خاص رپورٹ : گزشتہ اپریل میں رام نومی کے دوران بہار میں فرقہ وارانہ تشدد کے کئی واقعات ہوئے تھے۔ اب پچھلے کچھ ہفتوں میں ریاست کے مختلف ضلعوں سی بڑی تعداد میں پولیس نے تلواریں بر آمد کی ہیں۔
اس سال مارچ کے آخری ہفتے سے اپریل کے پہلے ہفتے کے درمیان رام نومی کو لےکر بڑے پیمانے پر بہار میں جلوس نکالے گئے تھے، جن میں خوب تلواریں لہرائی گئی تھیں۔ اسی دوران آدھے درجن سے زیادہ ضلعوں میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعا ت بھی ہو ئے تھے۔ درجنوں دکانوں کو آگ کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ کئی لوگ زخمی ہوئے۔ حالات کو قابو میں کرنے کے لئے انتظامیہ کو کرفیو لگانا پڑا تھا۔
ادھر، پچھلے 15-10دنوں میں بہار کے آدھا درجن علاقوں سے سینکڑوں تلواریں ضبط کی گئیں جو ایک بار پھر ریاست میں سنگین حالات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ تلواروں کی ایک کھیپ سب سے پہلے نالندہ سے پکڑی گئی تھی۔ 11 ستمبر کو نالندہ ضلع کے لاہیری تھانہ حلقے کی دو دکانوں سے تلواریں اور چاقو بر آمد کئے گئے تھے۔ پولیس نے دو دکانوں میں چھاپےماری کر کے 540 تلواریں اور چاقو ضبط کئے تھے۔ اس معاملے میں سنیل کمار ورما اور منشی سنگھ کو گرفتار کیا گیا۔ دونوں دکاندار ہیں۔ انہوں نے چوری چھپے غیر قانونی طریقے سے بیچنے کے لئے تلواریں رکھی تھیں۔
نالندہ کے ایس پی سدھیر کمار پوریکا نے بتایا کہ ان دکانوں میں چوری چھپے تلوار بیچنے کی اطلاع ملی تھی، جس کے بعد چھاپےماری کرکے تلواریں ضبط کی گئیں۔ ادھر، تلواروں کی برآمدگی پر نالندہ کے لاہیری تھانے میں تعینات ایک پولیس افسر نے نام نہ شائع کرنے کی شرط پر کہا، ‘ ہم لوگ محتاط ہیں۔ جہاں سے بھی ہمیں اطلاع مل رہی ہے، ہم کارروائی کر رہے ہیں۔ ‘ انہوں نے تلواروں کی برآمدگی پر فکر ظاہر کی۔
انہوں نے بتایا کہ تفتیش میں پتا چلا ہے کہ تلواریں پٹنہ سے خریدی گئی تھیں اور جن کے پاس سے تلواریں ملی ہیں، ان کے پاس ان کو بیچنے کا لائسنس نہیں تھا۔ نالندہ ان آدھا درجن ضلعوں میں شمار ہے، جہاں رام نومی پر فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات ہوئے تھے۔ نالندہ سے سلاؤ بازار کے قریب رام نومی کے جلوس کو لےکر جھڑپ ہوئی تھی، جس میں کئی دکانوں میں توڑپھوڑ کی گئی تھیں۔ سلاؤ بازار میں رہنے والے رام بالک سنگھ کا کہنا تھا کہ جیسا جلوس اس بار دیکھنے کو ملا، ویسا جلوس انہوں نے اپنی پوری زندگی میں نہیں دیکھا تھا۔
نالندہ سے تلوار کی برآمدگی کے تین دن بعد ہی پٹنہ سے بھی پولیس نے بڑی تعداد میں تلواریں ضبط کیں۔ 15 ستمبر کو پولیس نے کوتوالی تھانہ حلقے کی تین دکانوں اور گوداموں سے ایک ہزار سے زیادہ تلواریں بر آمد کی تھی۔ اس معاملے میں گوپال گنج اور سیوان کے رہنے والے چار لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ وہ دکان چلاتے ہیں۔
پولیس نے بتایا کہ سب سے پہلے سیوان کے رہنے والے وشرام تیواری، رامانند کمار اور گوپال گنج کے رہنے والے راکیش مشرا کو گرفتار کیا گیا۔ ان لوگوں نے غیر قانونی طریقے سے اپنے گوداموں میں تلواریں چھپا رکھی تھیں۔ تینوں سے پوچھ تاچھ کرنے پر پولیس کو ایک چوتھے آدمی راہل کے بارے میں پتا چلا۔ تینوں کی نشاندہی پر پولیس نے چیریاٹاڑ میں چھاپےماری کرکے راہل کے گودام سے 900 تلواریں ضبط کیں۔
