فیس بک اور ٹوئٹر پر ایک تصویر میں دکھایا گیا کہ بی جے پی کے ترجمان سمبت پاترا ABP نیوز چینل کے کسی پروگرام میں کسانوں کو غدار کہہ رہے ہیں۔
23 ستمبر کو ہری دوار سے کسان کرانتی یاترا شروع ہوئی تھی۔ کسان ملک کی راجدھانی نئی دہلی کی طرف بڑھ رہے تھے۔ ان کے فصل کے صحیح دام اور سستی شرح پر بجلی سمیت کئی مطالبے تھے۔2 اکتوبر کو جب تقریباً 70 ہزار کسانوں کا ہجوم اپنے ٹریکٹر اور ٹرالیوں کے ساتھ دہلی میں داخل ہو رہا تھا تو دہلی پولیس نے ان کو اتر پردیش بارڈر پر ہی روکنے کی کوشش کی۔ ان پر آنسو گیس کے گولوں اور واٹر کینن سے حملہ کیا گیا۔
جب اس طرح کا کوئی معاملہ رونما ہوتا ہے، تو سوشل میڈیا میں اس کے متعلق خبریں عام ہونے لگتی ہیں اور ان خبروں میں کچھ خبریں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا ہے ۔ ایسی ہی ایک جھوٹی خبر یعنی فیک نیوز گزشتہ ہفتہ کسان کرانتی یاترا کے بعد بھی عام ہوئی۔دراصل فیس بک اور ٹوئٹر پر ایک تصویر میں دکھایا گیا کہ بی جے پی کے ترجمان سمبت پاترا ABP نیوز چینل کے کسی پروگرام میں کسانوں کو غدار کہہ رہے ہیں: تصویر میں پاترا سے منسوب یہ جملہ لکھا تھا؛
دہلی میں داخل ہونے والے یہ لوگ کسان نہیں غدار ہیں !
اس تصویر کو متعدد افراد نے سوشل میڈیا میں شئیر کیا اور ڈاکٹر پاترا سے ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے اس کی مذمت کی! 3 اکتوبر کو فلم ڈائریکٹر اویناش داس نے اسی تصویر کو اپنے ٹوئٹر پر شئیر کیا اور سمبت پاترا کو ٹیگ کرتے ہوئے پوچھا:
یہ کیا ہے سمبت پاترا جی !تھوڑی شرم تو باقی رہنے دیجئے !
ये क्या है @sambitswaraj जी! थोड़ी शरम तो बाकी रहने दीजिए। #KisanKrantiYatra pic.twitter.com/tyhyt9vnYv
— Avinash Das (@avinashonly) October 3, 2018
4اکتوبر کو سمبت پاترا نے اویناش داس کے ٹوئٹ کو ری ٹوئٹ کرتے ہوئے ٹوئٹر انڈیا سے شکایت کی کہ یہ جھوٹی تصویر ہے جس کو فوٹو شاپ کی مدد سے بنایا گیا ہے۔ سمبت پاترا نے ٹوئٹر انڈیا سے درخواست کی کہ اویناش داس کے خلاف سخت قدم اٹھائے جائیں !
الٹ نیوزنے اپنے انکشاف میں بتایا کہ جس پروگرام میں سمبٹ پاترا پریس کانفرنس کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں اس کی ویڈیو یو ٹیوب پر موجود ہے ۔
ویڈیو میں 2:48 پر وہی منظر سامنے آتا ہے تو جھوٹی تصویر میں موجود ہے لیکن اسکرین پر جو لکھا ہے وہ تصویر سے با لکل مختلف ہے۔ اصل تصویر میں لکھا تھا کہ راہل گاندھی اپواس نہیں اپھاس(مذاق) کر رہے ہیں ! لہٰذا وہ تصویر جھوٹی ثابت ہوئی جس میں غلط طریقے سے سمبت پاترا سے منسوب کرتے ہوئے لکھا تھا کہ دہلی میں داخل ہونے والے یہ لوگ کسان نہیں غدار ہیں !
