مودی جی کا اندور جانا اور بوہرہ مسلمانوں کی مجلس میں شامل ہونا ان کا ایک سیاسی داؤہے جو ملک کی اقلیت نہیں بلکہ اکثریت کا دھیان کھینچنے کی کوشش ہے۔
وزیراعظم نریندرمودی کی داؤدی بوہرا کی مجلس میں شرکت کے بعد سے طرح طرح کی باتیں کہی جا رہی ہیں۔دراصل یہ وزیراعظم کی مسلمانوں کے بیچ دوسری بڑی موجودگی ہے،2016 میں مودی نے ورلڈ صوفی کانفرنس کو بھی خطاب کیا تھا۔اب جبکہ لوک سبھا الیکشن اور مدھیہ پردیش کے اسمبلی الیکشن پاس آ گئے ہیں ، ایسا مانا جا رہا ہے کہ بوہرہ کی محرم مجلس میں شرکت کا مقصد بوہرہ ووٹوں کو رجھانا ہے۔لیکن بوہرہ ووٹ تو پرمدھیہ پردیش میں کل ڈھائی لاکھ ہیں اور وہ بھی برہانپور ، اندور اور بھوپال تک ہی محدود ہیں۔
دراصل مودی جی کا اندور جانا اور بوہرہ مجلس میں شامل ہونا ان کا ایک سیاسی داؤہے جو ملک کی اقلیت نہیں بلکہ اکثریت کا دھیان کھینچنے کی کوشش ہے۔مودی اور بی جے پی ملک کے ووٹرز کو کہنا چاہتے ہیں کی بہ حیثیت وزیر ا عظم وہ سماج کے تمام طبقوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں،سب کا ساتھ ، سب کا وکاس ۔ملک کے کی اکثریت کے ایک بڑے طبقے کو مسلمانوں کے اندر اختلاف اور بٹوارے کی بہت کم جانکاری ہے اور بوہرہ کمیونٹی کے بیچ مودی جی جس انداز میں گھلے ملے، واعظ سنا ، عقدیت مندی سے شال کا تحفہ لیا ، اس کو مودی جی کی اقلیت کی طرف ہمدردی اور برابری کے رویے کی طرح دیکھا گیا۔
یہ بھی پڑھیں : وزیر اعظم کی بوہرہ مسلمانوں سے ملاقات : بوہرہ کمیونٹی کے خلاف عام مسلمانوں کا غصہ کتنا جائز ہے ؟
مودی حکومت اس کو تین طلاق کے قانون، نکاح حلالہ کی مخالفت کے ساتھ جوڑ کر پیش کر رہی ہے۔گویا کی پٹرول کے دام میں بےتحاشا اضافہ ، روپیہ کی گرتی ہوئی حالت ، رافیل سودے میں کانگریس کے الزامات ، مالیا کو ملک سے باہر جانے میں مدد وغیرہ مدعوں نے بی جے پی اور مودی حکومت کو پریشانی میں ڈال رکھا ہے۔مودی جی کا بوہرہ سماج کی طرف سے پہلے سے جھکاؤ ہے۔وزیر اعظم کے غیر ملکی دوروں کے درمیان بوہرہ عوام ہمیشہ سرگرم نظر آئی۔2002 کے گجرات فساد کے بعد مودی کی طرف دوستی کا ہاتھ سب سے پہلے بوہرہ سماج نے ہی بڑھایا تھا۔مسلمانوں اور بی جےپی کے بیچ کی سیاسی دوری کی ایک لمبی کہانی ہے اور اس کی ایک بڑی وجہ بی جے پی کی مسلمان نمائندوں کو الیکشن میں ٹکٹ نہیں دینا ہے۔
لیکن اس کے ساتھ یہ بھی سہی ہے کہ2014 کے بعد سے مسلمانوں کو اسکالر شپ وغیرہ میں امداد بڑھی ہی ہے ناکہ کٹوتی ہوئی ہے۔ماب لنچنگ اور گائےکولےکرعوامی تشدد،نفرت کاماحول اقلیت فرقےکوپریشان کررہاہے۔ اس کاااثرملک کےاکثریتی فرقےپربھی ہوسکتاہےجوکہ ظلم زیاتی اورنفرت کےماحول کوناپسندکرتا ہے۔2014 کے مقابلے میں2019 کا الیکشن لاکھ گنا پیچیدہ ہے کیونکہ پانچ سال بعد عوام کام کاج کا پورا حساب چاہتےہیں۔2014 میں تو کانگریس کے خلاف ماحول تھا۔
مودی اور بی جے پی کے بڑے نیتاؤں کے لئے آنے والے انتخابات ایک لمحہ فکریہ ہیں . کیا یہ اچھا نہیں ہوتا کہ مودی حکومت ایک riot -free امیج پیش کرتی۔ماب لنچنگ ، گائے کے نام پر تشدد ، نفرت کا ماحول بی جے پی کے لئے ایک حد سے زیادہ ووٹ نہیں دلا سکتا ہے۔اگر سب طبقوں کو ساتھ لے کر چلنا ہے تو ماب لنچنگ کو قانون اور طاقت سے بند کرنا ہوگا۔یاد رہے کہ2004 میں اٹل بہاری واجپائی کی ہار کے پیچھے2002 گجرات دنگے ایک اہم وجہ بنے تھے جس کا اعتراف خود واجپائی جی نے کیا تھا۔
2019کے لوک سبھا انتخاب سے قبل مدھیہ پردیش راجستھان چھتیس گڑھ تلنگانہ اور میزورم میں اسمبلی انتخابات ہیں جہاں عوام کی سوچ اور ووٹنگ پیٹرن کا اندازہ ہوگا۔اس سلسلے میں مودی کی اندور کی مجلس کتنی کارآمد ہوتی ہے یہ تو وقت ہی بتا ئے گا۔
Categories: فکر و نظر