مرکز کی مودی حکومت دھان کی ایم ایس پی 200 روپے بڑھاکر تاریخی طور پرقیمت میں اضافے کا دعویٰ کر رہی ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ یہ قیمت سوامی ناتھن کمیشن کی سفارش کے مقابلے 590 روپے کم ہے۔
نئی دہلی : وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ 21 جولائی کو اتر پردیش کے شاہ جہاں پور میں ‘ کسان کلیان ریلی ‘ کو خطاب کیا۔ اس دوران انہوں نے کسانوں کے لئے اپنی حکومت کی کئی ساری کامیابیاں گنائیں۔ اس سے پہلے اپنی کئی ریلیوں میں مودی یہ کہہ چکے ہیں کہ ان کی حکومت نے فصلوں کے دام ڈیڑھ گنا تک بڑھا دئے ہیں۔
کرناٹک کے کلبرگی میں ایک ریلی میں مودی نے کہا تھا کہ حکومت نے سوامی ناتھن کمیشن کی سفارشوں کی بنیاد پر منیمم سپورٹ پرائس یعنی ایم ایس پی نافذ کیا ہے۔ لیکن سال19-2018 کے لئے حکومت کے ذریعے طے کی گئی ایم ایس پی سوامی ناتھن کمیشن کی سفارش کے مقابلے کافی کم ہے۔
Watch @narendramodi claiming MSP implemented as per Swaminathan recommendations, which was Cost C2+50% profit. But then Paddy MSP should be Rs.2340 (now 1750), Cotton Rs.6879 (now 5450), Tur Rs.7155 (now 5675). Joomla again. #GovtCheatsOnMSP @PMOIndia @sanjeebm77 @vishwamTOI pic.twitter.com/srgkUw9fON
— Kiran Vissa (@kiranvissa) July 19, 2018
دراصل، سوامی ناتھن کمیشن نے اپنی سفارش میں کہا تھا کہ ایم ایس پی پیداواری لاگت میں 50 فیصد جوڑکر دیا جانی چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسان نے اپنا اناج اگانے میں جتنی رقم خرچ کی ہوگی اس کا ڈیڑھ گنا دام اس کو ملنا چاہیے۔ فرض کر لیجیے ، اگر ایک کوئنٹل گیہوں پیدا کرنے میں 2000 روپے کا خرچ آیا ہے تو اس گیہوں کو بیچنے پر اس کو لاگت کا ڈیڑھ گنا دام 3000 (2000 + 2000 کا 50% = 3000) روپے ملنا چاہیے۔
آپ کو بتا دیں کہ وزارت زراعت کے تحت Commission for Agricultural Costs and Prices (سی اے سی پی) تین طریقے سے پیداواری لاگت طے کرتا ہے۔ یہ تین طریقے ہیں، قیمت اے1، قیمت اے2 + ایف ایل اور قیمت سی2۔ سوامی ناتھن کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کسانوں کو سی2 لاگت کا ڈیڑھ گنا دام ملنا چاہیے ۔ سی2 کی رقم اے1 اور اے2 + ایف ایل کے مقابلے ہمیشہ زیادہ رہتی ہے کیونکہ سی2 کا تعین کرتے وقت زراعت کے تمام ڈائی مینشن جیسے کہ کھاد، پانی، بیج کی قیمت کے ساتھ ساتھ فیملی کی مزدوری، ملکیت والی زمین کا کرایہ کی قیمت اور طےشدہ سرمایہ پر سود کی قیمت بھی شامل کی جاتی ہے۔
دی وائر نے مرکزی حکومت کے ذریعے 4 جولائی 2018 کو طے کئے گئے ایم ایس پی اور لاگت قیمت سی2 پر 50 فیصد کی رقم کا تقابلی مطالعہ کیا ہے جس سے یہ پتا چلتا ہے کہ سوامی ناتھن کمیشن کی سفارش کی بنیاد پر کسی بھی فصل کی ایم ایس پی طے نہیں کی گئی ہے۔ حکومت نے لاگت قیمت سی2 کے مقابلے صرف اوسطاً 17 فیصد قیمت بڑھاکر ایم ایس پی طے کی ہے۔ ان دونوں کا فرق کافی زیادہ بھی ہے۔