مبینہ طور پر کسان کرانتی یاترا سے تعلق رکھنے والی ہی دوسری تصویر بھی سوشل میڈیا میں بہت وائرل ہوئی۔ تصویر میں ایک بزرگ شخص پولیس سپاہی کے سامنے کھڑا ہے۔ بزرگ کے ہاتھ میں ایک اینٹ ہے اور وہ اس اینٹ کو سپاہی طرف مارنے کا اشارہ کر رہا ہے۔ سپاہی کے ہاتھ میں بندوق ہے۔اس تصویر کو بزرگ کی ہمت کی مثال کے طور پر وائرل کیا گیا تھا۔ اس تصویر کو ٹوئٹر پر کویتا کرشنن نے بھی شئیر کیا تھا۔ کویتا کمیونسٹ پارٹی (ایم ایل ) کی پولٹ بیورو ممبر ہیں۔ انہوں نے لکھا تھا:
اس تصویر میں اس کسان کو دیکھو جس کے ہاتھ میں اینٹ ہیں اور اس سپاہی کو بھی دیکھو جس کے ہاتھ میں بندوق ہے۔ کسان کوکیا آپ دہشت گرد کہہ کتے ہیں؟ آپ نہیں کہہ سکتے۔اگر آپ اس کسان کو دہشت گرد نہیں کہہ سکتےتو جس کشمیری بچے کے ہاتھ میں پتھر ہو وہ کیسے دہشت گرد ہو سکتا ہے۔
سوشل میڈیا ہوَش سلئر نے حقیقت سے پردہ اٹھایا اور بتایا کہ یہ تصویر کسان کرانتی یاترا کی نہیں ہے بلکہ 2013 کے جاٹ ریزرویشن تحریک کی ہے جو میرٹھ اور مغربی اتر پردیش کے دوسرے علاقوں میں ہوا تھا۔ اس تصویر کو جب گوگل میں ریورس امیج سرچ کیا گیا تو انڈین ایکسپریس کی 2013 کی خبر سامنے آئی جو ایکسپریس آرکائیو میں موجود ہے۔ یہ تصویر تقریباً پانچ برس پرانی ہے جس کو غلطی سے گزشتہ ہفتے شئیر کیا گیا۔ کویتا کرشنن نے اپنی اس غلطی کی معافی مانگی لیکن انہوں نے کہا کہ تصویر پرانی ہو یا نئی لیکن میری بات کا سیاق وہی رہےگا !
پٹرول کی بڑھتی قیمتوں نے شہریوں کی جیب پر بہت اثر ڈالا ہے اور ہم اس حقیقت کے بھی گواہ ہیں کہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہونے پر کس طرح فیک نیوز کو عام کیا جاتا ہے۔ مئی کے مہینے میں جرمنی کے حوالے سے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ جب جرمنی میں پٹرول کی قیمتوں میں بیحد اضافہ کیا گیا تھا تو لوگوں نے اپنی کار اور گاڑیاں سڑکوں پر ہی چھوڑ دی تھی تا کہ حکومت کے خلاف احتجاج اور مظاہرہ ہو۔ گزشتہ ہفتے ایک ویڈیو وائرل ہوا۔ ویڈیو مبینہ طور پر اڑیسہ صوبے کے پوری ضلع کا ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ شہری ایک پٹرول پمپ کو پامال کر رہے ہیں، اس میں توڑ پھوڑ کر رہے ہیں۔ ویڈیو کے ساتھ دعویٰ کیا گیا کہ لوگ پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے خفا ہیں اور غصّے میں پٹرول پمپ کو توڑ رہے ہیں اور وہاں کے ملازمین کے ساتھ مار پیٹ کر رہے ہیں۔
اس ویڈیو کو متعدد افراد نے اپنے فیس بک پر شئیر کیا اور یہ دعویٰ کیا کہ جب پوری ضلع میں پٹرول کی قیمت 100 روپے فی لیٹر ہو گئی تو لوگوں نے یہ قدم اٹھایا! حالانکہ یہ دعوے جھوٹے تھے اور بوم لائیو نے انکشاف کیا کہ یہ ویڈیو بیشک پوری ضلع کا ہے لیکن وہاں اس تصادم کا سبب بڑھی ہوئی قیمتیں نہیں تھا ۔ بوم نے بتایا کہ یہ ویڈیو28ستمبر کا ہے اور اس دن پوری میں پٹرول کی قیمت 82 روپے فی لیٹر تھی۔
شہریوں اور پٹرول پمپ ملازموں کا تصادم اس لئے ہوا تھا کیونکہ ملازموں پر یہ الزام تھا کہ وہ پٹرول کی تول درست نہیں کر رہے ہیں اور شہریوں کی گاڑیوں، کاروں اور دیگر آلات میں کم پٹرول ڈال رہے ہیں اور پٹرول کی چوری کر رہے ہیں ! ا ڑیسہ بائٹس نامی ویب سائٹ نے اس خبر کو شائع کیا تھا۔
لہٰذا پٹرول پمپ کی ویڈیو کی حقیقت یہ ہے کہ ویڈیو میں جو تصادم سامنے آیا ہے وہ پٹرول کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس الزام کی وجہ سے ہے کہ پٹرول پمپ پر گاہکوں کے ساتھ فریب کیا جا رہا تھا، زیادہ قیمت لیکر ان کو کم تول سے پٹرول دیا جا رہا تھا !