پٹنہ پولیس کے ایک سینئر پولیس افسر نے بتایا کہ دونوں نے پوچھ تاچھ میں بتایا ہے کہ انہوں نے پنجاب سے آن لائن آرڈر کرکے تلواریں منگوائی تھیں۔ نالندہ اور پٹنہ کے علاوہ الگ الگ تاریخوں میں بھاگلپور، گیا، ساسارام اور اورنگ آباد سے بھی تلواریں ضبط کی گئی ہیں۔ گیا کے شیرگھاٹی کے حیدر موڑ سے پولیس نے 16 ستمبر کو 70 تلواریں بر آمد کیں۔ پولیس کی کارروائی کے وقت دکاندار تلواریں چھوڑکر بھاگ نکلا۔
گیا کے بعد 17 اگست کو اورنگ آباد ضلع کے رفیع گنج کی لوہار گلی کی دو دکانوں سے پولیس نے 40 تلواریں ضبط کیں۔ محمد مصطفیٰ نامی دکاندار کی دکان سے 29 اور سنتوش مستری کی دکان سے 11 تلواریں ملیں۔ ادھر، 19 ستمبر کو روہتاس ضلع کی پولیس نے ساسارام شہر کے جانی بازار میں چھاپےماری کرکے 59 تلواریں بر آمد کیں۔ حالانکہ پولیس کی کارروائی کے دوران ملزم دکاندار پربھو پرساد بھاگنے میں کامیاب ہو گیا۔ پولیس تفتیش میں پتا چلا ہے کہ اس کے پاس تلوار بیچنے کا کوئی لائسنس نہیں تھا۔
اس سے پہلے بھاگلپور کے ناتھ نگر تھانہ حلقے سے 16 ستمبر کو 41 تلواریں بر آمد کی گئی تھیں۔ پولیس نے اس معاملے میں وجے شاہ اور اس کے بیٹے گڈو شاہ کو حراست میں لیا تھا۔ پولیس کے مطابق، دونوں اپنے گھر میں غیر قانونی طریقے سے تلواریں بیچتے تھے۔ پولیس نے گھر کو سیلکر دیا ہے۔ ناتھ نگر وہی علاقہ ہے جہاں 17 مارچ کو مرکزی وزیر اشونی چوبے کے بیٹے اریجیت شاشوت کی قیادت میں ہندو نوورش پر ریلی نکالی گئی تھی۔ اس ریلی کے بعد وہاں فرقہ وارانہ جھڑپ ہوئی تھی۔
گیا اور اورنگ آباد میں بھی رام نومی کے جلوس کے دوران فرقہ وارانہ جھڑپ ہوئی تھی۔ یہاں یہ بھی بتا دیں کہ مارچ-اپریل میں رام نومی کے جلوس کو لےکر بھی آن لائن ہی بڑی تعداد میں تلواریں منگوائی گئی تھیں۔ فرقہ وارانہ فسادات کی تفتیش کرنے آئی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم یونائیٹڈ اگینسٹ ہیٹ کی سات رکنی ٹیم نے اس کا انکشاف کیا تھا۔ اس ٹیم میں سماجی کارکن ندیم خان، مہتاب عالم اور فراح ساقب، صحافیوں میں پرشانت ٹنڈن، حسن ، طارق انور اور ساگریکا کسّو شامل تھے۔
پرشانت ٹنڈن کہتے ہیں، ‘ رام نومی میں فرقہ وارانہ جھڑپ کے بعد جانچکے سلسلے میں ہم نے ہوم سکریٹری عامر سبحانی سے ملاقات کی تھی۔ اس وقت ہوم سکریٹری نے قبول کیا تھا کہ انتظامیہ کو اس بات کی جانکاری تھی کہ آن لائن بڑی تعداد میں تلواریں خریدی گئی تھیں۔ ‘ انہوں نے کہا، ‘ ہماری تفتیش میں بڑے پیمانے پر تلواروں کی موجودگی کے بارے میں پتا چلا تھا۔ پولیس انتظامیہ نے اگر ان کی برآمدگی نہیں کی ہے اور آن لائن تلوار بیچنے والی کمپنیوں پر نگرانی نہیں رکھی جا رہی ہے، تو یقینی طور پر ابھی بھی بڑی تعداد میں تلوار لوگوں کے پاس موجود ہے۔ یہ فکر کی بات ہے۔ پولیس انتظامیہ کو فوری کارروائی کرتے ہوئے تلواریں ضبط کرنی چاہیے اور ساتھ ہی آن لائن سائٹس پر بھی نگرانی رکھنی چاہیے۔ ‘