مرکزی حکومت دھان کی ایم ایس پی 200 روپے بڑھاکر تاریخی طور پر قیمت میں اضافہ کا دعویٰ کر رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ سوامی ناتھن کمیشن کی سفارش کے مقابلے حکومت کے ذریعے طے کی گئی رقم 590 روپے کم ہے۔ دھان پر لاگت سی2 کا 50 فیصد 2340 روپے بنتا ہے لیکن حکومت نے 1750 روپے ہی طے کی ہے۔
اس پر زراعت کے ماہر دیویندر شرما نے کہا، ‘ کسانوں کو یہ پتا ہی نہیں ہے کہ جب وہ فصلوں کی پیداوار کرتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے لئے نقصان کی پیداوار کر رہا ہے۔ حکومتیں چاہتی ہیں کہ کسان ختم ہو جائیں۔ ہم نے جان بوجھ کر کسانوں کی آمدنی کو بڑھنے نہیں دیا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1976 میں گیہوں کی ایم ایس پی 76 روپے فی کوئنٹل تھی اور اس وقت ٹیچر کی تنخواہ 90 روپے ہر مہینے تھی۔ وہیں 2015 میں کسان کی ایم ایس پی بڑھکر 1450 روپے ہو گئی۔ یعنی کہ کل ملاکر ایم ایس پی گنا19 بڑھی۔ ‘
شرما نے آگے کہا، ‘ اس دوران سرکاری ملازمین کی تنخواہ (صرف بیسک اور ڈی اے) 120 سے 150 گنا تک بڑھائی گئی۔ یونیورسٹی پروفیسر اور لیکچرار کی تنخواہ 150 سے 170 گنا تک بڑھائی گئی۔ اساتذہ کی تنخواہ 280 سے 320 گنا تک بڑھتی ہے۔ اگر 100گنا بھی گیہوں کی قیمت بڑھتی تو 2015 میں اس کو 7600 روپے فی کوئنٹل ہونا چاہیے تھا۔ ‘
حکومت کا دعویٰ ہے کہ مونگ کی ایم ایس پی میں گزشتہ سال کے مقابلے 1400 روپے کا اضافہ کیا گیا ہے لیکن اگر لاگت سے اس کا مقابلہ کریں تو یہ اضافہ محض 13.21 فیصد ہی ہے۔ مونگ کی لاگت قیمت (سی2) 6161 روپے ہے۔ اس حساب سے لاگت کا ڈیڑھ گنا ایم ایس پی کے 9241.5روپے ہوتا ہے۔ حالانکہ، حکومت نے مونگ کے لئے 6975 روپے ایم ایس پی طے کی ہے۔
اس پر کسان تنظیم ریتو سوراج ویدیکا ‘ کے بانی کرن کمار ویسا نے کہا، ‘ حکومت نے لاگت اے2 + ایف ایل کی بنیاد پر فصلوں کی ایم ایس پی طے کی ہے لیکن وزیر اعظم اپنی ریلیوں میں کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے سوامی ناتھن کمیشن کی سفارش کو نافذ کر دیا ہے۔ یہ بالکل جھوٹ اور پروپیگنڈہ ہے۔ اسی جھوٹ کو بار بار دوہرایا جا رہا ہے۔ ‘
انہوں نے کہا، ‘ مودی نے اپنے انتخابی تشہیر کے دوران وعدہ کیا تھا کہ وہ سوامی ناتھن کمیشن کی سفارشیں نافذ کریںگے۔ جب کسانوں نے اس کی مانگ کی تو حکومت نے 2015 میں سپریم کورٹ میں کہا کہ وہ اتنی ایم ایس پی نہیں بڑھا سکتے ہیں۔ انتخاب قریب آیا تو کسانوں کو خوش کرنے کے لئے تھوڑی سی بڑھا دی۔ لیکن، اب اس کو لےکر یہ جھوٹ بول رہے ہیں کہ سوامی ناتھن کمیشن کی سفارش کی بنیاد پر ایم ایس پی بڑھائی ہے۔ ‘
سورج مکھی کی ایم ایس پی 1288 روپے بڑھانے کی بات کی گئی ہے لیکن یہ رقم بھی لاگت کا 19.7 فیصد ہی ہے۔ سب سے کم تل کی ایم ایس پی میں اضافہ کیا گیا ہے۔ تل کی ایم ایس پی 3.98 فیصد ہی بڑھائی ہے۔ اسی طرح لاگت سی2 کے مقابلے جوار کا ایم ایس پی11.31 فیصد، باجرا کا 47.28 فیصد، مکئی کا 14.86 فیصد، راگی کا 22.23 فیصد، ارہر (توور) کا 13.93، ارد کا 12.24 فیصد، مونگ پھلی کا 16.81 فیصد، سویابین کا 14.36 فیصد، سورج مکھی کا 19.7 فیصد اور کپاس کا 20.73 فیصد بڑھایا گیا ہے۔
اس طرح کسی بھی فصل کی ایم ایس پی سوامی ناتھن کمیشن کی سفارش کی بنیاد پر طے نہیں کی گئی ہے۔ بھارتیہ کسان سنگھ (بی کے ایس ) سے جڑے بریلی کے کسان سنجیو کمار نے اس مدعے کو عام کسان تک نہ پہنچنے کے لئے میڈیا کو ذمہ دار ٹھہرایا۔
