔ زراعتی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ لون ایگری-بزنس کمپنیاں اور انڈسٹری سیکٹر میں جا رہا ہے۔
زراعتی لون کے تحت تین ضمنی زمروں جیسے کہ زراعتی قرض، زراعت کے بنیادی ڈھانچے اور معاون سرگرمیوں کے لئے قرض دیا جاتا ہے۔ بنیادی ڈھانچہ کے تحت گودام، کولڈ اسٹوریز جیسی چیزیں آتی ہیں۔ ان کے لئے 100 کروڑ تک لون دینے کا اہتمام ہے۔ وہیں معاون سرگرمیوں کے تحت ایگریکلنک اور ایگری بزنس مراکز کی تعمیر جیسی چیزیں آتی ہیں۔ اس کے لئے بھی 100 کروڑ روپے کے لون کا اہتمام ہے۔
آر بی آئی کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 2016 سے پہلے بھی زراعتی لون کے نام پر کثیر مقدار میں لوگوں کو قرض دیا گیا ہے۔ سال 2015 میں 604 کھاتوں میں 52 ہزار 143 کروڑ کا لون دیا گیا جو کہ فی کھاتے میں 86.33 کروڑ روپے ہوا۔ وہیں سال 2014 میں 659 کھاتوں میں 91.28 کروڑ کے حساب سے 60 ہزار 156 کروڑ روپے کا زراعتی لون دیا گیا۔ یو پی اے حکومت میں بھی یہی سلسلہ جاری تھا۔
2013 میں جہاں 665 کھاتوں میں 84.30 کروڑ کے حساب سے 56 ہزار کروڑ سے زیادہ کا زراعتی لون دیا گیا وہیں، 2012 میں 698 کھاتوں میں 55 ہزار 504 کروڑ کا زراعتی لون دیا گیا ہے۔ اس حساب سے فی کھاتے میں اوسطاً 79.51 کروڑ روپے ڈالے گئے۔آر بی آئی نے 2007 سے 2016 تک کے اعداد و شمار دئے ہیں جس سے یہ پتا چلتا ہے کہ زراعت کے لئے دئے جانے والے لون کے تحت اوسطاً 74.70 کروڑ سے لےکر 95 کروڑ سے زیادہ کا لون ہرایک کھاتے میں ڈالا گیا ہے۔
مدھیہ پردیش کے کسان اور عام کسان یونین کے ممبر کیدار سروہی کہتے ہیں کہ پہلے تو حکومت کے ذریعے کسانوں کو قرض کے غلط چکر میں پھنسایا جاتا ہے اور جب کوئی کسان کچھ بہتر کرنے کے لئے لون لینا چاہتا ہے تو اس کو بینک کے ذریعے پریشان کیا جاتا ہے۔ عام کسان تو کبھی سوچ بھی نہیں سکتا ہے کہ حکومت اس کے نام پر اسکیمیں چلاکر بڑی کارپوریٹ کمپنیوں کو سیکڑوں کروڑوں کا لون دے رہی ہے۔
سنجیو کسان یوپی کے اٹاوہ میں رہتے ہیں اور چار ایکڑ کی زراعت کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کسانوں کو جتنے کا لون ملتا ہے اس کا ایک حصہ لون دلانے کے لئے ثالثی کھا جاتے ہیں۔ کچھ کسان مجبوری میں لون لیتے ہیں کیونکہ ان کے پاس پیسے نہیں ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے لئے بھی ان کو کئی بار بینکوں کا چکر کاٹنے پڑتے ہیں اور بینک افسروں کی بات بھی سننی پڑتی ہے۔ پتہ نہیں یہ 615 کھاتے کس کے ہیں جو کہ اتنے زیادہ پیسے زراعتی لون کے نام پر پا گئے۔
دیویندر شرما کہتے ہیں کہ کسانوں کو دیا جانے والا لون اور ایگری-بزنس کمپنیوں کو دئے جانے والے لون کو الگ کر دینا چاہیے۔ زراعتی لون کے دائرے میں کمپنیوں کو لون دےکر کسانوں کو دھوکہ نہیں دینا چاہیے۔ شرما نے کہا کہ انہوں نے وزیر خزانہ کے سامنے اس بات کو رکھا تھا لیکن وہاں سے کوئی رد عمل نہیں ملا۔
Categories: خبریں