ویسے آن لائن تلواریں منگوانا بہت مشکل نہیں ہے۔ اس کے لئے آن لائن پلیٹ فارم پر بس رجسٹریشن کروانا پڑتا ہے۔ اس کے بعد جتنی تعداد اور جہاں چاہیں، وہاں تلواریں منگوا سکتے ہیں۔ آن لائن تلواریں بیچنے والی کمپنیاں کبھی بھی بڑی تعداد میں تلواریں منگوانے کی نہ تو کوئی وجہ پوچھتی ہیں اور نہ ہی کسی طرح کا کاغذی پروسیس اپناتی ہیں۔ انتظامیہ بھی اس طرف دھیان نہیں دیتا ہے۔
اس تعلق سے ہوم سکریٹری کا خیال جاننے کے لئے کئی بار فون کیا گیا، لیکن ان کے دفتر سے ہر بار یہی بتایا گیا کہ وہ کسی میٹنگ میں مصروف ہیں۔ ان کے آفیشیل میل پر سوالوں کی فہرست بھیجی گئی ہے۔ خبر لکھے جانے تک ان کی طرف سے کوئی جوابی میل نہیں آیا تھا۔ جواب آنے پر اس کو رپورٹ میں شامل کر لیا جائےگا۔ بہر حال، اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اکتوبر 2017 سے اپریل 2018 تک بہار کی الگ الگ جگہوں سے تقریباً 30000 مذہبی ریلیاں نکل چکی ہیں۔ ان میں سے کئی ریلیاں فرقہ وارانہ کشیدگی کا باعث بھی بنیں۔
فرقہ وارانہ کشیدگی کے اعداد و شمار بھی صوبے کی تشویش ناک تصویر پیش کر رہے ہیں۔ بہار پولیس سے ملے اعداد و شمار کے مطابق اس سال جنوری سے جون تک فساد کے 5630 واقعات ہو چکے ہیں۔ فساد کی سب سے زیادہ واردات مئی مہینے میں درج کی گئی۔ مئی میں فساد کی 1281 وارداتیں درج کی گئیں۔ یہاں غور کرنے والی بات یہ بھی ہے کہ فرقہ وارانہ کشیدگی کے واقعات ان علاقوں میں بڑھے ہیں، جہاں پہلے کبھی ایسی واردات نہیں ہوئی تھی۔
گزشتہ 12 ستمبر کو بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار نے سینئر پولیس افسروں کے ساتھ میٹنگ میں اس پر گہری فکر کا اظہار کیا تھا اور پوچھا تھا کہ آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے کہ نئے علاقوں میں فرقہ وارانہ واقعات بڑھ رہے ہیں ۔ میٹنگ میں انہوں نے کہا تھا، ‘ ہمیں فرقہ وارانہ واقعات کی وجوہات کو جاننے کی ضرورت ہے۔ ‘ انہوں نے حساس علاقوں پر باقاعدہ نگرانی رکھنے کی بھی ہدایت دی تھی ۔
بہار میں آن لائن ذرائع سے تلوار کی خرید اور الگ الگ حصوں سے تلواروں کی برآمدگی کے بارے میں پولیس کے سینئر افسر سے بات کی گئی، تو انہوں نے کہا کہ تلوار خریدنے اور بیچنے والوں پر سخت کارروائی کی ہدایت دی گئی ہے۔ بہار پولیس کے اے ڈی جی (لاء اینڈ آرڈر) آلوک راج نے کہا، ‘ تلواروں کی فروخت کو لےکر سخت ہدایت دی گئی ہے۔ جہاں سے بھی اس طرح کی اطلاع مل رہی ہے، پولیس کارروائی کر رہی ہے۔ ‘
آن لائن فروخت کے پر سوال انہوں نے کہا، ‘ اس پر ہماری نظر ہے۔ بڑی تعداد میں تلوار خریدنے والوں پر بھی کارروائی کی جائےگی۔ ‘ لیکن، انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ رام نومی کے وقت آن لائن بڑی تعداد میں تلوار خریدنے والوں کے خلاف کیا کارروائی ہوئی۔ پولیس افسر بھلےہی آن لائن خرید پر بھی کارروائی کرنے کی بات کر رہے ہوں، لیکن رام نومی کے وقت آن لائن ذرائع سے بڑی تعداد میں تلوار خریدنے والوں پر ابتک کسی طرح کی کارروائی نہیں ہونا پولیس کے دعوے کو کمزور کرتا ہے۔
(مضمون نگار آزادصحافی ہیں اور پٹنہ میں رہتے ہیں ۔)
Categories: خبریں