انہوں نے کہا، ‘ لاگت سی2 اور اے2 + ایف ایل جیسی چیزیں کافی تکنیکی الفاظ ہیں۔ اتر پردیش اور بہار کے کسان یہ چیزیں آسانی سے نہیں سمجھ پاتے ہیں۔ میڈیا اگر چاہے تو اس سچائی کو بتا سکتا ہے لیکن وہ ایسا نہیں کرےگا۔ ریاست میں یہ بھی انتظام نہیں ہے کہ جتنی بھی ایم ایس پی طے کی جاتی ہے اتنے پر ہی کسان اپنا اناج بیچ سکیں ۔ لوگ اونے پونے دام پر اپنی پیداوار بیچنے کے لئے مجبور ہیں۔ ‘
لاگت اے 2 + ایف ایل پر بھی موجودہ حکومت نے ایم ایس پی، یو پی اے حکومت کے مقابلے کم کر دی ہے
کسی بھی حکومت نے ابھی تک ایم ایس پی لاگت سی2 کی ڈیڑھ گنا قیمت کرکے نہیں دیا ہے۔ اس سے پہلے کی حکومتیں اے2 + ایف ایل کو لاگت قیمت مانکر اس پر قیمت بڑھاکر پیسے دیتی رہی ہیں۔ حکومت یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ انہوں نے دھان پر لاگت کی 50 فیصد قیمت بڑھاکر بطور ایم ایس پی طے کیا ہے۔
لیکن، سچائی یہ ہے کہ جہاں کانگریس کی یو پی اے کے دوسرے میعاد عہد (2014-2009) میں دھان کے لئے لاگت اے2 + ایف ایل پر اوسطاً 69 فیصد بڑھاکر ایم ایس پی دی گئی تھی، وہیں این ڈی اے حکومت (2019-2014) میں اے2 + ایف ایل پر اوسطاً 41 فیصد بڑھاکر ایم ایس پی دی گئی ہے۔ اس حساب سے دھان کی ایم ایس پی پہلے کے مقابلے کافی کم کر دی گئی ہے۔
دیگر فصلوں کی بھی ایم ایس پی اسی طرح سے ہے۔ دی وائر نے سال10-2009 سے لےکر سال19-2018 تک کے لئے پیداواری لاگت (اے2 + ایف ایل) اور ایم ایس پی میں لاگت کے مقابلے کیے گئے اضافہ کا تخمینہ کیا ہے۔ تمام اعداد و شمارسی اے سی پی کی ‘ خریف رپورٹ ‘ پر مبنی ہیں۔
پنجاب کے کسان رمن دیپ سنگھ مان نے کہا، ‘ یہ اضافہ کافی نہیں ہے۔ جس رفتار سے لاگت بڑھی ہے، اس حساب سے ایم ایس پی نہیں بڑھائی گئی ہے۔ گزشتہ سال کے مقابلے ڈیزل میں ہی 22 فیصد کا اضافہ ہو ا ہے۔ ڈی اے پی (ڈائی امونیم فاسفیٹ) میں 25 فیصد کا اضافہ ہو ا ہے۔ جنک اور سلفیٹ کی قیمت کافی زیادہ بڑھ گئی ہے۔ مزدوری بھی بڑھ گئی ہے۔ پنجاب میں گزشتہ سال ایک ایکڑ میں 2400 روپے مزدوری ہوتی تھی، اب 2900 ہو گئی ہے۔ ‘
دھان کے علاوہ کپاس کی ایم ایس پی میں بھی کافی گراوٹ آئی ہے۔ جہاں،2014-2009 کے درمیان کپاس کی ایم ایس پی میں لاگت قیمت کے مقابلے 80 فیصد کا اوسط اضافہ ہواا تھا، وہیں 19-2014 کے درمیان ایم ایس پی میں لاگت قیمت کے مقابلے صرف 43 فیصد کا اوسط اضافہ کیا گیا۔ راگی اور باجرا کو چھوڑکر تمام فصلوں میں یو پی اے-2 کے مقابلے این ڈی اے حکومت میں ایم ایس پی کم ہے۔ مونگ کی ایم ایس پی میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے۔
دیویندر شرما کہتے ہیں، ‘ کسانوں کے مسائل کے لئے رہنماؤں کے ساتھ ساتھ ماہر اقتصادیات سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں۔ سی اے سی پی میں بیٹھے ماہر اقتصادیات پیداواری لاگت کا حساب صحیح طریقے سے نہیں کرتے ہیں جس کی وجہ سے ایم ایس پی ہمیشہ کم ہو جاتی ہے۔ کسانوں نے ملک کو فیل نہیں کیا ہے بلکہ ماہر اقتصادیات نے کسانوں کو فیل کر دیا ہے۔ ‘
Categories: فکر و نظر